خوش اخلاقی-تُو کہاں ہے؟۔۔سعید چیمہ

یہاں سبھی کے اندر رعونت بھری ہوئی ہے، ہر کوئی اپنی ذات میں فرعون ہے، کوئی چھوٹا تو کوئی بڑا۔ نرم مزاجی یہاں عنقا ہے، خوش اخلاقی سے دور کا واسطہ بھی نہیں، غور کیجیے یہ کن کی اُمت ہے کہ جو خوش اخلاق نہیں ہے،”اے نبیﷺ ! اگر آپ تُند خُو ہوتے تو یہ لوگ آپ کی طرف متوجہ نہ ہوتے” حضور کے اخلاق کیسے تھے؟ کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا، قرآن آپ کا خلق ہی تو ہے، سیدہ عائشہ نے جواب دیا تھا۔

رسالتمآبﷺ کے لہجے میں محبت کے پھول تھے، اور ان پھولوں کی خوشبو تک ہر کسی کو رسائی حاصل تھی، کافر و مسلم، مومن و منافق میں تمیز نہ برتی جاتی تھی، یہاں مگر لہجوں میں طیش ہے، یہ طیش کا کلہاڑا دوسروں پر چلنے کے لیے ہر وقت برہنہ رہتا ہے، ان کے جسمِ اطہر پر اوجھڑی ڈالی جائے، رستے میں کانٹے بچھائے جائیں اور گلے میں کپڑا ڈال کر اس قدر مروڑا جائے کہ چہرہ انور سرخ ہو جائے، اس سب کے باوجود بھی ان مبارک لبوں سے صرف دعائے ہدایت نکلے۔ یہاں اختلافِ رائے بھی اگر کوئی کرے تو اسے گالی دی جاتی ہے، کبھی غداری کی، کبھی ایجنٹ کی اور کبھی تقدیس بھرے رشتوں کی۔

اُدھر حال یہ ہے کہ دعوت سے لوگ اسلام کی سرزمین پر خیمہ زن ہو رہے ہیں، اور اِدھر حال یہ ہے کہ لوگ خیمے لپیٹ کر اسلام کی سرزمین سے ہجرت کر رہے ہیں، اس ملحد کی بات کیسے بھول جاؤں جو کہتا ہے کہ تمہارے ان علما  نے مجھے اسلام سے متنفر کر دیا ہے،اب میں کسی خدا کو نہیں مانتا، کسی عالم نے مجھے میرے سوالوں کا جواب نہ دیا، میں ملحد نہ ہوتا اور کیا کرتا۔

ایک ہی مورچے میں بیٹھ کر ہم نے ایک دوسرے پر بندوقیں تانی ہوئی ہیں، لوگوں کی باتوں سے لاوا اگلتا ہے جو دوسروں کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لیے ٹھاٹھیں مارتا رہتا ہے، آواز میں جلال ہے جو دوسروں کو حلال کرنے کے لیے ہر وقت بے تابی کی کیفیت میں رہتا ہے، غلطیوں کو نظر انداز کرنا یہاں نہیں سکھایا جاتا، ایک غلطی تمام اچھائیوں پر ایسے غالب آتی ہے جیسے کبھی منگول خوارزم شاہ پر غالب آئے تھے، خدایا یہ ہم کس ڈگر پر چل نکلے ہیں،  ایسے رستوں پر محوِ سفر ہیں جہاں سے واپسی نہیں ہوتی۔

تربیت کرنے والے وہ اساتذہ جو کبھی اشفاق احمد، بانو قدسیہ اور واصف علی واصف ہوا کرتے تھے وہ کہاں ہیں، اب اساتذہ ایسے چراغوں سے روشنی کہاں ہوتی ہے، بلکہ ظلمت کدے میں اندھیرا گہرا ہو رہا ہے،  درس گاہیں اب مقتل گاہیں ہیں، جہاں طالب علموں کو ذبح کیا جاتا ہے اور جو طالب بچ جائے وہ پھر فارغ التحصیل ہو کر معاشرے کو ذبح کرنے کا بیڑا اٹھا لیتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ترجیحات ہماری کچھ اور ہیں، دین کا علم صرف قرآن پڑھنے تک محدود ہے اور دنیا کا علم ڈگریوں تک۔  اب بتائیے تربیت اور ترقی کے لیے جو بنیادیں تھیں، ہماری عمارت ان بنیادوں پر استوار کی گئی نہ کی جا رہی ہے، اصلاحِ معاشرے  کا ہر کوئی بیڑا اٹھانا چاہتا ہے، مگر اصلاحِ خودی کے لیے کوئی تیار نہیں، خود تو کیچڑ ایسی دلدل میں ہیں اور دوسروں کے لیے خواہشمند ہیں کہ وہ چمنستان میں بہاریں دیکھیں،  دو  کام ہمارے ذمے لگائے گئے تھے، کائناتِ خدا کی طرف سے۔ اصلاح اور ایمان کی دعوت، پہلے اپنی اصلاح کرنا اور پھر ایمان کی دعوت دینا،  جب کوئی اپنی اصلاح ہی کوئی نہیں کرتا تو پھر دعوت کیسے دے سکتا ہے، اور جو دعوت دے رہے ہیں الا ماشاءاللہ۔

Facebook Comments