ڈوبتا سورج(اختصاریہ)۔۔ہُما رشید

آج جب میں فیکٹری سے واپس گھر آرہی تھی تو اچانک میری نظر ڈوبتے سورج پر پڑی۔ وہ مجھے نہایت ہی خوبصورت لگا۔ میں بار بار اُسے دیکھنے لگی۔ اکثر لوگ ڈوبتے سورج کا نظارہ کرنے ساحل سمندر پہ جاتے ہیں اور خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔
تو پھر میرے ذہن میں خیال آیا کہ لوگ ڈوبتے سورج کا ہی کیوں نظارہ کرتے ہیں۔ وہی کیوں سب کو اچھا لگتا ہے۔ ہم اُس وقت اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گھورتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ مکمل طور پر ڈوب نہیں جاتا۔

کیا کبھی ہم ابھرتے سورج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اتنی دیر تک اس کو دیکھ سکتے ہیں؟ میری سوچیں پیچ در پیچ الجھ رہی تھیں لیکن ذہن کے سب گوشے خاموش تھے۔
کیوں؟ آخر کیوں؟

کیوں نہیں ہم اتنی دیر تک چڑھتے سورج کو دیکھ سکتے؟ سورج تو وہی ہے نا جو کل شام میں تھا، صبح کو زیادہ دیر تک دیکھنا کیوں ناممکن ہے؟

اس دوران مجھے دیوار پرماضی کی ایک مشہور شخصیت کی تصویر نظر آئی دھندلی سی مَیلی سی۔ میرے چہرے پر ایک افسردہ مسکراہٹ چھا گئی۔

جب سورج اپنے عروج کی طرف گامزن ہوتا ہے تَو اس کی روشنی بہت تیز ہوتی ہے اور وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اسے زوال بھی آنا ہے۔ وہ غرور میں بد مست ہوتا ہےاور اپنے سامنے کسی کو نہیں کھڑے ہونے دیتا۔ آخر چند گھنٹے ہی گزرتے ہیں اور اسکا زوال شروع ہو جاتا ہے۔ پھر جن کو وہ حقیر جانتا تھا وہی لوگ اُس کو بےبسی سے ڈوبتا دیکھتے ہیں۔

یہی حال ہمارا بھی ہے کہ جب ہم اپنے عروج پر ہوتے ہیں تو ہمیں کوئی نظر نہیں آتا، سب کیرے مکوڑے لگتے ہیں اور جب زوال شروع ہوتا ہے تو وہی کیڑے مکوڑے بہت بڑے لگنے لگتے ہیں کہ شاید یہ ہماری کچھ مدد کرسکیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تو ہمیں چاہیے کہ جب ہمیں عروج حاصل ہو تو ہم چاند کی طرح بنیں رات کے اندھیروں میں روشنی بانٹنے والا، رات کی سیاہی میں رستہ دکھانے والا، اپنی چاندنی سے ہر شئے   کے حسن کو اجاگر کرنے والا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply