• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • بلتستان میں متنازع نعرہ، پس پردہ سازشیں، وجوہات، حقائق اور ریاست سے اُمیدیں۔۔شیر علی انجم

بلتستان میں متنازع نعرہ، پس پردہ سازشیں، وجوہات، حقائق اور ریاست سے اُمیدیں۔۔شیر علی انجم

گزشتہ ہفتے سانحہ مچھ بلوچستان کے خلاف سکردو میں جو احتجاجی مظاہرہ ہوا، اس مظاہرے میں بلتستان کے چاروں اضلاع سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک تھے۔ ٹھاٹھیں مارتے اس عوامی سمندر میں جہاں حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی، وہیں درمیان میں بیس سکینڈ کے دورانیے پر مبنی ایک نعرہ بھی سنائی دیا، جو افواج پاکستان کے خلاف تھا۔ اس قسم کے نعرے بلتستان جیسی حساس سرزمین پر لگنا کئی حوالے سے افسوسناک ہونے کے ساتھ خطرناک بھی ہیں۔ لیکن اس کی وجوہات کو تلاش کرنا ریاست کی اہم ذمہ داری ہے۔ کیونکہ یقیناً یہ نعرہ نفرت سے نہیں بلکہ غصے میں کسی نے لگایا ہوگا اور اس نعرے کی عوامی سطح پر بھرپور مذمت بھی کی گئی ہے۔

انجمن امامیہ بلتستان کے صدر سید باقر الحسینی نے سکردو میں شہید آغا ضیاء الدین کی برسی کے موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس نعرے سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا اور بتایا کہ انجمن امامیہ افواج پاکستان کی قدر کرتی ہے۔ساتھ ہی انہوں نے شکوہ بھی کیا کہ بعض فوجی ذمہ داران کی جانب سے دہشت گرد اور شدت پسند عناصر کو شیلڈ دینا اور سانحہ مچھ کو چھے دن گزرنے کے باوجود بھی فوج کی جانب سے مذمتی بیان نہ آنا سوالیہ نشان ہے اور ہم سوال کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

اسی طرح انجمن تاجران سکردو کے سیکرٹری جنرل احمد چو شگری نے بھی سوشل میڈیا پر لکھا کہ سکردو میں نکالی گئی تاریخی احتجاجی ریلی میں کچھ نعرے ایسے لگے، جنہوں نے سکردو انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداران سمیت اسٹبلشمنٹ کے در و دیوار ہلا کر رکھ دیئے ہیں۔ اس روز سے لیکر آج تک انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداروں سمیت تمام ریاستی ادارے آئندہ آنے والے وقتوں میں ایسے نعروں کی روک تھام کے لئے نہ صرف عوام پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ علمائے کرام کو بھی پریشرائز کرنے کی بھرپور کوشش کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

بلتستان پورے پاکستان کا وہ واحد خطہ ہے، جہاں کے عوام اور علما  پاکستان آرمی کو پورے ملک کے عوام کے مقابلے میں زیادہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہاں کی ہر مجلس و محافل میں سب سے پہلے ریاست پاکستان کے استحکام اور پاکستان آرمی کی کامیابی کے لئے خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں۔ ریاستی اداروں اور انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداروں کو چاہیے کہ پاکستان اور پاک آرمی کے لئے ہر وقت دعائیں کرنے والے عوام کی زبان سے ایسے نعرے لگانے کے بنیادی محرکات پر نہ صرف توجہ دیں بلکہ ایسے محرکات کے سدباب کے لئے کوشش کریں۔ اگر آپ نے ان محرکات پر توجہ دیئے بغیر عوام اور علما  کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی تو آئندہ آنے والے وقتوں میں اس سے بھی سنگین نتائج سامنے آسکتے ہیں۔

انہوں نے مزید لکھا کہ بلتستان وہ واحد خطہ ہے، جہاں انتظامیہ اور ریاستی اداروں نے مل کر عوام کو محکوم بنا کر رکھا ہوا ہے۔اوّل تو بلتستان کے عوام کو وہ حقوق نہیں ملتے، جو ملک یا گلگت بلتستان کے دیگر علاقوں کو ملا کرتے ہیں۔ جو حقوق بمشکل ملتے ہیں، وہ انتظامیہ کے چند اعلیٰ افراد اور ریاستی اداروں کی ملی بھگت سے عوام تک صحیح مراعات کے ساتھ نہیں پہنچتے۔ بلتستان کی نئی نسل ہر طرح سے محرومیت کا شکار دکھائی دے رہی  ہے۔ انہوں نے بلتستان کی نسلِ  نو کی محرومیت کے سات اسباب کا ذکر کیا ہے، جو سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ اس نعرے کو مختلف زاویوں سے دیکھتے ہوئے وجوہات تلاش کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جن میں سے کچھ وجوہات کا تذکرہ انجمن امامیہ اور انجمن تاجران کے ذمہ داران نے کیا ہے۔ لیکن جو سب سے بڑی وجہ ہے، اس طرف شاید کسی نے توجہ نہیں دی۔

یہ بات ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں اہل تشیع کے خلاف کفر کے فتوؤں کا سلسلہ ضیاء الحق کے دور میں طوفان کی طرح آیا اور باقاعدہ طور شیعہ کافر ہونے کا فتویٰ جاری کیا گیا، جس کے نتیجے میں سانحہ 1988ء، سانحہ بابو سر، سانحہ چلاس جیسے واقعات رونما ہوئے۔لیکن متاثرین آج بھی انصاف کے منتظر ہیں، جبکہ شدت پسند عناصر سرکاری پروٹوکول میں دندناتے اہل تشیع مکتب فکر کو للکارتے رہے، جس کے نتیجے میں کراچی سے لیکر گلگت بلتستان اب تک ہزاروں لوگ صرف شیعہ ہونے کی وجہ سے قتل ہوئے اور قاتلوں کا کچھ علم نہیں بلکہ آج وہ پنجاب میں تحریک انصاف کے سیاسی اتحادی ہیں۔

اس مذہبی شدت پسندی میں کوئٹہ میں آباد ہزارہ شیعہ سب سے زیادہ متاثر ہوئے، لیکن نیشنل ایکشن پلان جو گلگت بلتستان میں بنیادی حقوق کا سیاسی مطالبہ کرنے والوں پر بروقت نافذ ہوتا ہے، لیکن یہ قانون یہاں مکمل طور پر غیر فعال یا ناکام نظر آتا ہے۔

گزشتہ ہفتے   بلوچستان کے علاقہ مچھ میں محنت کشوں کو عقیدے کی بنیاد پر ذبح کرکے ایک بار پھر کربلا کے واقعے کی یاد تازہ کر دی گئی ۔ اس المناک واقعے کے بعد پاکستان بھر میں دھرنے شروع ہوئے اور لواحقین نے وزیراعظم عمران خان سے مطالبہ کیا کہ وہ ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے ان کے سر پر ہاتھ رکھنے اور زخموں پر مرہم رکھنے آجائیں۔لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ زلفی بخاری اور علی زیدی کو اپنا نمائندہ بنا کر وہاں بھیجا۔ زلفی بخاری کے غیر سنجیدہ سوالات نے عوام کو مزید مشتعل کر دیا اور وزیراعظم کوئٹہ آؤ، کے مطالبے میں تیزی آگئی اور دھرنوں میں اضافہ ہوا اور ٹویٹر پر یہ مطالبہ مسلسل ٹاپ ٹرینڈ پر رہا۔ لیکن وزیراعظم نے اس وقت دنیا کو حیران کر دیا، جب کسی تقریب میں انہوں نے کہا کہ مجھے بلیک میل کرنے کی کوشش نہ کرو اور پہلے میتوں کو دفناؤ، پھر میں کوئٹہ آؤں گا۔

یوں اس اعلان نے جہاں پر زخموں پر نمک چھڑک دیا، وہیں ریاست مدینہ کا نعرہ جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوا،اور عوام نے ریاست کے اوپر غم و  غصے کا اظہار شروع کر دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر اور فیس بک پر وزیراعظم عمران خان کے ماضی میں دہشت گردوں کے خلاف وہ تمام ٹویٹس اور ویڈیوز مسلسل وائرل ہونا شروع ہوگئیں، جن میں انہوں  نے کالعدم لشکر جھنگوی کو شیعہ نسل کشی کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔کئی ایسی  ویڈیوز بھی منظر عام پر آئیں ، جن میں وزیراعظم عمران خان اور وزیر داخلہ شیخ رشید کو ریاستی اداروں اور اسٹبلشمنٹ پر سخت تنقید کرتے ہوئے دہشتگردی کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ یوں یقیناً سکردو میں بھی کچھ جذباتی نوجوانوں نے بیس سیکنڈ کیلئے غم  و  غصے کا اظہار کیا تو یقیناً وہ عمران خان، شیخ رشید احمد، مولانا فضل الرحمن، پی ٹی ایم، پی ڈی ایم کے نعروں، تقاریر اور ٹیوئٹس سوشل میڈیا پر دیکھ کر اور ان سے متاثر ہوکر کیا ہوگا، جو کہ قابل مذمت ہے۔

سانحہ مچھ کے لواحقین کی آواز پر وزیراعظم عمران خان نے لبیک نہیں کہا، البتہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ ہزارہ شیعوں کے سر پر دست شفقت رکھنے پہنچ گئے، جس کی خوب پذیرائی ہوئی، عوامی سطح پر اور سوشل میڈیا پر خوب سراہا گیا۔ گزشتہ روز سکردو امامیہ جامع مسجد میں خطبہ جمعہ سے خطاب کرتے ہوئے امام جمعہ سید باقر الحسینی نے اس بات کو پھر سے دہرایا اور اس قسم کے نعروں کے سدباب کیلئے مُلکی سطح پر جامع حکمت عملی اختیار کرنے  پر زور دیا ہے۔لہذا ان کے ذہنوں میں جو غلط فہمی اس قسم کی تقاریر اور انٹرویوز کی ویڈیو کلپس دیکھ کر پیدا ہوئی ہے، اسے  ختم کرنے کیلئے دست شفت رکھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ کسی بھی جرم کے اوپر مٹی ڈالنے سے جرم ختم نہیں ہوتے بلکہ مٹی کے اندر دب کر پروان چڑھتے ہیں، جو لاوے کی شکل میں کسی وقت پھٹ گئے تو انجام تباہی ہوگا۔

لہذا دست شفقت رکھنا وقت کا تقاضا ہے، کیونکہ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے اور گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کے باوجود گلگت بلتستان کے عوام کی پاکستان سے محبت دنیا کیلئے ایک مثال ہے۔ بلتستان میں خدمات انجام دینے والے بیوروکریٹس بھی اس علاقے کے وائسرے نہیں بلکہ عوامی خدمت گار ہیں، انہیں اس بات کا احساس ہونا ضروری ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حقیقت یہ ہے کہ بلتستان امن  کا گہوارا اور بھائی چارگی و فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے حوالے سے دنیا کیلئے مثال ہے۔ بلتستان وہ خطہ ہے، جہاں تمام فرقوں کے درمیان رشتہ داریاں ہیں، ایک دوسرے سے شادیاں کرتے ہیں، یہاں تک کہ تمام فرقوں کے لوگ بغیر کسی خوف   کے ایک دوسرے کی مساجد میں نماز پڑھتے ہیں۔لیکن  کچھ  شرپسندوں کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہتی ہے کہ بلتستان میں بھائی چارگی کی فضاء کو خراب کریں، بلتی قوم کو آپس میں لڑائیں اور موقع ملتے ہی بلتستان کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں۔  یہی وجہ ہے کہ آج بلتستان سے دشمنی رکھنے والے اس آڑ میں بلتستان کے خلاف لب کشائی کر رہے ہیں، جو کہ دراصل افواج پاکستان سے محبت میں نہیں بلکہ موقع ملنے پر موقع کو گین کرنا ہے۔ لہذا ریاست کو اس قسم کے دوست نما دشمنوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے، جو محاذ آرائی کی سیاست کو ہوا دیکر دشمن عناصر کو پروپیگنڈے کا موقع فراہم کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply