نانی اماں۔۔روبینہ فیصل

اس عنوان کو دیکھ کر نہ یوتھیے خوش ہوں اور نہ پٹواری غصے میں آئیں۔ یہ تحریر میری نانی اماں کے بارے میں ہے۔۔ سچی مچی والی!
ویسے تو نانی اماں دل سے کبھی نکلی ہی نہیں تھیں مگرہوا یوں کہ ہماری ایک گڑیا سی دوست سلمہ سید جو کہ ایک بہت اچھی شاعرہ اور ناول نگار بھی ہیں،کل ان کی نانی ماں کا انتقال ہوگیا ،تو سلمہ کی دکھ بھری نظم پڑھ کر جو اس نے اپنی نانی کی وفات پر لکھی تھی،مجھے اپنی نانی اماں کی یاد شدت سے آگئی۔(خدا سلمہ کی نانی کو جنت الفردوس میں اعلیٰ  مقام دے)سلمہ کی نظم پڑھ کر مجھے احساس ہوا ہم نانیوں کے متعلق کتنا کم لکھتے ہیں ،حالانکہ وہ کتنی پیاری ہستی ہو تی ہیں ماں کی بھی ماں۔۔ واہ۔۔ ڈبل پیار کر نے والی۔ تو میرا بھی دل کیا کہ میں بھی اپنی نانی اماں کے لئے کچھ لکھوں۔۔ تاکہ ان کی پیاری باتوں سے مستقبل کی نسل کو روشنی ملے۔

ہم اپنی نانی کو اماں کہا کرتے تھے۔اس ایک اماں کے لفظ سے آنکھوں کے آگے سارا بچپن پھر جاتا ہے۔ ہماری نانی اماں بہت معصوم بہت سادہ سی ہوا کرتی تھیں۔ مزاج کی تیز لیکن ایسی تیزی کہ پل بھر کو غصہ کیا، وہیں پر نکالا اور دوسرے ہی پل ہنسنے بھی لگ گئیں۔ اسی لئے ان کا دل شیشے کی طرح شفاف اور چہرے پرنور کا ہالہ بنا رہتا تھا۔ وہ بہت جلد فوت ہو گئی تھیں۔ شاید ساٹھ سال کی بھی نہیں ہوئی تھیں۔ میں ابھی ایم  اے انگلش کے فرسٹ ائیر میں ہی تھی کہ ان کا انتقال ہو گیا تھا اور مجھے ان کی میت یاد ہے، وہ میری زندگی کی پہلی مستقل جدائی تھی، میں نے ان کو بے حرکت دیکھا تو ان کے سینے سے لپٹ لپٹ کر روتی رہی کہ شاید میرے رونے سے وہ اٹھ جائیں، یہ میرے اس وقت کے جذبات تھے۔ گو کہ ان کی عمر اتنی نہیں تھی مگر پھر بھی پریشانیوں اور دکھوں نے چہرے پر وقت سے پہلے جھریوں کا جال بچھا دیا تھا اس کے باوجود چہرے کا بھولپن ویسے کا ویسے تھا۔

یہ جنازے قضا ہوگئے خان۔۔عارف انیس
ابھی کچھ دن پہلے ان کی سب سے لاڈلی اور میری سب سے چھوٹی خالہ کا بھی انتقال ہو گیا، تو مجھے بے طرح سے ایک ہی خیال ستانے لگا کہ اب تو آسمانوں میں،پیار کرنے والی ماں کا اپنی سب سے چھوٹی لاڈلی بیٹی کے ساتھ ملاپ ہو گیا ہو گا۔ خالہ کی بیٹی نے بتایا کہ امی نے مرنے سے کئی دن پہلے اپنے سرہانے اماں کی تصویر رکھوا لی تھی(حالانکہ شوگر کی وجہ سے خالہ کی بینائی چلی گئی تھی)۔خالہ کو بھی یاد آتا ہو گا کیسے اماں ان کے بچوں کا خیال رکھا کرتی تھیں کیونکہ ان  کے شوہر بیرون ملک ہوا کرتے تھے۔ اماں سب سے ایک جیسا پیار کیا کرتی تھیں۔اور ہر ایک کے کام آنے کی کوشش کیا کرتی تھیں۔ ان کے پیار میں کوئی شرط بھی نہیں ہو تی تھی کہ جو اس پر پورا اترے گا بس اسی کو وہ پیار کریں گی، وہ بس کسی درویش کی طرح ہر ایک کے لئے رحمت کی چھاؤں ہوا کرتی تھی۔ جس کو ضرورت پڑتی وہ اس چھاؤں تلے جا کر بیٹھ سکتا تھا۔

میری اماں اپنی انگلی سے چھوٹی خالہ کے یا ماموں کے کسی نہ کسی بچے کو ساتھ  لگائے پھرتی تھیں۔ کیونکہ وہی دونوں ساتھ رہتے تھے۔میں نے ان کی وہ انگلی کبھی خالی نہیں دیکھی کہ اس کو کسی نا  کسی بچے کے ہاتھ نے تھام رکھا ہوتا تھا۔ وہ دل کی امیر تھیں،جیب میں آخری سکہ بھی ہو تا تو کوئی مانگتا تو انکار نہ کرتیں۔ مضبوط حوصلے والی تھیں جسم میں اتنی طاقت نہیں بھی رہی تھی پھر بھی کسی کو کمزور دیکھتیں تو آگے بڑھ کرمدد کیا کرتی تھیں۔۔ اسی حوالے سے ان کی ایک بات یاد آرہی تھی سوچا قارئین کے حوالے کر دوں کہ آج کے اس منافقت، ذاتی مفاد پرستی، اور نفسا نفسی کے دور میں جب سگے رشتے بھی آپ کی جڑیں کاٹتے اور مشکل میں آپ کو تنہا چھوڑدیتے ہیں اور اخلاقیات صرف باتوں کی حد تک رہ گئی ہے۔ ایسے میں ہمیں اپنے بڑوں کی وہ عملی مثالیں دہرانے کی ضرورت ہے جس سے انسانیت کا انسانیت پر اعتبار بحال ہو تا ہے اور جرات مندی کوئی طعنہ نہیں اور نہ ہی سادگی، یا خلوص کوئی شرمندگی کی بات ہے۔ جیسا کہ آج کل کا چلن ہو چکا ہے۔

انسانیت، خوشی اور کڑواہٹ ۔۔۔ معاذ بن محمود
جو واقعہ میں آپ کو سنانے لگی ہوں ہے ہوسکتا ہے آپ کو معمولی سا لگے، لیکن میرے لئے بہت اہم ہے اس لئے نہیں کہ یہ میری اماں سے متعلق  ہے، بلکہ اس لئے کہ اس میں ایک پیاری عورت کی تصویر ہے۔ میں شاید بی کام کے پارٹ ٹو میں تھی، عید لالضحیٰ  قریب تھی، ہم سب سہیلیوں نے حسب معمول عید پر گھومنے پھرنے کا پلان بنا رکھا تھا مگر میرے عید کے کپڑے کسی وجہ سے ابھی تک نہیں بنے تھے۔ میں امی سے ناراض ہو کر کمرہ  بند کیے رو رہی تھی کہ اچانک نانی اماں آگئیں۔۔ ہم لاہور میں اور وہ لائلپور میں رہتی تھیں۔ مجھے یوں پھوٹ پھوٹ کر روتا دیکھ کر بولیں کیا ہوا ہے، میں پہلے دو گھنٹے تو چپ شاہ بنی رہی کہ انہیں کہنا اچھا نہیں لگ رہا تھا۔خیر ان کے اصرار پر اپنی رام کہانی سنائی، بولیں چل اٹھ ابھی میرے ساتھ۔میں نے کہا اماں آپ کا روزہ ہے اور میرا بھی ہے، مجھے نہیں جانا۔ شوگر کی مریضہ تھیں مگر روزے سارے رکھتی تھیں۔ مجھے کہنے لگیں؛” تو جوان جہاں تجھے کیا اور مجھے بھی کچھ نہیں ہو گا۔۔” بلا کی گرمی میں وہ مجھے اچھرہ بازار لے گئیں۔۔ وہ میری زندگی کی سب سے حسین شاپنگ تھی کہ ویسا پیار ویسی چاہت ویسی محبت لاکھ ڈھونڈوں تب بھی کہیں سے نہیں ملے گی۔ مجھے آج بھی یاد ہے وہ گلابی رنگ کا سیلف پرنٹ والا سوٹ جو میں نے اس دن خریدا تھا۔ وہ مجھے بار بار یہی کہتی جا رہی تھیں جو بھی سوٹ پسند آئے لے لو، پیسے کی پرواہ نہ کرنا، بس اپنی پسند کا لینا۔ خود انہیں کالا رنگ پسند ہوا کرتا تھا یا ڈارک براؤن لیکن میں نے گلابی پسند کیا تو بھی بہت خوش ہو گئیں۔دوپٹے کی باری آئی تو، انہیں شیفون پسند تھا مگر میں نے ململ کا لیا تو کہنے لگیں تم میرے پیسے بچانے کی کوشش کر رہی ہو، میں کر تو یہی رہی تھی کیونکہ میں نے دوپٹے کے کنارے بندھے ان کے تھوڑے سے نوٹ دیکھ لئے تھے ، اور میں یہی سوچ رہی تھی سب میرے ایک سوٹ پر خرچ ہو گئے تو اماں کیا کریں گی۔ لیکن میں نے کہا نہیں مجھے ململ پسند ہے تو اسی پر راضی ہو گئیں پھر کہنے لگیں، ابھی رنگ کروا لو ورنہ رہ جائے گا۔ میں نے کہا اماں بعد میں گھر کے پاس سے کروا لوں گی، کہنے لگیں،نہیں سارا کام آج ہی ختم کرتے ہیں، رنگ کے بعد پیکو کی باری آئی تو انہوں نے دوپٹے کے کناروں پر گوٹی سی لگوا دی۔ اور وہ سوٹ اتنا پیارا بن گیا کہ اس کے بعد بڑے بڑے ڈیزائنر کے کپڑے بھی دیکھے اور پہنے مگر وہ خوبصورتی اس کے بعد کبھی کسی لباس میں محسوس نہیں ہو سکی۔ (میں نے اپنی شادی کے بھی بہت عرصے بعد تک اس سوٹ کو سنبھالے رکھاتھا)۔ جب ہم سب کام مکمل کروا کے واپس جا رہی تھیں تو ایک جگہ ایک ہجوم اکھٹا تھا میں سر جھکا کر وہاں سے گزر جا نا چاہتی تھی کہ ایک دم اماں نے میرا ہاتھ چھڑوایا اور اُسی ہجوم میں گم ہو گئیں، میں بھاگی ان کے پیچھے گئی، وہاں کیا دیکھا کہ لوگوں نے ایک عورت کو پکڑ رکھا تھا جو کسی دکان سے چوری کررہی تھی۔ میں نے اماں کو آوازیں دیں، میں اتنے سارے لوگوں میں گھبرا رہی تھی۔ مگر اماں تقریر کے موڈ میں آچکی تھیں۔ نہ جانے کیا کیا کہہ رہی تھیں، میرا دھیان صرف اس طرف تھا کہ کسی طرح ان کو یہاں سے نکالوں تاکہ ہم گھر جاسکیں۔۔ مگر اس بے دھیانی میں بھی ایک بات دھیان سے چمٹ گئی اماں اس عورت کو کہہ رہی تھیں تم نے عورت برداری کی ناک کٹوا دی ہے۔ شرم کرو۔۔۔۔بعد میں بھی سارا راستہ یہی ملامت کرتی رہیں کہ جب انسان خود کما سکتا ہے تو مانگنے یا چوری کر نے کی کیا ضرورت ہے۔ عزت نفس اور خود مختاری کو عورت کا حق سمجھتی تھیں۔ آج سوچتی ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ عورت کو آزادی کا درس لینے کے لئے ایسی مضبوط اور خودادر عورتوں کی مثالیں دیکھنی چاہئیں۔جنہوں نے نہ کبھی شرافت کا سودا کیا اور نہ عزت نفس کا۔۔

جمہوریت کی لڑائی صرف منتخب ایوانوں میں ہی سجتی ہے۔۔ غیور ترمذی
ہماری اماں خلوص، محبت، سادگی اور جرات سے بھرپور خاتون تھیں۔ آج کل عورت تو دور کی بات کوئی مرد بھی ایسی ہمت نہ کرے جیسا سچ کہنے کی ان کے اندر ہمت تھی۔ ہمیں آج یسی مثالیں دہرانے کی ضرورت ہے۔ ہماری اماں کو خدا پر بہت بھروسہ ہوا کرتا تھا۔ شاید اسی لئے چھوٹی سی عمر میں شادی ہو نے کے بعد دکھوں کی ایک طویل جنگ سے مرنے تک ہمت سے نبرد آزما رہیں۔وہ اپنی ملکہ خود تھیں۔ ان کی شان، ان کی عزت ِ نفس اور ان کی خودداری سب ان کی اپنی بدولت تھا۔ وہ خالی جیب بھی ہو تیں تو ہمیشہ دینے والا ہاتھ ہی ہو تیں۔۔ انہیں مانگنا نہیں آتا تھا وہ صرف دینا جانتی تھیں اور اس میں انہیں خوشی ملتی تھی۔ سب بیٹیوں سے اور ان کے بچوں سے یکساں پیار کر نے کی کوشش کر تی تھیں۔ اگر کچھ کمی بیشی رہ بھی جاتی ہوگی تو مجھے اپنے بیٹے ہادی کی بات میں اس کا جواب مل گیا۔ ہادی کی بات سے پہلے اماں سے کی گئی اپنی گستاخی کا ذکر کردوں میں شاید آٹھویں یا نویں جماعت میں تھی کہ کسی واقعے کے بعد جس میں میری بہن نے (خدا اسے جنتوں میں جگہ دے) امی سے بدتمیزی کی، اور اماں اسے بدتمیزی کرتے دیکھ کر ہنسے جارہی تھیں اب اندازہ ہو تا ہے کہ یہ بھی لاڈ کا ایک انداز ہو تا ہے مگر مجھے لگا کہ وہ میری امی کی بے عزتی پر خوش ہو رہی ہیں۔۔ مجھے میرے جذباتوں نے ہمیشہ کی طرح تب بھی مروایا اور میں نے واپس لاہور آکر انہیں بہت تلخ ساخط لکھ ڈالا۔۔ جس کا مجھے آج تک افسوس ہے لیکن وہ ایک بچی کا اپنی ماں کے لئے سچا جذبہ تھا اور اس وقت نانی اماں کہیں دور کھڑی محسوس ہو ئی تھیں۔۔مگر سلام ہے میری نانی اماں کو انہوں نے مجھے کبھی بھی اس بات کے لئے نہ  بُرا بھلا کہا ،نہ مجھے پیار کرنا چھوڑا۔۔۔

اب ہادی۔۔ میرے بیٹے کی بات بھی بتا دوں کہ سادگی، معصومیت اور اخلاق کی باتیں گزشتہ نسل کا ہی خاصہ نہیں ہیں بلکہ آنے والی نسلوں میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں۔ میرا بیٹا اس کی تصویر ہے۔میری نانی اماں کی تصویر۔۔ کچھ عرصہ پہلے میرے ایک غلط جذباتی فیصلے کی وجہ سے اس کی زندگی میں بہت پرابلم ہو گئی، اور وہ مجھ سے کچھا کچھا رہنے لگا تھا، میں پچھتاوے کی وجہ سے خاموش تھی۔ ظاہر ہے انسان جن بچوں کو اپنی زندگی سے زیادہ پیار کرتا ہو انہیں آپ ہی کے ہاتھوں تکلیف پہنچ جائے تو اس سے بڑا دکھ اور کیا ہو سکتا ہے۔ پھر ایک دن وہ اچانک میرے پاس آیا میری گود میں سر رکھ کر کہنے لگا “ماما! میں آپ کی پرانی تصویریں دیکھ رہا تھا، آپ کی جب شادی ہو ئی تھی تو آپ کتنی چھوٹی سی تھیں اور پھر ہم پیدا ہو گئے اور آپ لوگوں کو پتہ بھی نہیں تھا کہ ماں باپ بن کر کیا کرنا ہوتا ہے۔پہلے میں سوچتا تھا ماما نے مجھے یہ کیوں کہا،پاپا نے ایسے کیوں کہا اب میں سوچتا ہوں ماما پاپا بھی ہماری طرح انسان ہیں جیسے ہم بڑے ہو رہے ہیں وہ بھی بڑے ہو رہے تھے ان سے بھی غلطیاں ہو سکتی ہیں۔ میں زیادہ ہرٹ اس لئے ہوا کہ میں نے آپ کو سپر ہیومن سمجھ رکھا تھا کہ ماں باپ کوئی خدا ہو تے ہیں اور وہ بس مکمل ہو تے ہیں۔ہادی کمال کا بچہ ہے مجھے تسلی دیتے ہی اس نے اپنا کیس بھی فورا ً ہی پیش کیا تاکہ تاحیات وہ بری الذمہ ہو جائے، کہنے لگا کہ ہم لوگ بھی بچے ہو تے ہیں، ہم سے بھی نارمل انسانوں والی امیدیں رکھاکریں۔ ہم بھی غلطیاں کر سکتے ہیں۔ آپ لوگ بھی اس لئے زیادہ ہرٹ ہو تے ہیں کہ آپ لوگ بھی اپنے بچوں سے بڑی اونچی امیدیں باندھ لیتے ہیں۔ امید حقیقی بنیادوں پر باندھاکریں، پھر کوئی کسی سے ہرٹ نہیں ہو گا۔۔ انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرتے ہوئے شاید مجھ سے کوئی لفظ ادھر اُدھر ہو گیا ہومگرمفہوم یہی تھا۔ مگر مجھے اس پر لاڈ آیا ،ایسے لوگ اپنی وجہ سے کسی کو احساس ِ جرم میں بھی مبتلا کر نا نہیں چاہتے۔ دنیا انہیں اپنے معیارات پر پو را نہ اترنے والے بے وقوف ہی کیوں نہ سمجھے، مگر یہ لوگ بادشاہ لوگ ہو تے ہیں۔ اپنے آپ میں مگن، کسی کو نقصان نہ پہنچانے والے درویش صفت۔خدا کی ان پر خاص رحمتیں ہو تی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

فوکس۔۔روبینہ فیصل
اس مضمون میں گزری نسل کی ایک سادہ روح اور اگلی نسل کی سادہ روح پر بات کر نے کا مقصد یہ ہے کہ خصوصیات کو زمانوں سے نہیں جوڑنا چاہیے۔۔ہاں اچھی مثالیں جس بھی زمانے کی ہو ں دہرا دینی چاہئیں  ،کہ ہر زمانے میں محبت، خلوص اور سادگی کی اپنی اہمیت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی اہمیت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ ناجائز امیدیں ناجائز رشتوں کی طرح ہی حرام ہو نی چاہئیں۔۔ ہم دلوں میں نفرتیں پالتے ہیں اورمحبتیں شمار نہیں کرتے۔ میری نانی کی اور میری مرحوم سب خالاؤں کی یادیں، میری مرحوم بہن کی یادیں، وہاں دیکھوں تو ان کے مجھ پر کیے گئے احسانات اور محبتیں ہی نظر آتی ہیں۔۔محبتوں کا شمار ہی کرنا چاہیے، اگر کوئی آپ کے لئے کچھ نہیں کر سکا تو آپ اپنی امید کو وہاں تک لے کر ہی نہ جائیں کہ ٹوٹ سکے اور سب سے بڑی بات محبت کرنے والوں سے کوئی غلطی بھی ہو جائے تو یہ سوچ لیں جیسا کہ ہادی نے کہا کہ ماں باپ بھی انسان ہی ہو تے ہیں ان سے بھی غلطیاں ہو سکتی ہیں۔ تو ہم سب انسان ہی ہیں اگر کوئی آپ کو فائدہ پہنچانا چاہتا ہو اور اس کی وجہ سے آپ کا غلطی سے نقصان ہو جائے تو اسے بھی معاف کردیں کہ اس بندے کی بنیادی نیت تو محبت اور خلوص کی تھی۔ محبتوں کو شمار نہ کر نے والے اور نفرتوں کا حساب کتاب کرتے رہنے والے لوگ دنیا کے بدقسمت ترین لو گ ہو تے ہیں۔ کوشش کریں آپ کا شمار ایسے ناشکروں اور احسان فراموشوں میں نہ ہو۔

Facebook Comments