انسان قرآن و سنت کی روشنی میں۔لئیق احمد/قسط1

“انسان کی لغوی تعریف”

 انسان عربی زبان کے لفظ اَ لْاِنْس سے مشتق ہے جس کے معنی آدمی اور بشر کےہیں۔ اسم الانس کے ساتھ ان زائد برائے مبالغہ لگانے سے انسان بنتا ہے ۔ (مختار الصحاح مترجم ، ص ۵۰)
علامہ مجد الدین محمد بن یعقوب فیروز آبادی متوفی ۸۱۷ھ لکھتے ہیں:
بشر انسان کو کہتے ہیں۔ بشر کا معنی انسان کی ظاہری کھال ہے اور کھال کو کھال سے ملانا مباشرت ہے اور بشارت اور بشری کا معنی خوشخبری دینا ہے۔(القاموس المحیط، ج۱، ص۶۹۸، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت)

انسان کا اسم  تصغیر انسیان ہے حضرت ابن عبّاس کا   قول ہے   ۔ کہ انسان کو  اس لئے انسان کا  نام دیا گیا ہے کہ اس کے  ذمے  ایک کام لگایا گیا  تھا تو وہ اسے بھول گیا۔

لفظ الانیس  کا مطلب انس کرنے والا دوست ہے یعنی ہر وہ چیز جس سے انس ہو   (مختار الصحاح مترجم ، ص ۵۰)

“انسان کی تخلیق قرآن و سنّت کی روشنی میں “

اللّه پاک نے قرآن کریم میں انسان کے وجود پذیر ہونے ،اس کائنات میں آنے اور اس کی تخلیق  کے بارے میں متعدد مقامات  پر تذکرہ کیا ہے ہم یہاں تین عنوانات کے تحت تخلیق انسان پر گفتگو کریں  گے۔

1)حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے مراحل

2)”ابن آدم کی تخلیق کے مراحل

3عالم ارواح میں رُوح انسانی کی تخلیق

“حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے مراحل”
جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں گیلی مٹی سے بشر بنانے والا ہوں سو جب میں اس کا پتلا بنالوں اور اس میں اپنی طرف سے (خاص) رُوح پھونک دوں تو تم سب اس کے لیے سجدے میں گرجانا۔ (سورۃ ص ۷۱،۷۲)
ان آیات میں اللہ ربّ العزت نے آدم علیہ السلام  کی تخلیق کا تذکرہ فرمایا ہے۔ اکثر مفسرین نے ان آیات کی تفسیر کے لیے ان احادیث کو پیش کیا ہے۔

امام ابن عساکر نے حضرت ابن عباسؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے لیے تمام روئے زمین سے مٹی لی گئی پھر اس مٹی کو زمین پر ڈال دیا گیا حتیٰ کہ وہ چمٹنے والی مٹی ہوگئی پھر اس کو چھوڑ دیا حتیٰ کہ وہ سیاہ بدبودار کیچڑ ہوگئی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے شایانِ شان ہاتھ سے ان کا پتلا تیار کیا۔ حتیٰ کہ وہ پتلا خشک ہوگیا اور ٹھیکرے کی طرح بجنے والی خشک مٹی ہوگیا کہ جب اس پر انگلی ماری جائے تو اس سے کھنکتی ہوئی آواز نکلے۔
حافظ جلال الدین سیوطیؒ لکھتے ہیں:
امام فریابی، امام ابن سعد، امام ابن جریر، امام ابن ابی حاتم، امام حاکم اور امام بیہقی نے حضرت ابن عباسؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو آدم اس لیے کہا گیا ہے کہ ان کو ادیم ارض (زمین کی سطح سے بنایا گیا ہے، سرخ سفید اور سیاہ مٹی سے۔
(الدر المنشور، ج ۱، ص۴۹، آیت اللہ العظمی ایران)
امام ابن سعد، امام ابو یعلیٰ، امام ابن مردویہ اور امام بیہقی نے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا پھر اس کو کیچڑ (گیلی مٹی) کردیا، پھر اس کو چھوڑ دیا، حتیٰ   کہ سیاہ گارا ہوگئی پھر اللہ تعالیٰ نے اس سے آدم علیہ السلام کا پتلا بنایا اور ان کی صورت بنائی، پھر اس کو چھوڑ دیا حتیٰ کہ وہ خشک ہوکر بجنے والی مٹی کی طرح ہوگیا۔ ابلیس اس پتلے کے پاس سے گزر کر کہتا تھا کہ یہ کسی امر عظیم کے لیے بنایا گیا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس پتلے میں اپنی پسندیدہ رُوح پھونک دی، اس رُوح کا اثر سب سے پہلے ان کی آنکھوں اور نتھنوں میں ظاہر ہوا، ان کو چھینک آئی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو الحمدللہ کہنے کا القاء کیا انہوں نے الحمدللہ کہا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا یرحمک اللہ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم علیہ السلام اس جماعت کے پاس جاؤ اور ان سے بات کرو دیکھو یہ کیا کہتے ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام ان فرشتوں کے پاس گئے اور کہا السلام وعلیکم۔ انہوں نے کہا علیک السلام۔ پھر آدم علیہ السلام اللہ کے پاس گئے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا، انہوں نے کیا کہا حالاں کہ اللہ کو خوب علم ہے حضرت آدم علیہ السلام نے کہا: اے رب میں نے ان کو سلام کیا انہوں نے کہا وعلیک السلام۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اے آدم علیہ السلام یہ تمہارا اور تمہاری اولاد کے سلام کرنے کا طریقہ ہے۔ (الدرالمنشور، ج۱، ص۴۸، مطبوعہ مکتبہ آیۃ اللہ العظمی ایران)

“ابن آدم کی تخلیق کے مراحل”
اللہ تعالیٰ انسان کی تخلیق شکم مادر میں کیسے فرماتا ہے اور جسم انسانی کن مراحل سے گزرتا ہے اس حوالے سے سورۃ المومنون میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
ہم نے انسان کو مٹی کے سست سے بنایا پھر اسے ایک محفوظ جگہ میں ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی پھر اس لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بناکر کھڑا کیا۔ بس کیا ہی بابرکت ہے سب کاریگروں سے اچھا کاریگر۔‘‘
ان آیتوں میں انسان کی تخلیق کے جو مراحل بیان کیے گئے ہیں۔ حدیث میں بھی اسی طرح انسان کی تخلیق کے مراحل کا بیان کیا گیا ہے۔
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا اور آپﷺ صادق و مصدوق ہیں۔ بے شک تم میں سے کسی ایک کی خلقت کو اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک رکھا جاتا ہے۔ پھر چالیس دن تک وہ جما ہوا خون ہوتا ہے پھر چالیس دن میں وہ گوشت بن جاتا ہے پھر اللہ تعالیٰ فرشتہ بھیجنا ہے جو اس میں روح پھونک دیتا ہے۔
(صحیح مسلم، رقم الحدیث ۶۹۴۳) (صحیح بخاری رقم الحدیث ۶۵۹۴)

“عالم ارواح میں رُوح انسانی کی تخلیق”
اللہ تعالیٰ نے عالم ارواح میں لفظ کن سے ارواح کی تخلیق فرمائی اور اسی عالم میں عہد الست ہوا اور ارواح سے سوال کیا گیا ’’الست بربکم‘‘ کہا۔ میں تمہارا رب نہیں ہوں جس پر تمام ارواح نے بلیٰ کہہ کر اللہ ربّ العزت کی ربوبیت کا اقرار کیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ رُوح کی تخلیق جسم سے قبل ہوئی ہے اور اس کی دلیل یہ حدیث بھی ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
رُوحیں مجتمع لشکر ہیں، جو ان میں سے ایک دوسرے سے متعارف ہوتی ہیں وہ ایک دوسرے سے الفت رکھتی ہیں اور جو ایک دوسرے سے ناآشنا ہوئی ہیں وہ آپس میں اختلاف کرتی ہیں۔
(صحیح البخاری، ج۴، رقم الحدیث ۳۳۳۶) (سنن ابو داؤد، ج۳، رقم الحدیث ۳۸۳۴)

حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی ۸۵۲ھ لکھتے ہیں:
اس حدیث سے مراد یہ ہوسکتی ہے کہ اس سے ابتداء خلقت کی خبر دینا مقصود ہو جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ رُوحوں کو جسموں سے پہلے پیدا کیا گیا ہے اور جب رُوحوں کا جسموں میں حلول ہو تو ان کی آپس میں شناسائی یا عدم شناسائی عالم ارواح کے اعتبار سے ہوئی تو رُوحیں جب دنیا میں ایک دوسرے سے ملیں تو ان کا ایک دوسرے سے متفق یا مختلف ہونا بھی اسی سابق شناسائی کا عدم شناسائی کے اعتبار سے تھا۔
(فتح الباری، ج۶، ص۳۶۹، مطبوعہ لاہور، ۱۴۰۱ھ)

حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ۹۱۱ھ نے بھی لکھا ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ:
اللہ تعالیٰ نے روحوں کو جسموں سے پہلے پیدا کیا ہے۔
(الحاوی للفتاوی، ج۲، ص۱۰۰، مطبوعہ المکتبہ النوریہ الرضویہ، لائلپور، پاکستان)

Advertisements
julia rana solicitors london

علامہ بدرالدین عینی حنفی متوفی ۸۵۵ھ نے بھی لکھا ہے کہ حدیث میں ہے کہ روحوں کو جسموں سے پہلے پیدا کیا گیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ جسموں کے فنا ہونے کے بعد بھی روحیں باقی رہتی ہیں۔ اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ حدیث میں ہے کہ :
شہداء کی رُوحیں سبز پرندوں کی پوٹوں میں رہتی ہیں ۔
(عمدۃ القاری، ج۱۵، ص۲۱۶، مطبوعہ ادارۃ الطباعہ النمیریہ، مصر ۱۳۲۸ھ)

Facebook Comments

لیئق احمد
ریسرچ سکالر شعبہ علوم اسلامیہ جامعہ کراچی ، ٹیچنگ اسسٹنٹ شعبہ علوم اسلامیہ جامعہ کراچی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”انسان قرآن و سنت کی روشنی میں۔لئیق احمد/قسط1

Leave a Reply