گندہ ہے پر دھندہ ہے یہ۔۔زین سہیل وارثی

2002ء میں بھارت میں ایک فلم پیش کی گئی تھی جس کا نام کمپنی تھا، جو ایک مافیا ڈان اور اسکے شاگرد کے گرد گھومتی تھی۔ اس کا ایک نہایت مشہور گانا تھا جس کے الفاظ تھے، “گندہ ہے پر دھندہ ہے یہ”۔
ہمارے ہاں تقریبا تمام بڑے سیاسی رہنماؤں بھٹو سے لیکر عمران خان تک نے آمریت کے سائے میں پرورش پائی ہے، اس لئے بیچارے ابھی تک سیاست سیکھ نہیں پائے، جب بھی سیاست اور مقتدر حلقوں کا سہارا لیکر پارلیمان میں پہنچتے ہیں، تو جمہوری آمر بن جاتے ہیں۔ قائد عوام ہوں، انکی دختر نیک اختر ہوں، میرے محبوب قائد ہوں، یا میرے کپتان۔
انسان کو دنیا میں مذہب سے بھی زیادہ اگر کوئی چیز عزیز ہوتی ہے تو وہ دھندہ ہے۔ دھندہ بچانے کے لیے وہ ہر حد پار کر سکتا ہے، مخالفین پر پرچہ کاٹ سکتا ہے، سیاسی مخالفین کو گرفتار کر سکتا ہے اور کرونا کے دنوں میں جلسہ کر سکتا ہے۔
حکومت اور حزب اختلاف اپنا اپنا دھندہ چلا رہی ہیں، حزب اختلاف میرے کپتان کو جانے کا مشورہ دے رہی ہے ٹھیک اسی طرح جس طرح میرے کپتان 2014ء میں میرے محبوب قائد کو مشورہ دیتے تھے، اوئے نواز شریف اب وہی نواز شریف اوئے عمران خان، مولانا فضل الرحمن صاحب سے کہلوا رہے ہیں بلکہ وہ تو دو قدم آگے جا کر ان کو بھی للکار رہے ہیں جو کپتان کو لائے ہیں، حالانکہ 2013ء میں وہ خود بھی ان کی مدد سے آئے تھے، جب ان کے چھوٹے بھائی خادم اعلی اور ان کے قریبی رفیق چوہدری نثار گیٹ نمبر 4 میں خفیہ ملاقاتیں کرتے تھے۔ کپتان کے جانے سے آٹا، چینی و باقی اشیاء خورونوش کی قیمتیں کم نہیں ہونی نا ہی میرے محبوب قائد کی دختر نیک اختر کے حکومت میں آنے سے یہ مسائل حل ہوں گے، نا ہی میرے عظیم سیاسی رہنما جناب زرداری صاحب کے بیٹا جی یہ معاملات سدھار سکتے ہیں۔ غریب نے اسی طرح دھکے کھانے ہیں جیسے اسے آج مل رہے ہیں۔ آج میرے کپتان دے رہے ہیں کل میرے محبوب قائد اور میرے سیاسی رہنما دے رہے تھے۔
یہ بلکل اسی طرح ہے کہ پنجاب کے دوسرے اضلاع میں جب مریض کی حالت تشویشناک ہو تو ڈاکٹر کہتے ہیں ” اینو لاہور لے جاو” مطلب اسکا یہی ہوتا ہے کہ بس مریض کا ٹائم پورا ہو گیا ہے دعائے خیر کروا لیں۔ عوام کا کچھ نہیں ہونا ان کے دھکے زیادہ ہو سکتے ہیں کم نہیں۔
فی الوقت مدعا یہ ہے کہ میرے محبوب قائد تو صادق و امین نہیں تھے، ان کے بارے میں تو نامعلوم افراد نے بھی بتایا ہے کہ آئی جی آئی جب بنائی گئی تو خفیہ ہاتھوں نے 35 لاکھ دئے تھے بقول اسحاق ڈار اس وقت وہ سیاسی ارتقائی عمل سے گزر رہے تھے، معلومات کے لئے جنرل اسد درانی سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ میرے محبوب قائد کو تو سزا دی جا چکی ہے مگر پیسے دینے والے کا ذکر آتے ہی لوگوں کے پاوں جلتے ہیں۔ حالانکہ رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ عوام اب بھی دھکہ کھا رہی جب ملک کی قیادت نیک، ایماندار اور خوبرو ہے۔ انکے صادق اور امین ہونے کی سند تو عدلیہ نے بھی دی ہے نیز ہمارے جید علماء کرام بھی اس بات پر تصدیق مہر ثابت کر چکے ہیں۔ معلوم نہیں جو اربوں کی کرپشن اور منی لانڈرنگ میرے محبوب قائد کے دور میں ہو رہی تھی وہ اب تک بھی جاری ہے۔ نا جانے وہ کون سی مخلوق ہے جو یہ سب کر رہی تھی اور اب بھی کر رہی ہے، لگتا ہے اسی خلائی مخلوق اور محکمہ زراعت کا حزب اختلاف ذکر کرتی ہے۔ ذرائع ابلاغ پر بندشوں کے بعد لوگ اسی طرح کے شگوفے چھوڑتے ہیں۔
ایک بات میری سمجھ سے بالاتر ہے، ساری زندگی ہم شناختی کارڈ بنوانے سے لیکر پاسپورٹ بنوانے تک رشوت دیتے اور لیتے ہیں، مگر گلہ حکمرانوں سے کرتے ہیں۔ کیونکہ ہم بھی جانتے ہیں “گندہ ہے پر دھندہ ہے یہ”۔ آپ وقت پر صبح شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس، پاسپورٹ اور دیگر سرکاری اداروں میں جائیں تو آپ کو کبھی رشوت نا دینی پڑے۔ ہمارا ضمیر اپنے حکمرانوں کی بدعنوانی پر ہی کیوں جاگتا ہے، کبھی اپنی چارپائی کے نیچے ہمیں جھاڑو پھیرنے کی توقع نہیں ہوئی۔ ہمارے جتنے سیاسی رہنما، ریٹائرڈ جنرلز اور ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہیں ان کا ضمیر بھی ملازمت ختم ہونے یا حکومت ختم ہونے کے بعد جاگتا ہے، اس سے پہلے ضمیر مہ نوشی کا شکار ہوتا ہے، جاگ رہا ہو تو نیند کی گولی دے کر سلا لیا جاتا ہے۔ یہ معاملہ بھی اسی طرح ہے کہ جب ہم قریب المرگ ہوتے ہیں تو آزاد خیال سے رجعت پسند ہو جاتے ہیں نیز عبادات شروع کر دیتے ہیں کہ ہمارے مظالم جو انسانوں پر ڈھائے ہوتے ہیں ان کو عبادات کے نتیجہ میں این آر او مل جائے گا۔ رہ گئی بات این آر او دینے کی یا لینے کی، وزیراعظم صاحب کی خدمت میں عرض ہے، آپ این آر او دینے کی حقیقی قوت رکھتے نہیں، حزب اختلاف این آر او انھی سے مانگ رہی ہے جن کے گھر کے ایک دروازہ کا نمبر 4 ہے اور وہاں اکثر خفیہ ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ دوسرا حزب اختلاف اس تمام سیاسی ہنگامہ میں عمران خان کو ایک اور پیغام بھی دے رہی ہے:

بیکار مباش، کچھ کیا کر—
کپڑے ہی ادھیڑ کر سیا کر !​

Advertisements
julia rana solicitors

خان صاحب بھی اس بات کو سمجھ رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ میرے کپتان نے بھی میرے محبوب قائد کی طرح کپڑے ادھیڑ کر سینے شروع کر دیے ہیں، بڑے بڑے منصوبہ جات کی بڑی بڑی تصاویر کو اخبارات میں آویزاں کیا جا رہا ہے اور ثابت کیا جا رہا ہے کہ ملک ترقی کی وہ منازل طے کر رہا ہے، جو پہلے ادوار میں ناممکن تھیں۔
آخر میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی تمام تر مشق کا مقصد یہ ہے کہ مقتدر قوتوں کو اس بات پر قائل کر لیا جائے کہ وہ اس اقتدار کی مساوات میں ساکت ہو جائیں تا کہ مقابلہ حکومت اور حزب اختلاف میں دو بدو ہو سکے پھر حقیقت میں اس بات کا اندازہ ہو سکے کہ کس میں ہے کتنا دم۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply