“تھانہ کلچر ” کی استعماری جڑیں۔۔غزالی فاروق

2جنوری 2021 بروز ہفتہ،21سالہ نوجوان  اسامہ ندیم ستی اپنے دوست کو  NUST یونیورسٹی اسلام آباد  میں اتار کر اپنی گاڑی پر واپس جا رہا تھا تو پولیس کے اہلکاروں نے اس پر فائر کھول دیا۔ پولیس اہلکاروں کے مطابق انہوں نے ایسا اس لئے کیا کہ  انہیں کچھ ہی دیر  قبل یہ خبر موصول ہوئی تھی کہ کچھ چور ایک سفید گاڑی میں اسی علاقے میں گھوم رہے ہیں۔ چونکہ اسامہ ستی کی گاڑی بھی سفید رنگ کی تھی اور پولیس کے مطابق ان کے روکنے پر رکی بھی نہیں تو گویا کہ یہ ان کے مطابق اس بات کا قطعی ثبوت تھا کہ وہ گاڑی چوروں کی تھی! لہٰذا  ان کی اندھا دھند فائرنگ کے نتیجہ میں کم سے کم  6 گولیاں اسامہ کوجا کر لگیں جن میں سے ایک گولی سر میں اور ایک سینے میں بھی  لگی جس سے اسامہ کی موقع پر ہلاکت ہوگئی۔

لیکن یہ اپنی طرز کا کوئی پہلا واقعہ ہرگز نہیں۔پاکستان کے ماضی اورحال کےوہ تمام حکمران جنہوں نے خوشحالی اور تبدیلی لانے کے بڑے بڑے دعوے کیے،ان سب کے ادوارِ حکومت میں پولیس نے نااہلی، ظلم و جبر اور کرپشن کی داستانیں رقم کی ہیں ۔ سانحہ ماڈل ٹاوٴن اور سانحہ ساہیوال اُن اَن گنت واقعات کی صرف چند مثالیں ہیں جہاں پولیس نے نا صرف مردوں بلکہ  بچوں ، عورتوں اور بوڑھوں کو بھی بلا تفریق ریاستی رِٹ نافذ کر نے کے نام پر قتل کیا ۔ ایک ریاست میں پولیس کا  کردار تو ایسا ہونا چاہیے کہ اس کی بِنا پر عوام کے ذہنوں میں اپنے لیے تحفّظ اور امن کے جذبات پیدا ہونے چاہئیں  لیکن پاکستان جیسی ریاست میں پولیس پر نظر پڑتے ہی عوام کے ذہنوں میں خوف اور ناپسندیدگی کے احساسات ہی جنم لیتے ہیں۔

نوآبادیاتی اثرات اور ہمارا سماج۔۔سیدہ ہما شیرازی

تفتیش کے نام پر اذیت ناک جسمانی تشدد ، تھانے کے اندراور تھانے سے  باہر کےنجی عقوبت خانے ، ماورائے عدالت قتل، رشوت ستانی، عوام کے لیے ہمدردی کے جذبات سے عاری برتاوٴ، مظلوموں کی دادرسی کی بجائے ظالموں اور سیاسی اثر ور سوخ رکھنے والے نام نہاد شرفا٫ کے ہاتھوں کٹھ پتلی بننا جیسے رویّے پولیس کے ادارے سے منسوب ہیں ۔اِن تمام رویّوں کو ہمارے ہاں “تھانہ کلچر” کا نام دیا جاتا ہے۔ پاکستان ہی کے اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ نے 2010 میں ریاست کے تمام سرکاری اداروں کے تفصیلی سروے کے بعد جو رپورٹ جاری کی ،اُس میں پولیس کے ادارے کو پاکستان کا سب سے زیادہ کرپٹ اور بد عنوان ترین ادارہ قرار دیا لیکن یہ بات ہمارے لیے کوئی نئی نہیں، نہ ہی یہ کوئی حیرت انگیز انکشاف ہے کیونکہ پولیس کےادارے  کایہی طرزِ عمل ہمیں بر صغیر سمیت دنیا کے اُن تمام خطوں میں بھی ملتا ہے جو ماضی میں کفّار کے ظالمانہ نو آبادیاتی نطٓام کا حصّہ رہے  ہیں۔ پاکستان میں  پولیس کے ادارے کا مکمل انتظامی ڈھانچہ اور وہ قوانین جن کے تحت یہ ادارہ کام کرتا  ہے انگریز سامراج کی ہی  دین ہیں۔

بر صغیر میں بر طانوی سا مراج کے قبضے سے قبل مسلم حکمرانوں کے دورِ حکومت میں جو کئی صدیوں پر محیط تھا معاشرہ عمومی طور پر جرائم سے کافی حد تک پاک تھا اور اسلام کے نافذ شدہ نظام عدل اور پولیس کے نظام کی بدولت عوام کو تحفّظ اور امن حاصل تھا۔  لیکن برصغیر پر ایسٹ انڈیا کمپنی اور پھر براہِ راست تاجِ برطانیہ کے استعماری قبضے کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ اس خطہ کی عوام اِس قبضے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھی اور جب موقع ملتا وہ اس برطانوی سامراج کے قبضے کے خلاف چھوٹی یا بڑی  مزاحمتی  تحریکیں اِس تسلط سے نجات حاصل کرنے کے لیے بر پا کرتی رہی جن کو استعمار طاقت کے زور پر کچلتا گیا اور اِس خطّے پر اپنی گرفت مضبوط کرتا گیا مگر جس عظیم بغاوت نے استعماری قبضے کو حقیقی طور پر ایک خطرے سے دوچار کیا  وہ 1857کی جنگ آزادی تھی جس میں  عام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ فوج اور پولیس کے وہ جوان جو انگریز نے برصغیر کے مختلف حصّوں سے ہی بھرتی کیے تھے وہ بھی اِس جنگ آزادی میں انگریز سے پیچھا چھڑانے کے لیے بڑی تعداد میں شامل ہوئے۔ اگرچہ یہ کوشش ناکام ہوئی مگر اِس جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد کہ جس میں استعمارنے ہزاروں لوگوں اور سپاہیوں کو شہید کیا، انگریز وں کے سامنے یہ بات  واضح ہو گئی   کہ وہ اِس خطّے پر صرف ظلم و جبر اور ظالمانہ قوانین کے ذریعے ہی اپنے تسلّط کو بر قرار رکھ پائیں گےاور اسی حقیقت  کو ذہن میں رکھ کر بر طانوی استعمار کی طرف سے 1861 میں وہ بد نام زمانہ پولیس ایکٹ Police Act of 1861 برصغیر میں نافذ کیا گیا کہ جِس کا مقصد یہاں کی عوام کو سخت قابو میں رکھنا ، مستقبل میں ممکنہ بغاوتوں کے اِمکان کو  ختم کرنا اور یہاں کی مقامی آ بادی کو یہ احساس دلانا تھا کہ وہ اب انگریز کے غلام ہیں ۔ پس پولیس کے ادارے کو نئے سِرے سے ترتیب دیا گیا تا کہ اِس کے وہ جوان جو برصغیر سے ہی  بھرتی کیے جاتے تھے اُنکی طرف سے بھی کسی ممکنہ مہم جوئی کا امکان ہمیشہ کے لیے ختم کردیاجائے ۔

سانحہ ڈنک نوآبادیاتی پالیسی کا تسلسل ۔۔ذوالفقار علی زلفی

لہٰذا  برصغیر میں برطانوی قبضے کے بعد سے پولیس کے ادارے  کوعوام کے جان و مال کی حفاظت کرنے اور انہیں امن و سلامتی فراہم کرنے کی بجائے محض ظلم کو نافذ کرنے اور ظلم کی حکومت کا مدد گار ادارہ بنا دیا گیا اور یہی سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ بے شک ہم نے  1947 میں بر طانوی حکمرانوں کی بلاواسطہ حکمرانی سے تو نجات حاصل کرلی، مگر برطانوی استعمار نے بڑی چالاکی اور ہوشیاری سے اِس بات کو یقینی بنایا کہ نئی بننے والی ریاست پاکستان میں اقتدار اُس نام نہاد اشرافیہ کے ہی حوالے کیا جائے جو برطانوی نظام تعلیم اور نظام حکومت کی تربیت یافتہ تھی اور مغرب کی فکری یلغار سے انتہائی متاثر اور مرعوب تھی۔ مغرب کی اِس تربیت یافتہ اشرافیہ نے  پولیس کے ادارےکا بنیادی ڈھانچہ اور برطانوی قوانین پر بنی ان کی عمارت کو چند برائے نام تبدیلیوں کے علاوہ  اسی طرح  رہنے دیا جس طرح برطانوی استعمار یہاں پر چلارہاتھا۔ اِسی لیے آج بھی ہم پولیس کے ادارے کو اُسی ظالمانہ تشخص کے ساتھ پاتے ہیں جو برطانوی سامراج کے دور میں اُس کی پہچان تھا ۔آج بھی پولیس کا ادارہ 1861کا پولیس ایکٹ اور 1934 کے پولیس رولز کے مطابق ہی چلایا جارہا ہے جو برطانیہ نے اِس ادارے کے لیے وضع کیے تھے اور پاکستان کے ماضی اورحال کے حکمران تھانہ کلچر کو تبدیل کرنے کے بڑے بڑے مگر کھوکھلے دعوے کرتے رہے ۔ اگرچہ یہ حکمران بڑی اچھی طرح جانتے ہیں کہ پولیس کا یہ نظام یا تھانہ کلچر عوام دشمن ہےاور یہ عوام کو کوئی تحفّظ فراہم نہیں کر سکتا لیکن یہ سیاسی اشرافیہ اور حکمران اس پولیس کو اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے اور اپنے اپنے علاقوں کی عوام کو اپنے دباوٴ میں اور زیر اثر  رکھنے کے لیے اپنے معاون اور آلہ کار کے طور پر استعمال کرتے  ہیں لہٰذا اِس ادارے میں کوئی بھی ایسی تبدیلی جو اس ادارے کے اِس کردار کو بدل دے وہ اس  سیاسی اشرافیہ کے مفاد میں نہیں۔

آج ہمار ےتقریباً تمام سِول اور کرمنل قوانین مثلاً  کرمنل پر وسیجر کو ڈ، سِول پروسیجر کوڈ، قانونِ شہادت،لینڈ ایکیوزیشن ایکٹ  اسی دور کی پیداوار ہیں  کہ جن کی وجہ سے  یہاں کی عوام انصاف کے لیے دَر دَر کی ٹھوکر یں کھاتے ہیں اور استعماری بنیاد پر کھڑا پورا عدالتی نظام انہیں یا تو اُن کا حق سِرے سے دے ہی نہیں پاتا یا اِس میں عشرے لگا دیتا ہے اور کئی معاملات میں تو ایک شخص کی زندگی میں دائر کیے گئے مقدمات کا حتمی فیصلہ اُس کے مرنے کے بعد سنایا جاتا ہے۔ قتل کے اَن گنت مقدمات کہ جن میں ملزمان کو محض FIR میں نامزد ہونے پر گرفتار کر لیا گیا 15, 10 حتیٰ کہ 20 سال کی جیل کی قید بُھگتنے کے بعد شواہد نہ ہونے پر اُن کا “با عزت بری” ہونا اِس پولیس اور عدالتی نظام کا نا صرف عوام سے ایک سنگین  مذاق ہے بلکہ اِس نظام  کے منہ پر خود ایک طمانچہ ہے۔ پاکستان کی  پولیس اور عدلیہ کے ظالمانہ پروسیجرل  لَاز (قوانین) اور سُست اور نااہل نظام ِعدل کو دیکھ کر ہی یہ بات کہی جا تی ہے کہ یہاں انصاف حاصل کرنے کے لیے حضرت نوحؑ کی عمر، قارون کا خزانہ اور حضرت ایوب ؑ کا صبر چاہیے۔

نوآبادیاتی تاریخ کا ایک پنّا: کولکتہ شہر سے طوائفوں کی بڑی ہجرت کیوں ہوئی؟ – دیورسی گوش/مترجم ۔عامر حسینی

پاکستان میں پولیس کا ادارہ  سیاسی اشرافیہ کے  اور سرمایہ دارانہ مفادات کے تحت ہی کام کرتا دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان کےآئین کے کوڈ آف کرمنل پروسیجر کی شق 154 کے تحت پولیس کو کسی بھی شخص کے خلاف FIR درج کرنے کا اختیار ہے جس کے خلاف کوئی بھی شکایت پولیس سٹیشن میں لائی جائے ۔اِس FIR کے اختیار کو انتہائی استحصالی انداز سے استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر شکایت کنندہ ایک امیر یا سیاسی طور پر مضبوط شخص ہو تو اُسکی FIR  فوراً درج کرکے مخالف شخص کو فوراً گرفتار کیا جاتا ہے چاہے شکایت کنندہ  نےاُس شخص پر اپنی ذاتی دشمنی یا اُس کی کِسی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی نیت سے ہی جھوٹا الزام لگایا ہو ۔جبکہ غریب یا سیاسی طور پر کمزور شکایت کنندہ کی طرف سے کسی طاقتور کے ظلم کے خلافFIRکی درخواست پر مختلف حیلے بہانوں سے کام لیا جاتا ہے اور اگر کبھی ایسی نوبت آبھی جائے کہ پولیس کو کسی امیر یا سیاسی طور مضبوط شخص کے خلاف FIR درج کرنی پڑجائے تو وہ FIR میں ایسے نقائص یا کمزوریاں چھوڑ دیتی ہے جسکا فائدہ اٹھا کر اُسے ضمانت مِل جائے یا عدالت اُس پر کیس ہی بد نیتی پر مبنی قرار دے کر اسے رہا کردے ۔ FIR درج کرنے کا مطلق اختیار پولیس  کولوگوں سے بھاری رشوتیں لینے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔

گرفتاری کے دوران بعض اوقات ملزمان کے سہولت کاروں کے نام اُگلوانے یا جرم قبول کر وانے کے لیے ملزمان پر بے پناہ تشدد بھی پولیس کا مخصوص طریقہ کار ہے۔۔ پولیس کے ظلم کی ایک  بد ترین مثال پولیس کی طرف سے پولیس مقابلوں میں ماورائے عدالت قتل ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک میں یہ پولیس مقابلے زیادہ تر جعلی ہی ہوتے ہیں اور اِن میں جان بوجھ کر ملزمان کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔صرف015 2کی میڈیا رپورٹس کے مطابق ہی پاکستان میں صرف ایک سال میں کُل 2108مرد ملزمان اور 7 عورتوں کو پولیس مقابلوں میں قتل کردیا گیااور حیران کُن حد تک 95فیصد پولیس مقابلوں میں کوئی پولیس اہلکار ہلاک تو دور کی بات زخمی تک نہ ہوا۔ سانحہٴ ساہیوال اور کراچی کے نقیب اللہ محسود قتل کیس اس ظالمانہ پریکٹس کی بد ترین اور ہائی پروفائل مثالیں ہیں ۔

کوئی بھی ریاست چاہے وہ بڑی ہو یا چھوٹی اپنی عوام کے جان و مال کی حفاظت اور امن قائم رکھنے کے لیے جن ریاستی اداروں  پر انحصار کرتی ہے اُن میں پولیس کا ادارہ سب سے اہم ہے۔ لیکن اگر بات ایک نظریاتی ریاست کی ہوتو اُس کے لیے پولیس کا ا دارہ اس وجہ سے بھی اہمیت کا حامل ہےکہ یہ ادارہ  عدلیہ کے ساتھ مل کر اُس ریاست کے اندر اُس نظریۂ حیات  کے نفاذ اور حفاظت کا  فریضہ ادا کرتا  ہےجس کی وہ ریاست علمبردار  ہوتی ہے۔  لہٰذا اسلام میں  پولیس کا ادارہ دو اہم ترین  امورسر انجام دیتا ہے۔ ایک،  عوام کی جان، مال اور عزت کو محفوظ رکھنا اور انہیں امن فراہم کرنا  اور دوسرا، ریاست   کے اندر ریاست کے  نظریے (یعنی  اسلام ) کی تنفیذ کو یقینی بنانا ۔

نوآبادیاتی نظام اور دانستہ قِحط سازی…..محمد عثمان

پاکستان   میں پولیس کے ادارے کو ماضی کے ظالمانہ  تشخص اور برطانوی راج کے اثرات سے مکمل طور پر پاک کرنے کےلیے ،  جائزو ناجائز اور انسانی و اخلاقی   اقدار سے روشناس کرانے کی ضرورت ہے، تاکہ وہ عوام کو ڈرانے دھمکانے، ملزمان پر تشدّد کرنے اور جعلی پولیس مقابلوں میں ماورائے عدالت قتل جیسے غیر شرعی اعمال اور کبیرہ گناہوں پر مشتمل اپنے ماضی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پیچھا چھڑا سکے اور انسانی جان کی قدرو قیمت کو پہچان سکے۔ علاوہ ازیں  موجودہ نظام میں  SHO کو دو لوگوں اور گروہوں کے درمیان کسی تنازعے کو طے کرنے کا  ایک جج یا قاضی جیسا جو اختیار حاصل  ہے وہ اِسلام میں جائز نہیں۔ پولیس کا کام عدالت کے احکامات کی تنقید (Implementation) یا قا ضی کے کہنے پر کسی معاملے کی تفتیش میں مدد فراہم کرنے تک محدود ہے ۔ اِسی طرح FIR  درج کرنے کا اختیار پولیس کے پاس ہونا درست نہیں   اور کسی کو محض شک کی بنیاد پر گرفتار کرنا غیر شرعی ہے ۔ یہ اختیارات موجودہ نظام میں مظلوم اور انصاف کے درمیان بہت بڑی رُکاوٹ ہیں۔ FIR شکایت کنندہ کی شکایت کے بعد پولیس کی ابتدائی تفتیش پر پولیس کا موقف ہوتا ہے جبکہ اِس میں شکایت کنندہ کی اصل شکایت یا الفاظ پولیس اپنے انداز سے تحریر کرتی ہے ۔ایک اسلامی ریاست  میں شکایت کنندہ یا مظلوم  شخص سیدھا عدالت جاکر اپنی شکایت خود یا اپنے وکیل کے ذریعے درج کروا سکتا ہے  اور عدالت سے انصاف حاصل کر سکتا ہے۔ یعنی مظلوم اور عدالت کے درمیان سے پولیس اور تھانے کی رکاوٹ ختم ہو جاتی ہے۔ اسلام   میں شرعی احکامات کی روشنی میں یہ قاضی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ خود معاملے کی تہہ تک پہنچے ، خود ملزم یا اس کے وکیل  سے سوال کرے اور اُس کی طرف سے جوابات کو اچھی طرح پَرکھے اور خود تمام حقائق کی جانچ پڑتال کرے گو کہ اس ضمن میں اگر اُسے کسی پہلوکی  مزید تفتیش درکار ہو تو وہ پولیس کو احکامات صادر کرسکتا ہے ،جو تفتیش کے بعد اپنے دریافت کردہ حقائق قاضی کے سامنے لے کر آئے گی۔ پولیس صرف عدالت کے حکم پر ہی کسی سے تفتیش کرنے کی مجاز ہوتی ہے اور اِس تفتیش کے دوران وہ ملزم کو تشدّد کا نشانہ ہرگز نہیں بنا سکتی کیونکہ یہ شرعاً حرام ہے ۔ہا ں البتہ یہ ضروری ہے  کہ پولیس کے تفتیشی افسران اور اہلکاروں کو تفتیش کے جدید ترین طریقوں سے آراستہ کیا جائے اور انہیں Forensic Evidences کی جانچ پڑتال کی مہارت حاصل کرنے کے لیے بہترین انداز سے تربیت دی جائے تا کہ وہ اپنی تفتیش کے ذریعے معاملات کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت حاصل کریں ۔

نوآبادیاتی نظام تیسری دنیا کا نفسیاتی استحصال کنندہ

Advertisements
julia rana solicitors london

لہٰذا ایک اسلامی ریاست پولیس کے ادارے کے اختیارات کی شرعی احکامات کے مطابق درست انداز سے تحدید کرتی ہے۔ عوام کی حفاظت  اور ریاست میں اسلامی نظریے کے نفاذ میں معاونت  سے متعلق   فرائض  کی انجام دہی کے لیے  ریاست اپنے  پولیس کے ادارے کی انتہائی پیشہ وارانہ انداز اور اعلیٰ معیار کی    ذہنی  اور  جسمانی  تربیت   کرتی ہے، اسے جدید ترین  سازوسامان اور ٹیکنالوجی سے لیس کرتی ہے  اور اِسے جدید خطوط پر استوار کر کے  ایک انتہائی مستعد  فورس بناتی ہے۔

Facebook Comments

غزالی فاروق
غزالی فاروق ایک انجنئیر اور بلاگر ہیں۔ ملکی اور بین الاقوامی سیاسی حالات پر نظر رکھتے ہوں۔ کسی سیاسی تعصب سے بالاتر ہو کر آزادانہ طور پر لکھتے ہیں۔ بلاگ: https://ghazalifarooq.blogspot.com

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply