آج جب میں فیکٹری سے واپس گھر آرہی تھی تو اچانک میری نظر ڈوبتے سورج پر پڑی۔ وہ مجھے نہایت ہی خوبصورت لگا۔ میں بار بار اُسے دیکھنے لگی۔ اکثر لوگ ڈوبتے سورج کا نظارہ کرنے ساحل سمندر پہ جاتے ہیں اور خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔
تو پھر میرے ذہن میں خیال آیا کہ لوگ ڈوبتے سورج کا ہی کیوں نظارہ کرتے ہیں۔ وہی کیوں سب کو اچھا لگتا ہے۔ ہم اُس وقت اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گھورتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ مکمل طور پر ڈوب نہیں جاتا۔
کیا کبھی ہم ابھرتے سورج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اتنی دیر تک اس کو دیکھ سکتے ہیں؟ میری سوچیں پیچ در پیچ الجھ رہی تھیں لیکن ذہن کے سب گوشے خاموش تھے۔
کیوں؟ آخر کیوں؟
کیوں نہیں ہم اتنی دیر تک چڑھتے سورج کو دیکھ سکتے؟ سورج تو وہی ہے نا جو کل شام میں تھا، صبح کو زیادہ دیر تک دیکھنا کیوں ناممکن ہے؟
اس دوران مجھے دیوار پرماضی کی ایک مشہور شخصیت کی تصویر نظر آئی دھندلی سی مَیلی سی۔ میرے چہرے پر ایک افسردہ مسکراہٹ چھا گئی۔
جب سورج اپنے عروج کی طرف گامزن ہوتا ہے تَو اس کی روشنی بہت تیز ہوتی ہے اور وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اسے زوال بھی آنا ہے۔ وہ غرور میں بد مست ہوتا ہےاور اپنے سامنے کسی کو نہیں کھڑے ہونے دیتا۔ آخر چند گھنٹے ہی گزرتے ہیں اور اسکا زوال شروع ہو جاتا ہے۔ پھر جن کو وہ حقیر جانتا تھا وہی لوگ اُس کو بےبسی سے ڈوبتا دیکھتے ہیں۔
یہی حال ہمارا بھی ہے کہ جب ہم اپنے عروج پر ہوتے ہیں تو ہمیں کوئی نظر نہیں آتا، سب کیرے مکوڑے لگتے ہیں اور جب زوال شروع ہوتا ہے تو وہی کیڑے مکوڑے بہت بڑے لگنے لگتے ہیں کہ شاید یہ ہماری کچھ مدد کرسکیں ۔
تو ہمیں چاہیے کہ جب ہمیں عروج حاصل ہو تو ہم چاند کی طرح بنیں رات کے اندھیروں میں روشنی بانٹنے والا، رات کی سیاہی میں رستہ دکھانے والا، اپنی چاندنی سے ہر شئے کے حسن کو اجاگر کرنے والا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں