ہمارے یار غار تنولی صاحب کی تمام تر پوسٹیں ایسی ہوتی ہیں کہ انسان ان کی گوند سے چپک کر رہ جاتا ہے۔ محترم اور ان کی لاکھوں لکھوں پر بھاری لِکھت ایسے مقناطیس ہیں جن سے چھوٹنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ ہم جیسے لوہ چون کے ذرّے تو جب کہیں چپک جائیں تو انھیں اتارنا مشکل ہو جاتا ہے۔ آج بھی یہ تحریر کرتے کرتے وارفتگی سے ہماری صبح کی نماز بھی قضا ہو گئی ، شنیدن ہے کہ ان کی جاندار تحریریں محو ہو کر پڑھتے ہوئے اسٹیشن پر بیٹھے کئیوں کی تو ٹرین بھی چھوٹ گئی۔ لاکھوں کا اور نجانے کیا کچھ ہاتھ سے چھوٹ چھوٹ جاتا ہے۔
ذکر خیر محترمہ قلو پطرہ اور ان کے شوہر نامرد۔۔۔ نامدار بلکہ نامراد کا ہو رہا تھا تو ہم سے رہا نہیں گیا۔ ہاتھوں میں کجھلی سی ہونے لگی تو سوچا کہ ان سے پوچھ ہی لیں کہ یہ کس نمبر کے شوہر کی بات چل رہی ہے۔ نماز کا کیا ہے، نماز تو قضا بھی پڑھ لیں گے، کہیں بھاگی تھوڑی جاتی ہے۔۔۔ یہ زریں خیالات بھاگ گئے تو پھر ان کا پکڑنا مشکل ہے۔ یہی سوچ کر قلم کی چونچ پکڑ لی اور اب اس کی جکڑ میں بہہ رہے ہیں۔
ان عفیفہ محترمہ کی پہلی شادی تو اپنے والد محترم پٹولمی نمبر تیراں تھیس صاحب سے ہوئی تھی کہ تب بادشاہ کا اپنی سگی بیٹیوں سے بیاہ کرنا روا اور جائز سمجھا جاتا تھا۔ سارے فرعون یہی کرتے تھے۔
والد اور پہلے دولہا کی وفات پُر آیات کے بعد ابھی ممی کی پٹیاں سوکھی بھی نہ تھیں یعنی ابھی کفن تک گیلا تھا تو بی بی نے اپنے دس سالہ چھوٹے بھائی پٹولمی نمبر چودہ فلیو پیٹر صاحب سے کفن کا چونگا کر لیا یعنی نکاح شرعی و دھوم دھڑکے کی شادی کہ یہ بات بھی تب روا ہی تھی۔
ابھی نئے شوہر کی مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں کہ ناعاقبت اندیش نے کسی مداخلت و ناروا دخل اندازی سے تنگ آ کر محترمہ کو پابند سلاسل کر دیا۔
محترمہ قلو پطرہ صاحبہ بھی کچے بنٹے نہیں کھیلی تھیں، انھوں نے کسی نہ کسی طرح خود کو قالین میں لپٹوا کر رومی حکمران جولیس سیزر کے دربار تک رسائی حاصل کر لی۔ قالین سے انگڑائی لے کر یوں اٹھیں کہ ہالی وڈ کی بنائی فلم نے سارے پاک و ہند میں کھڑکی توڑ جوبلیاں منائیں۔
الزبیتھ ٹیلر اپنی قاتل نیلی آنکھوں میں دنبالے دار کاجل کی لمبی دھار لگا کر تو لگتی بھی سچ مچ کی قلو پطرہ ہی تھیں۔
قلو پطرہ کے پھڑکتے اور پھڑکاتے حسن کی داستان پر مہر ثبت ہو گئی وگرنہ ہم نے موصوفہ کے مجسمے کی نقل قاہرہ میوزیم میں اور اصل برٹش میوزیم میں بھی دیکھ رکھی ہے۔
حسن نام کی کوئی شے بھی ہمیں ان میں کہیں نظر نہیں آئی ۔ حُسن تو دور دور سے ان کے نزدیک نہیں پھٹکتا تھا۔ بھدی سی موٹی ناک، چوہیا سی آنکھیں، موٹے موٹے بھدے ہونٹ۔۔۔ یہ اگر حُسن ہے تو پھر ہم بھی خیر سے یوسف ثانی ہیں، ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمارے بھی مجسمے بنا کر چوراہوں پر لگائے جائیں۔
خیر بات قلو پطرہ صاحبہ کے شوہروں کی ہو رہی تھی اور وہ بھی رچرڈ برٹن صاحب کی طرح خوبرو ہرگز نہیں تھے۔
جولیس سیزر صاحب تو اپنی کسی پوشیدہ کی گئی نیکی کے صدقے محترمہ کے شوہر بننے سے بال بال بچ گئے ہاں اس قاتلہ نے ان کے مرتے ہی روم کے نئے حکمران مارک انتھنی کو فوری طور پر گانٹھ لیا۔ اس پر متزاد کسی منجھے شاعر کی طرح ایسی گرہ لگائی کہ موصوف پھدکنے سے بھی رہ گئے۔
دے پھڑکنے کی اجازت صیاد۔۔۔
حق بات تو یہ ہے کہ محترمہ کی زلف پریشان میں گرفتار ہونے کے لیے عقل کا اندھا اور گانٹھ کا پورا ہونا نہایت ضروری تھا۔ ہالی وڈ کی فلم نے بھی اس بات کی تصدیق کر دی تھی۔
چنانچہ وہی ہوا کہ ہونی نے تو ہو کر رہنا تھا۔ جو بقول قصص الانبیا کاتب تقدیر نے ازل سے لوح محفوظ پر اور فلم ڈائریکٹر نے کاغذ پر لکھ رکھا تھا۔ یہ محترمہ کی تیسری یا چوتھی شادی تھی جس پر چوتھی کا جوڑا پہننا انھیں راس نہیں آیا۔
پھر وہی ہوا جو ہم آپ جانو، سارا جگ جانتا ہے، مزید حاشیے کیا چڑھانے؟
اس سے آگے کی کہانی پڑھنے کے لیے کتاب خود خرید کر پڑھیے کہ ہم نے بھی پبلشر کے انڈر دی ٹیبل دیے حق حلال کے پیسے حلال کرنے ہیں۔ آپ کی آتشِ شوق کو تیل کے چھینٹے دے دے کر بھڑکا دیا گیا ہے لہذا پنجابی میں ” ہن کجھ تسی وی کر لیو۔ رب راکھا ”
آخر میں ایک فٹ نوٹ محترم تنولی صاحب کے لیے بھی پیش خدمت ہے۔
یہ مشٹنڈی قلوپطرہ بی بی بمع اپنے مشمولات و شوہران نامی گرامان کباب کی ہڈی کی طرح سے نجانے بیچ میں کہاں سے ٹپک پڑیں؟
سرکار تعریف تو ہمیں آپ کی پُر کار سحرکاریء و نغمہ نگاریء تحریر کی کرنی تھی مگر پھر وہی ہوا جو زلیخا کے ساتھ حسن یوسف دیکھ کر ہوا تھا۔ والہانہ دیکھتے پڑھتے ہم اپنی ہی انگلیاں آپ کاٹ بیٹھے۔
خیر۔۔۔
اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
بھلے ہمارا قلیہ گلا نہ گلا، کم از کم ایک کلیہ تو ثابت ہو گیا۔ آپ کی انوکھی بانکی اور طرحدار تحریریں وہ کیٹلسٹ ہیں کہ جنہیں پڑھ کر گونگے اباق قلم بھی بول پڑتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں