• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جو بائیڈن کے دور صدارت میں پاک امریکہ تعلقات کا خاکہ۔۔ غیور شاہ ترمذی

جو بائیڈن کے دور صدارت میں پاک امریکہ تعلقات کا خاکہ۔۔ غیور شاہ ترمذی

پاکستان اپنے قیام کے وقت سے ہی دنیا کے چار اہم ترین ممالک یعنی امریکہ، سوویت یونین، چین اور ہندوستان سے خوشگوار تعلقات بنانے میں مشکلات سے دوچار رہا ہے۔ افغانستان اور ایران قریبی ہمسایہ ممالک ہونے کے باوجود پاکستان کی نظر میں زیادہ اہمیت کے حامل نہیں تھے۔ پاکستان کے قیام سے افغانستان خوش نہیں تھا جبکہ ایران کے بلوچستان کے بارے میں شدید تحفظات تھے جسے پاکستان میں شامل کر لیا گیا تھا۔ اس زمانہ میں افغانستان تو سوویت یونین کے زیر ِاثر تھا جبکہ ایران کے امریکہ سے بہت گہرے مراسم تھے۔

جغرافیائی لحاظ سے امریکہ کی نسبت سوویت یونین پاکستان کے زیادہ قریب واقع تھا۔ ابتدائی دنوں میں پاکستانی قائدین وزیراعظم لیاقت علی خان اور وفاقی سیکریٹری چوہدری محمد علی مذہبی رجحانات کے حامل تھے۔ ہماری سیاسی قیادت اور افسر شاہی کے جانبدارانہ اقدامات کے باعث پاکستان تیزی سے سوویت یونین سے دور اور امریکہ کی آنکھ کا نور بن گیا۔ سنہ 1948ء میں ریاست حیدرآباد دکن اور کشمیر کے بہت بڑے حصے پر بھارتی قبضے کے بعد پاکستان کو کسی طاقتور دوست کی تلاش تھی- اس وقت انڈیا کے سیکولر مزاج وزیر اعظم جواہرلال نہرو نے خارجہ تعلقات بنانے میں مذہب پرست پاکستانی قیادت سے زیادہ مستعدی کا مظاہرہ کیا اور بہت جلد سوویت یونین سے اچھے تعلقات استوار کر لئے۔

“تھانہ کلچر ” کی استعماری جڑیں۔۔غزالی فاروق

دوسری طرف سنہ 1949ء میں پاکستان کی قانون ساز اسمبلی سے قرار داد مقاصد منظور کرلی گئی۔ یہ قرارداد پاکستان کو ایک مذہبی رجحانات کی حامل ریاست میں بدلنے کا نقطہ آغاز ثابت ہوئی۔ اندرونی سیاست کے بدلتے رجحانات نے پاکستان کی خارجہ پالیسی اور جغرافیائی حکمت عملی پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ ہماری مذہب پرست اشرافیہ کا خیال تھا کہ ایک کمیونسٹ ملک ہونے کے باعث سوویت یونین ہمارا اچھا دوست نہیں بن سکتا۔ اسی لئے وزیر اعظم لیاقت علی خاں نے سوویت یونین کا دعوت نامہ پہلے موصول ہونے کے باوجود امریکہ جانے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے سے یہ بات ظاہر ہوگئی کہ پاکستان اپنے لئے امریکہ کی حمایت حاصل کرنے کا خواہش مند تھا۔سنہ 1950ء کے عشرے میں پاکستان کی سیاست میں دو اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ پاکستان میں ایک جمہوری نظام نہ صرف قائم نہیں کیاجا سکا بلکہ جمہوری روئیے بھی پروان چڑھنے نہیں دئیے گئے اور امریکہ کی جانب پاکستان کا جھکاؤ بڑھتا چلا گیا۔

تب سے اب تک پاک امریکہ تعلقات کی بنیاد اس “غیر تحریری حکم نامہ” پر قائم ہے کہ انہیں صرف ہماری اسٹبلشمنٹ ہی ڈرائیو کرے گی۔ کسی منتخب عوامی جمہوری حکومت کو یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ پاک امریکہ تعلقات میں کوئی کردار ادا کرے- اگر کسی دور میں منتخب جمہوری حکومت نے ایسا کرنے کی کوشش بھی کی تو اسے سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑا- حالیہ 20/25 سالہ تاریخ میں 2 امریکی صدور ایسے ہیں جن کے تعلقات پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کی بجائے منتخب جمہوری حکومتوں یا سیاسی راہنماؤں سے رہے ہیں- ایسے پہلے امریکی صدر بل کلنٹن تھے جن کے میاں نواز شریف سے ذاتی تعلقات تھے اور بعد ازاں دوسرے ایسے امریکی صدر باراک اوبامہ رہے جنہوں نے پاک امریکہ تعلقات میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی بجائے پاکستان پیپلز پارٹی کے لیڈروں کے ذریعہ پاک امریکہ تعلقات کی راہیں اور اصول متعین کئے- میاں نواز شریف کی دوسری حکومت کا خاتمہ 12 اکتوبر سنہ 1999ء کو ہوا جب بل کلنٹن اپنا دوسرا اور آخری دور صدارت ختم کرنے جا رہے تھے، اس لئے وہ ان کی حکومت بچانے میں اپنا اثرورسوخ استعمال نہیں کر سکے جبکہ باراک اوبامہ کے امریکی صدارت سنبھالنے سے تقریباً ایک سال پہلے بےنظیر بھٹو شہید کو قتل کروا دیا گیا- امریکی دانشورانِ کا کہنا ہے کہ اگر 27 دسمبر 2007ء کو بےنظیر بھٹو شہید قتل نہ ہوتیں اور اگلے الیکشن میں پیپلز پارٹی کی جیت کے بعد وزیراعظم منتخب ہو جاتیں تو یہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں نئی جہتیں قائم کرنے کا سبب بنتا جن کی بنیاد پاکستان میں جمہوریت کی مضبوطی، سول سپریمیسی اور آزادانہ شہری حقوق کی فراہمی پر متعین ہوتا-

امریکہ میں جمہوریت کی تدفین۔۔محمد کاظم انبارلوئی

باراک اوبامہ کے دور صدارت میں پاک امریکہ تعلقات کی بنیاد رکھنے والے 2 افراد کا کردار بنیادی حیثیت رکھتا ہے- سنہ 2008ء میں جب بےنظیر بھٹو شہید کے قتل کے بعد پیپلز پارٹی حکومت برسراقتدار آئی تو اس وقت جو بائیڈن امریکی سینیٹر تھے جو حال ہی میں جنونی، وحشی ٹرمپ کو شکست دے کر نئے امریکی صدر منتخب ہوئے ہیں- تب سینیٹر جو بائیڈن نے پاکستان کی جمہوری حکومت کے لئے ایک امدادی پیکج تیار کیا جو بائیڈن لوگر بل کے نام سے تھا لیکن سنہ 2009ء میں جو بائیڈن کے امریکی نائب صدر منتخب ہونے کے بعد جان کیری امریکی وزیرخارجہ بنے تو وہ امدادی پیکج کیری لوگر بل کے نام سے مشہور ہوا ۔ اس پیکیج کی سنہ 2009ء میں امریکی صدر باراک اوباما نے منظوری دی اور اس کے تحت پاکستان کو خطیر امداد ملتی رہی- اس امدادی پیکج کی منظوری سے ایک سال پہلے تین نومبر سنہ 2007ء کو جنرل مشرف نے ملک میں ہنگامی صورتِ حال نافذ کر دی، تو ساتھ ہی اعلان کیا کہ ملک میں انتخابات غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دئیے گئے ہیں کیونکہ انہیں حساس اداروں کی طرف سے رپورٹس مل چکی تھیں کہ بےنظیر بھٹو شہید کی سربراہی میں اگلے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی جیت یقینی ہے- جنرل مشرف کے اس اعلان کے صرف 3 دن بعد ہی سینیٹر جو بائیڈن نے جنرل مشرف کو فون کال کی- امریکی میڈیا کے مطابق بائیڈن نے کہا کہ میں نے صدر مشرف کو بتایا ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین مستقبل میں تعلقات کے لئے کتنا ضروری ہے کہ پاکستان میں اگلے انتخابات اپنے شیڈول کے مطابق جنوری 2098ء میں ہی منعقد ہوں اور وہ اپنی وردی اتارنے اور پاکستان میں قانونی کی سربلندی کے لئے کیا ہوا اپنا وعدہ پورا کریں- جنرل مشرف نے یہ وعدے محترمہ بےنظیر بھٹو شہید کے ساتھ دبئی میں ہونے والے مذاکرات میں کئے تھے- ان مذاکرات کا اہتمام امریکی تھنک ٹینک کے ایک اہم رکن جیک روزن نے کروایا تھا جو دوبئی کے ولی عہد شیخ محمد بن زید کے ذاتی دوست بھی تھے اور سابق امریکی صدور بل کلنٹن، جارج بش اور باراک اوباما کے بھی انتہائی قریبی دوست سمجھے جاتے ہیں-

جنرل مشرف پر اس فون کال کا خاطر خواہ اثر ہوا اور انہوں نے اس فون کال کے صرف 2 دن بعد یعنی 8 نومبر کو اعلان کیا کہ اگلے انتخابات اپنے شیڈول کے مطابق 8 جنوری سنہ 2008ء کو کروائے جائیں گے۔البتہ اس اعلان کے صرف ایک مہینہ 19 دن بعد ہی بےنظیر بھٹو شہید قتل ہو گئیں اور انتخابات 8 جنوری کی بجائے 18 فروری 2008ء تک ملتوی ہو گئے،- جب یہ انتخابات ہوئے تو ان میں پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کر لی اور یوسف رضا گیلانی ملک کے وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔ سینیٹر جو بائیڈن نے 18 فروری 2008ء کے ان پاکستانی الیکشن میں ایک مبصر کی حیثیت سے 2 اور امریکی سینیٹروں کے ساتھ پاکستان کا دورہ کیا۔ بعد ازاں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران ان تینوں سینیٹروں نے الیکشن کو منصفانہ اورشفاف قراردیا اور پاکستان کے لئے امریکی امداد کی توسیع کی حمایت کی۔ امریکی سینیٹروں کا پاکستانی الیکشن میں مبصر کی اہمیت سے جائزہ لینے پاکستان کا دورہ کرنا ایک غیر معمولی اہمیت کی بات تھی۔ ایسا محسوس ہوا کہ پاکستان میں سول سپریمیسی کے قیام کے لئے کام کرنے والی قوتوں یا خود چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی آصف علی زرداری نے جو بائیڈن کو الیکشن میں مبصر بننے کی دعوت دی ہو تاکہ کسی “طاقت” کو الیکشن سبوتاژ کرنے کا موقع نہ ملے۔ اس کے بعد نومبر میں امریکہ میں صدارتی انتخابات ہوئے جن میں باراک اوباما صدر اور جو بائیڈن نائب صدر منتخب ہو گئے۔ اوباما اور بائیڈن کو اپنے اپنے عہدوں کا حلف 20 جنوری 2009ء کو اٹھانا تھا، لیکن حیرت انگیز طور پر بائیڈن اس سے 11 روز قبل 9 جنوری 2009ء کو ایک اور رپبلکن سینیٹر لنزی گریم کے ہمراہ پاکستان آ پہنچے۔

عمران خان اور اُن کے حامی۔۔ڈاکٹر اختر علی سید

اس دورے میں بائیڈن آصف علی زرداری کے لئے نو منتخب صدر اوباما کا پیغام لے کر آئے تھے۔ حلف اٹھانے سے پہلے امریکی نائب صدر کا دورہ پاکستان
مستقبل میں اوباما انتظامیہ کی پاکستان کے حوالہ سے ترجیحات کی نشاندہی کرتا تھا۔ اسی دورے کے دوران صدر آصف علی زرداری نے جو بائیڈن کو ہلالِ پاکستان کے اعزاز سے نوازا جو نشانِ پاکستان کے بعد پاکستان کا دوسرا اعلیٰ ترین سول اعزاز ہے۔ اس موقع پر صدر زرداری نے پاکستان کے لئے جو بائیڈن کی خدمات کا اعتراف کیا اور امریکی سینٹ میں پاکستان کی مسلسل حمایت پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ جب صحافیوں نے پوچھا کہ بائیڈن نے ایسا کیا کیا ہے کہ انہیں ہلالِ پاکستان سے نوازا گیا ہے تو 12 جنوری 2009ء کو پاکستان کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے صحافیوں کے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ جو بائیڈن نے پاکستان میں جمہوریت کی بحالی میں بہت مؤثر کردار ادا کیا ہے- بین الاقوامی میڈیا نے لکھا کہ یوسف رضا گیلانی نے یہ کہا تھا کہ یہ جو بائیڈن ہی تھے جنہوں نے فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنے پر مجبور کیا۔اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سینیٹر بائیڈن نے سنہ 2007ء میں پرویز مشرف کو وردی اتارنے پر مجبور کر کے پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لئے اہم کردار ادا کیا-

جو بائیڈن کی طرف سے پاکستان میں جمہوری حکومت کو سپورٹ کرنے کے پیچھے سب سے بڑی وجہ پاکستان کےسابق سفیر حسین حقانی کے ساتھ ان کی ذاتی دوستی اور حقانی کی کاوشیں تھیں جس وجہ سے امریکہ میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی بجائے منتخب جمہوری حکومت کے ساتھ اپنے ڈائیلاگ کرنے کی رسم شروع ہوئی- صدر زارداری کی جانب سے حسین حقانی کو امریکہ میں پاکستانی سفیر مقرر کرنے کے پیچھے بھی یہی وجہ تھی کہ وہ جو بائیڈن سے اپنے ذاتی تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے مفادات کا تحفظ کریں- ،یاد رہے کہ جو بائیڈن نے جب پاکستان کادورہ کیا تو جس جہاز میں وہ پاکستان تشریف لائے تو ان کے ساتھ پاکستان کے اس وقت کے امریکہ میں سفیر حسین حقانی بھی موجود تھے- یہی وجہ ہے کہ آج کل دبئی اور آسٹریلیا میں مقیم تب کے انتہائی طاقت ور 2 بڑوں کے ساتھ ساتھ سابق چیف جسٹس چوہدری افتخار پر مشتمل ٹرائیکا کو یہ بات سخت نا پسند ہوئی- اس کے بعد حسین حقانی کو نشان عبرت بنانے اور غدار کا سرٹیفکیٹ دینے کی تاریخ ہمارے سامنے موجود ہے- کیری لوگر بل اور میموگیٹ اسکینڈل کانغمہ ریلیز کر کے جس حسین حقانی کو غدار قرار دیا گیا اب تاریخ کے اوراق بدلنے پر اسی حسین حقانی کو اسٹیبلشمنٹ اپنی آنکھ کا تارا بنانے کی کوشش میں ہے- ظاہرا” حالت یہ ہے کہ امریکی عوام نے ٹرمپ کی بجائے جمہوریت پسند اور انسانی حقوق کی طاقتور آواز جوبائیڈن کو بھاری اکثریت سے صدر منتخب کیا تو پاکستان کے ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر جو بائیڈن کی پاکستان دوستی کے چرچے اور سول ایوارڈ لینے کی تصاویر وائرل ہونے لگیں لیکن منافقت کی انتہا دیکھیں کہ کسی بھی جگہ پر جو بائیڈن کی پاکستان کے ساتھ دوستی کی وجہ حسین حقانی کا ذکر تک نہیں کیا گیا-

جمہوریت کی لڑائی صرف منتخب ایوانوں میں ہی سجتی ہے۔۔ غیور ترمذی

Advertisements
julia rana solicitors

اندرون خانہ خبر گرم یہ ہے کہ جو بائیڈن کے امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد استٹبلشمنٹ نے حسین حقانی سے رابطہ کیا اور اسے بائیڈن کے حلف اٹھانے سے پہلے پاکستان کا سفیر تعنیات کرنے کی آفردی گئی- اس آفر میں یہ بھی کہا گیا کہ ہم نے آپ سے کوئی زیادتی نہیں کی- آپ محب وطن پاکستانی ہیں اور پاکستان کی خدمت کرنے کے لئے آپ “تبدیلی سرکار” حکومت اور پاکستان کی امریکہ میں نمائندگی کریں- جنہوں نے آپ کو غداری کو سرٹیفکٹ دیا وہ اب ریٹائرڈ ہوچکے ہیں اور ہم آپ کو محب وطن سمجھتے ہیں- دوسری طرف حسین حقانی نے یہ آفر مسترد کر دی ہے اور پاکستان میں جمہوریت کی مضبوطی اور سویلین بالادستی کے لئے لابنگ شروع کر دی ہے- چونکہ جو بائیڈن پاکستان سمیت جنوب ایشیائی معاملات پر حسین حقانی سے مشاورت کرتے ہیں تو اس لئے مستقبل قریب میں حسین حقانی کو پاکستان کے معاملات میں اہم کردار ادا کرتے دیکھے جانے کی توقع ہے- امریکی صدر کی تقریب حلف برداری میں تحریک انصاف کے لیڈر کی بجائے چئیرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کو دعوت دی گئی ہے جس کی وجہ سے حکومت پاکستان کو یہ پیغام پہنچ چکا ہے کہ ان کا فیورٹ پاگل ٹرمپ جا رہا ہے اور ایک اعتدال پسند جو بائیڈن کا دور آ رہا ہے جس کے دور حکومت میں جمہوری طاقتیں پاکستان میں پروان بھی چڑھیں گی اور سول بالادستی کا بول بالا بھی ہو گا-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply