مہک (ایک غیر سیاسی افسانہ)۔۔معیزالدین حیدر

آج صبح سے ہی فردین صاحب کی بے چینی قابلِ دید تھی۔سویرے سے اٹھ کر گھر کے کام کاج جلدی جلدی نمپٹائے جا رہے تھے۔ والدہ کے طلب کرنے پر معلوم ہوا کہ فردین صاحب کو آج چار بجے اپنی سہیلی کے گھر جانا ہے۔ جس نے فردین صاحب کو اپنے گھر رات کے کھانے پر دعوت دے رکھی ہے۔ والدہ نے مزید معلوم کیا تو فردین صاحب نے بتایا کہ یہ نیوی (Navy) آفیسر کی لڑکی ہے جو میرے ساتھ ہی زیرِ تعلیم ہے، نیوی ہی کی سوسائٹی میں رہائش پذیر ہے۔ یوں تو فردین صاحب کسی امیر کبیر گھرانے سے تعلق نہیں رکھتے تھے ہاں لیکن متوسط طبقے سے انکا تعلق تھا اور فردین صاحب اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ایک ایسے عام علاقے میں رہائش پذیر تھے جہاں بجلی، گیس،پانی، بے حال سڑکیں، جگہ جگہ کچرا وغیرہ جیسے مسائل عام ہوتے ہیں اور اس ما حول میں رہنے والے اس ماحول کے عادی بھی ہو ہی جاتے ہیں۔ اب فردین صاحب سوا تین کے قریب نہانے چل دیتے ہیں۔اور بس دس منٹ میں غسل مکمل کر کے باہر آتے ہیں اور والدہ سے کہتے ہیں ”جلدی سے کھانا دے دیں، میں بس نکلوں گا، مجھے دیر  ہو رہی ہے“۔ کھانا کھا کھو کے فردین صاحب اپنی شرٹ کی آستینوں کو موڑتے ہوئے  سیڑھیوں سے نیچے اترتے ہیں اور لگاتے ہیں اپنی بوسیدہ سی موٹر سائیکل کو کک اور چل دیتے ہیں منزل کی جانب۔

راستے میں فردین صاحب کو خیال آتا ہے کہ ایسے خالی ہاتھ جانا غیر مناسب ہوگا، تو فردین صاحب ایک مٹھائی کی دکان پر رکتے ہیں۔ پہلے سوچتے ہیں کہ گلاب جامن لے لیے جائیں لیکن پھر یہ خیال آتا ہے کہ ”میں کیا رشتہ لے کر جا رہا ہوں جو گلاب جامن لوں“۔بہر حال فردین صاحب ربڑی کو گلاب جامن پر ترجیح دیتے ہیں اور آدھا کلو ربڑ ی بندھوا لیتے ہیں۔اور دوبارہ اب اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہوتے ہیں۔کچھ دیر تو پہلے ہی ہو چکی تھی، اور وقت ہوگیا تھا پونے پانچ جب فردین صاحب کی موٹر سائیکل نیوی(Navy) کے رہائشی علاقے پر رکی۔یہ علاقہ کافی بڑا تھا، اس علاقے کے کوئی دس داخلی دروازے تو ہونگے ہی۔ بس یوں سمجھیں کہ اس علاقے نے گویا آدھا شہر گھیر رکھا ہو۔  کسی بھی  عام شہری کا داخلہ ممنوع تھااور اگر جانے بھی دیا جاتا تھا تو کافی جانچ پڑتال کے بعد اور شناختی کارڈ بھی ضبط کرلیا جاتا تھا گویا ایسا معلوم ہو کہ بندہ اندر کوئی غیر قانونی کارروائی کرنے جا رہاہو اورپکڑا گیا۔اب فردین صاحب نے   موبائل نکالا  اور اپنی  کلاس فیلو ، جس کا نام توصیف تھا، کو ملائی کال اور کہا”بھئی یہ مجھے ایسے اندر نہیں آنے دیں گے، تم اپنے والد سے کہو کہ وہ مجھے اندر داخلہ دلوا دیں میں گیٹ نمبر ۴ پہ کھڑا ہوں“۔ توصیف نے کہا ”اچھا تم گیٹ نمبر ۴ پر ہی ٹھہرو میں ابّو کو بھیجتی ہوں“ کچھ لمحے انتظار کے بعد دروازے کے اندر سے ایک شخص بر آمد ہوتا ہے جو کہ شکل سے کافی سخت گیر  معلوم ہوتا تھا اور قمیض شلوار پہنے ہوئے تھا۔فردین صاحب کے پاس آکر رکتا ہے اور پوچھتا ہے ”آپ ہی فردین ہو ناں؟“۔ فردین صاحب جواب دیئے بغیر سوال کھڑکا دیتے ہیں،”آپ توصیف کے والد ہیں؟“۔وہ شخص جواب دیتا ہے ”ہاں ہا ں میں ہی ہوں!، مطلب تم فردین ہی ہو“۔ فردین صاحب مسکراتے ہوئے ”جی جی“۔ اب توصیف کے اباّ فردین صاحب سے کہتے ہیں ”تم اپنی موٹر سائیکل یہیں باہر کھڑی کردو اور میرے سا تھ میری موٹر سائیکل پر سوار ہو جاؤ“۔فردین صاحب بھی اپنی تشریف کھسکا لیتے ہیں اور بائیک پارک کر کے توصیف کے اباّ کے ساتھ چل دیتے ہیں، اور بآسانی اندر داخل ہوجاتے ہیں۔

اندر داخل ہونے کے بعد فردین کو گویا ایسا معلوم ہورہا تھا کہ کسی دوسرے ملک مثلاََ امریکہ وغیرہ میں ہو، کیونکہ اس علاقے میں ہر چیز عالی شان اور جدید طرز کی بنی ہوئی تھی۔صاف ستھری سڑکیں، ہریالی، اچھے گھر ایک منظم طریقے سے بنے ہوئے، کھیل کے خوبصورت میدان، گالف کورس اور اعلیٰ تعلیمی ادارے وغیرہ۔یہ سب دیکھتے کب توصیف کا گھر آگیا معلوم ہی نہ چلا۔توصیف کے اباّ نے اپنی موٹر سائکل لگائی گھر کے نیچے اور فردین سے کہا ”آجاؤ میرے ساتھ“بالآخر فردین اب توصیف کے گھر پہ تھا۔ گھر میں توصیف،اسکی ایک بہن اور امّی فردین کو خوش آمد کہتے ہیں اور ڈرائنگ روم میں بٹھا دیتے ہیں۔ اب کمرے میں تمام گھر والے موجود شام کی چائے کے ساتھ فردین سے محوِ گفتگو ہوجاتے ہیں اور باتوں باتوں میں رات کے کھانے کا وقت ہو جاتا ہے۔ اب رات کا کھانا سب ساتھ میں کھاتے ہیں۔ کھانے کے دوران توصیف فردین سے کہتی ہے ”چلو کھانا کھا کر ہم باہر سے تھوڑا گھوم آتے ہیں، جو بھی ہمارے گھر مہمان آتا ہے ہم اس کو اپنا علاقہ ضرور گھماتے ہیں“۔ فردین بھی حامی بھرتے ہوئے گردن ہلا دیتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کھانا کھا کر فردین اور توصیف نکل جاتے ہیں سیر پر۔ راستے میں توصیف فردین کو راستے میں آنے والی تمام جگہوں سے متعارف کروا رہی ہوتی ہے۔فردین کا تعلق جیسے علاقے سے تھا تو فردین کے لیئے یہ سب حیران کن تھا۔ فردین بہت  غور سے تمام جگہوں کا جائزہ لے رہا تھا۔ فردین توصیف سے پوچھتا ہے ”یہاں بارشوں میں پانی کھڑا ہوتا ہے؟“۔ توصیف نفی میں گردن ہلاتے ہوئے کہتی ہے”بالکل بھی نہیں“، پھر فردین پوچھتا ہے ”یہاں بجلی بھی نہیں جاتی ہوگی، اور پانی بھی چوبیس سو گھنٹے آتا ہوگا ہے ناں؟“۔ توصیف کہتی ہے”بالکل ایسا ہی ہے“۔ اب اتنا سب دیکھ لینے کے بعد راہ چلتے فردین صاحب کو آنے لگتی ہے ایک عجیب قسم کی مہک، مہک کچھ جانی پہچانی ہوتی ہے لیکن فردین صاحب یاد نہیں کر پا رہے ہوتے کہ یہ مہک آخر میں نے سونگھی تو سونگھی کہاں ہے؟۔ بہر حال وہ توصیف کے ساتھ ٹہلتا ہوا زرا سا آگے اور جاتا ہے کہ وہاں کچھ بجری اور سریا پڑا ہوتا ہے۔ فردین وہاں ٹہر کر توصیف سے پوچھتا ہے ”یہ کیا بن رہا ہے؟“ توصیف کہتی ہے ”یہ کوئی نیا پراجیکٹ ہے شائد۔“ فردین توصیف سے کہتا ہے ”مجھے کافی دیر سے اس علاقے میں ایک جانی پہچانی مہک آرہی ہے اور اب اس بجری کے پاس سے تو بہت ہی شدید آرہی ہے“۔توصیف کہتی ہے ”کیسی مہک؟“۔ فردین بغیر جواب دیئے بجری پر جا بیٹھتا ہے اور اٹھا کر بجری کو ایسے سونگھنے لگتا ہے گو کہ بجری نہیں افیم سونگھ رہا ہو۔توصیف ماتھے پر شکن لاتے ہوئے کہتی ہے”یہ کیا کر رہے ہو؟، پاگل ہو گئے ہو کیا، جو بجری سونگھ رہے ہو“۔ توصیف جاکر فردیں کو بجری کے ٹیلے پر سے نیچے کھینچتی ہے اور پوچھتی ہے ”کیا ہوگیا ہے تمہیں؟ یہ کر کیا رہے تھے تم؟“۔ اسرار کرنے پر فردین بتاتا ہے”وہ مہک مجھے اس بجری میں سب سے زیادہ آرہی ہے!“۔ توصیف کہتی ہے”او اللّہ کے بندے وہ مہک ہے کس چیز کی؟“۔ فردین ہاتھ پر ہاتھ مار کے قہقہہ لگاتے ہوئے کہتا ہے”ارے یہ مہک تو میرے ٹیکس کے پیسوں میں سے آتی ہے، وہی تو کہوں کہ یاد نہیں آکر دے رہا تھا، اب آیا ناں!“ اور مزید فردین صاحب کہتے ہیں ”آج بخدا بہت اچھا لگا! میں خوش ہوں بہت یہ سب دیکھ کر کہ واقعی میرا ٹیکس ضائع نہیں ہو رہا ہے!“

Facebook Comments

معیز الدین حیدر
ایک شاعر، مضمون نگار اور افسانہ نگار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply