• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • موسموں کی مصنوعی تبدیلی بطور جنگی ہتھیار ۔۔۔ حبیب خواجہ

موسموں کی مصنوعی تبدیلی بطور جنگی ہتھیار ۔۔۔ حبیب خواجہ

اقوام عالم کے بیچ دیرپا امن کے حصول کیلئے عالمی برادری نے جہاں انٹرنیشنل فورمز پر انصاف پر مشتمل کچھ قوانین ترتیب دئےہیں، وہاں کچھ ہمسایہ ممالک کے درمیان تحریر شدہ اور غیر مرقوم سمجھوتے بھی موجود ہیں۔ ان سمجھوتوں تک پہنچنے کے لیے جہاںکچھ ممالک کی دو طرفہ گفت و شنید ہوئیں وہاں کچھ ممالک کو ان تک پہنچنے کیلئے مقتدر عالمی قوتوں و اداروں کی ثالثی و تیکنیکی اعانتبھی میسر رہی جبکہ کچھ ممالک کو کسی معاہدے، تصفیے یا سمجھوتے تک پہنچنےسے پہلے جنگیں بھی لڑنی پڑیں۔ بہرحال ایسے تصفیات اورسمجھوتے بھی قانونی ماہرین کیلئے قانونی شقوں کی طرح ریفرنسز بن جاتے ہیں۔ ایسے عالمی قوانین کی رو سے سمندر سے محروم لینڈ لاکڈملک کو سمندر تک رسائی دینا بندرگاہ کے حامل ہمسایہ ملک کے لیے ضروری ہے۔ ہمارا برادر اسلامی ملک افغانستان چونکہ ساحلیعلاقوں سے محروم ہے، اس لئے پاکستان اسے اپنی کراچی پورٹ تک پہنچ دینے کا پابند ہے. جبکہ دریا اپنے قدرتی بہاؤ کے زریعے لمبےعرصوں سے جن جن علاقوں سے گزرتے اور سیراب کرتے ہیں، عالمی قوانین کے مطابق ان کے پانی پر ان علاقوں کا حق مسلمہحقیقت ہے۔ نیز یہ کہ اوپری سطح کے ممالک نشیبی علاقوں کی طرف والوں کو پانی سے محروم نہیں کر سکتے۔ نشیبی ہمسایوں کےحصے کے پانی سے پَن بجلی جیسے استعمال کیلئے بھی ان کی اجازت یا رضامندی ضروری ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ ممالک کے مابیندریاؤں میں طغیانی کی بروقت اطلاعات کے سمجھوتے بھی ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے ہی قوانین اور سمجھوتوں کے بموجب تیل سے مالامال ایک ملک اپنے ہمسایہ ملک کو سرحدی مگر نشیبی علاقے سے تیل نکالنے کے حق دینے میں گریزاں ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شاہکے دور سے ایران نے پاکستان کو ایک باہمی سمجھوتے کے نام پر سرحدی علاقے سے تیل کی تلاش سے زبردستی روکا ہوا ہے۔ایسے ہی عراقی صدر صدام نے برادر ہمسایہ ملک کویت پر اس لئے چڑھائی کر دی تھی کہ اس کے خیال میں عراق ایران جنگ کےدوران کویت چپکے سے اپنی نشیبی زمین کے زریعے عراق کا تیل چُراتا رہا تھا۔

ایک عالمی قانون کے مطابق ساحلی پٹی رکھنے والے ممالک کے لیے ایک خاص گہرائی تک سمندری حدود کا حق مانا گیا ہے جس میںانہیں بلا شرکت غیرے شکار کے حق کے علاوہ ان حدود میں تیل و معدنیات کے زخائر کی ملکیت کا اختیار بھی دیا جاتا ہے۔ عالمیسمجھوتوں کے زریعے کرۂِ ارض پر بقائے حیات کے لیے ضروری ایکو سسٹم (Echo System) کے تحفظ کے لیے معدوم ہوتی چرند وپرند کی مختلف اقسام کو تحفظ بھی دیا جاتا ہے اور عالمی ادارے کی سفارشات پر معدومیت کےخطرے سے دوچار نایاب جنگلیحیات کے شکار پر پابندی لگائی جاتی ہے۔ جبکہ دنیا بھر میں تاریخی انسانی ورثہ کو تحفظ دینے کے لیے بھی عالمی ادارہ مناسباقدامات کرتا ہے۔ اس کےعلاوہ، غیر روایتی جنگی ہتھیار چاہے کیمیائی ہوں یا حیاتیاتی، ان عالمی قوانین کی رو سے ان کے استعمالپر بھی پابندی ہے۔ یہاں تک کہ بڑے پیمانے پر فوجیوں اور عام شہریوں کو بلا امتیاز ہلاک کرنے والے کلسٹر بموں کے استعمال پرپابندی کے عالمی کنونشن کی توثیق بھی دنیا کے بیشتر ممالک کر چکے ہیں۔

اس طویل تمہید کے بعد اب آتے ہیں اصل مدعا کی جانب جو اس انتہائی سنجیدہ تحریر کا محرک بنا ہے۔ دراصل حال ہی میں چینیزرائع نے نوید سنائی ہے کہ چین نے موسموں کو بڑے پیمانے پر کنٹرول کرنے کیلئے مطلوبہ ٹیکنالوجی پر دسترس حاصل کر لی ہے۔ان زرائع کے مطابق پانچ سال تک چین زمین کے اتنے بڑے خطے پر حسبِ ضرورت تبدیلی لانے پر قادر ہو جائے گا جو خطہ چینکے تیسرے حصے، جبکہ بھارت کے پورے رقبے کے برابر ہو سکتا ہے۔ چینی اطلاعات کے مطابق ٢٠٣٦ تک چین پورے کرۂِ ارضکے موسموں پر اپنی گرفت مکمل کر لے گا۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ چین دنیا بھر میں جہاں بھی چاہے گا من چاہی موسمی تبدیلیاں برپاکر سکے گا۔ کہیں برف کے اولوں کی پیشینگوئی ہو تو وہاں خوشگوار بارش، اور جہاں بہتر بارش کا پہلے سے امکان ہو وہاں اولے برساکر تیار فصل برباد کر سکے گا۔ ہوا کے دوش بادلوں کو جب چاہے ان کی راہ میں جہاں چاہے برسا سکے گا۔ مثلاً بھارت سے چین کیسمت بادل رواں دواں ہوں تو چینی محکمہ موسمیات فیصلہ کر سکے گا کہ اگر تو قریبی چینی علاقوں میں بارش کی ضرورت نہیں تو انبادلوں سے اولے برسا کر بھارتی فصلیں تباہ کر دے یا اگر ضرورت چین میں ہے تو انہیں قطعاً بھارت میں نہ برسنے دے۔ جبفضاؤں میں تیرتے یہی بادل چینی حدود میں پہنچیں تو ان کی راہ میں جس مقام پر بارش کی زیادہ ضرورت ہو وہاں سیڈنگ کے زریعےبارش برسا دیں۔ یہ کھلم کھلا سرقۂِ اَبر یا بادلوں کی چوری ہے۔ بلکہ موسمی تبدیلی کی تیکنیک کوموسمی ہتھیاربنا کر جنگی مقاصد کےلیے استعمال کرنا ہے۔ یہ قطعاًروایتی جنگی ہتھیارنہیں بلکہ مخالف ممالک کو شدید بارشوں میں ڈبونے یا ان کی زراعت کو بربادکرنے، زرعی اراضی کو بنجر بنانے اور بڑے پیمانے پر غربت و افلاس کے زریعے ان کی عوام کو بھوکوں مارنے کی انسانیت سوزسازش اور عالمی قوانین کا بھونڈا مزاق ہے۔

      

حالیہ پیشرفت تک پہنچنے کے لیے چین نے ٢٠١٢٢٠١٧ کے دوران ایک پانچ سالہ منصوبہ مکمل کیا ہے جس میں پینتیس ہزار کارکنوںجیسی بڑی ورک فورس نے کام کیا اور جس پر ڈیڑھ ارب ڈالر کی خطیر رقم پر مشتمل ایک گراں قدر بجٹ خرچ ہوا۔ جبکہ آئندہ کےلیے چین کا اس پروجیکٹ کو پانچ گنا تک بڑھانے کا پروگرام ہے۔ مگر کیا ہمسایہ ممالک کے باہمی انحصار کے اس منصفانہ عالمیسماج میں، مندرجہ بالا قوانین، تحریر شدہ و غیر مرقوم سمجھوتوں کے ہوتے ہوئے اور ان کی سپرٹ و فلسفۂِ انصاف کی بنیاد پر کسیملک کو دوسرے ملک کے موسموں سے کھلواڑ کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ کیا کسی کو ہمسایہ ملک کے آسمانوں پر موجود بادلوں کوچُرانے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ کیا برصغیر کے ممالک ہمسایہ چین کو ہزاروں سالوں سے جاری و ساری مون سون موسم میںخلل ڈالنے کی اجازت دے سکتے ہیں؟ کیا عالمی برادری، اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف کو پانی اور دیگر وسائل کی لیے قدیمدور کی جنگوں کی طرح اب موسموں، بارشوں اور بادلوں کے لیے جنگوں کی اجازت دینی چاہئے؟ قدیم سے جدید تاریخ میں قبائل کےدرمیان پانی کے روایتی جھگڑوں کے احوال موجود ہیں، جو بڑھتے بڑھتے اتنے طول پکڑ جاتے کہ کئی کئی نسلوں تک طویل جنگیں برپارہتیں۔ موجودہ دور میں پاک بھارت اور انڈوچین آبی جنگیں بعید از قیاس کبھی نہیں رہیں۔ مستزاد یہ کہ اب شاید ان ممالک کے بیچموسموں، بارشوں اور بادلوں کے کنٹرول کے لیے بھی جنگیں ہو سکتی ہیں جن میں بھارت کو یقیناً Western Allies کی معاونت میسررہے گی۔ عین ممکن ہے کہ آئندہ عالمی جنگ بھی انہی نئے مدعوں و قضیئوں پر برپا ہو۔

مصنوعی بارش برسانے کے لیے seeding technique قطعاً کوئی نئی بات نہیں۔ 1940 میں امریکی سائنسدانوں نے Silver Iodide اور Ice Crystals کو جہازوں کے ذریعے بادلوں میں انجیکٹ کرنے کی یہ سیڈنگ تکنیک دریافت کی جس سے مصنوعی بارش ممکن ہوئیاور کامیابی کے ساتھ نہ صرف تجربات کئے بلکہ امریکہ اور خلیجی ریاستوں سمیت پچیس ممالک میں محدود بارش کے لیے اسکا باقاعدہاستعمال ہوتا رہا ہے۔ بارشوں اور اولوں کے علاوہ اس کے زریعے سرد علاقوں میں جہاں چاہئیں برفباری کر بھی سکتے ہیں اورروک بھی سکتے ہیں۔ زراعت کیلئے موسمی تبدیلی (Weather Modification) کا ایک محدود سلسلہ امریکہ کی پینتیس سو Counties میںسے پینتیس کاؤنٹیوں میں باقاعدگی سے جاری رہا ہے جہاں حال ہی میں اس سلسلے کو ختم کرنے یا بحال رکھنے کیلئے ایمیل ووٹنگ کےزریعے شہریوں سے ان کی رائے لی گئی۔ قبل ازیں دونوں جانب کے ماہرین ووٹنگ سے قبل اپنا اپنا نکتہ نظر بتا کر شہریوں کا شعوراجاگر کرتے رہے۔ اس پروگرام کے مخالف امریکی ماہرین کے نزدیک سلور آئیوڈائڈ کے ایسے استعمال سے عوام کو جِلد کی خارشکے ساتھ ناک بہنے، گلے کی خرابی اور آنکھوں اور جلد کے رنگ بدلنے جیسے طبی مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس کا اندرون ملکمحدود استعمال نہ اتنا مسئلہ ہے، نہ ہی اس تحریر کا مقصد، بلکہ ایک حد سے زیادہ اور بڑے علاقوں یا دنیا بھر کے موسموں سے کھلواڑمیں پوشیدہ کئی خطرناک مسائل کی نشاندہی اور تدارک اصل مطلوب و مقصود ہے۔

    

چین محض ایک بڑا نقال ہے، جس کا نقالی کے علاوہ ایجادات کے میدان میں کوئی کردار نہیں۔ مگر موسم میں تبدیلی کی اس امریکیتیکنیک کی نقل کرتے ہوئے، وہ دنیا بھر میں بہت بڑے پیمانے پر من چاہی موسمی تبدیلیوں کے لیے مطلوبہ ٹیکنالوجی کے حصول کیمنزل کے قریب تر ہے۔ موسمی تغیر کی یہ ٹیکنالوجی متوقع جنگی ہتھیار کے طور پر اس کے ہمسایوں کے لیے بالخصوص اور دنیا بھرکیلئے بالعموم کسی بڑی زحمت سے کم ہرگز نہیں ہو گی۔ ویتنام جنگ کے دوران بھی موسمی بم کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا تھا مگرمختلف ممالک کی کوششوں سے اس تیکنیک کو بطور جنگی ہتھیار استعمال نہ کرنے کا ایک عالمی سمجھوتہ ہوا اور تب سے اس طرفکسی ملک نے پیشرفت نہیں کی۔ مگر چین کو کسی عالمی سمجھوتے سے بھلا کیا سروکار؟ ان مغربی تکانیک کو بہت بڑی سطح پر کارگربنانے کے لیے ضروری ٹیکنالوجی پر چین کچھ عرصے سے کام کر رہا تھا جس کا معلوم سرا ٢٠٠٨ کی بیجنگ اولمپک کے موقع پر دنیا کےسامنے آیا جب بیجنگ کی فضا میں زبردست دھند کی وجہ سے چھائی تاریکی کو ختم کرنے کیلئے سیڈنگ کی اِسی تیکنیک سے بارش برسا کرفضا کو یوں ایک دم شفاف کر دیا گیا تھا کہ اولمپک کے دورانئے میں پھر شہر کی فضا دھند و بادل سے بالکل ہی صاف رہی تھی۔

چین کی زبردست پیشرفت کے حالیہ اعلان نے فطری طور پر ہمسایوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ بھارت پریشان ہے توفقط اس لئے ہم خوش ہیں۔ جب جب بھارت مشکل میں ہو تو کیا ایسے ہر موقع پر ہمارا خوشی سے بغلیں بجانا بنتا ہے؟ کیا بھارتوالی پریشانی کبھی کبھی ہماری بھی پریشانی یعنی سانجھی مشکل نہیں ہو سکتی؟ سچ تو یہ ہے کہ اس ضمن میں بھارت پر پڑنے والےمنفی اثرات سے پاکستان بھی بچ نہیں سکتا۔ ہم چاہے مانیں یا نہ مانیں، ہم ہمسایوں کاقدرتی باہمی انحصاربہت گہرا ہے۔پاکستان بھر میں بڑے پیمانے پر استعمال ہونے والے اور بھارت میں اُگنے والے مصالحہ جات، جڑی بوٹیوں اور دیگر اشیاء کاپوری دنیا میں کوئی نعم البدل نہیں ہے جبکہ بھارت میں برسنے اور بہنے والے پانی پر پاکستان کا بھی حق ہے جو آج تک بہرحال ہمیںمیسر ہے۔ اگر بھارتی بادل چُرا کر بھارت کو بنجر بنایا گیا تو عواقب سے ہم بھی قطعاً محفوظ نہیں ہونگے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہےکہ خطرات کو بھانپیں اور آنے والی نسلوں کو مون سون، دیگر موسموں اور اپنے خطے کو قدرتی زرعی استعداد سے کسی کو محروم نہکرنے دیں۔ اس کے لئے عالمی برادری کا دروازہ کھٹکھٹائیں اور اس ضمن میں عالمی قانون سازی کا فعال حصہ بنیں۔ شاید انہیکوششوں کے صلے میں سندھ طاس معاہدے کے مضمرات کو پلٹانے کا بھی موقع ملے۔

پاکستان سمیت بیشتر ممالک میں ہمسائیگی کے قوانین شارع عام سے محروم اُس گھر، راستے کے بغیر اُس کھیت اور روشنی کے بغیر یانکاسی سے عاری اُس گھر کو تحفظ دیتے ہیں کہ جسے ہمسایوں کی پراپرٹی سے راہگزر، دروازے، روشندان یا نکاسی کی سہولت پہلے ایکخاص معیاد تک مستعار و میسر رہی ہو۔ شہریت کے اتنے شعور civics sense حاصل کرنے کے بعد پھر بھلا کسی ملک کے شہری اپنیسرزمین پر کسی دوسرے ملک کا پانی روکنے کی خواہش کیسے کر سکتے ہیں۔ وہ پانی جو صدیوں سے قدرت کی طرف سے اس ملک کو میسررہا ہو آخر کسی ملک کو زرعی مقاصد کے بہانے دراصل اس کے جارحانہ  جنگی مقاصد کے لیے کرۂِ ارض کے قدرتی موسمی نظام میںمداخلت کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟ کسی غاصب ملک کو اجازت ہرگز نہیں دی جا سکتی کہ وہ اپنے ہمسایوں کے بادل چُرا کرانہیں بارش سے محروم کرے، ان کی فصلیں اُولوں سے برباد کرے یا شدید بارشوں کے زریعے ان کا سارا نظام ہستی تباہ و برباد کردے۔

انٹرنیشنل ریلیشنز اور عالمی انصاف کے ماہرین کے لیے بھی ایک امتحان ہے کہ ایسی ترقی کے حامل ممالک کو موسمی دہشتگردی سےکیسے روکا جائے۔ کیا ویٹو کا حامل چین کوئی ایسا عالمی قانون بننے دے گا بھی یا کسی بھی ایسے مجوزہ قانون کی راہ میں روڑے اٹکائےگا۔ امریکہ اور یورپ اگر ایسے قوانین بنانے میں ناکام ہو گئے تو خدشات ہوں گے کہ وہ چین کیخلاف جوابی جناتی ٹیکنالوجی (giant technology)  تشکیل دیں گے جو صاف ظاہر ہے کہ عالمی موسمیاتی جنگوں پر منتج ہو سکتی ہے۔ جہاں تک بات رہی چین کے ٹریکریکارڈ کی تو باور رہے کہ عالمی فورمز پر اس کا کردار منصفانہ و مددگارانہ اور سہولتکارانہ نہیں رہا۔ بلکہ دنیا کی نظر میں اس کا کردار پہلےسے ہی مشکوک رہا ہے۔ دنیا کو محفوظ بنائے رکھنے کے لیے تمام عالمی سمجھوتوں کو چین پس پشت ڈالتا رہا ہے۔ انسانی حقوق اورمزہبی و سیاسی آزادی تو اس کے اپنے باشندوں کو آج بھی حاصل نہیں۔ عالمی معاملات میں چین کے کردار کو واضح کرنے کےلیے یہاں کچھ مثالیں ضروری ہیں۔

برما میں مسلم کش فسادات پر کسی بھی عالمی اقدامات کو یو این میں ویٹو کرنے کے چینی عزائم سے برماوی حکومت کو بے انتہا شہہملی اور مسلمانوں پر اس کے بے پناہ مظالم کا سلسلہ پوری شدت کے ساتھ جاری رہا تھا۔ ایسے ہی شمالی کوریا کو ایٹمی و میزائلٹیکنالوجی کی منتقلی سے عالمی برادری کے ساتھ اس کے خطرناک ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور امن کے لیے سمجھوتوں پر انتہائی کاریضرب پڑی۔ حقیقتاً دو نمبری اور دھوکہ دہی اگر چین کی سرکاری پالیسی نہ ہوتی تو ممکن ہی نہ ہوتا کہ مشرف دور میں اسلام آباد کیسیکیورٹی کے لیے سرکاری طور پر منگوائے گئے جیمرز و اسکینرز بکواس نکلتے اور نہ ہی پی پی دور میں منگوائے گئے ریلوے انجن ناکارہملتے۔ علاوہ ازیں امریکہ اور یورپ کو ایکسپورٹ کئے گئے ناقص baby milk سے کئی بچے مر گئے تو تجزیہ کرنے پر معلوم ہوا کہ دودھکو گاڑھا کرنے کیلئے اس میں میلامائن جیسے پلاسٹک کے برتنوں والے راء میٹیریل کی ملاوٹ کی گئی تھی۔ چین جیسے بے حد کنٹرولڈملک میں ایساخاموش سرکاری رضامندی” (silent consent) کے بغیر قطعاً ممکن نہیں جبکہ چین کی جھوٹ و فریب پر مبنی اور سچ وحق مخفی رکھنے کی ریاستی حکمت عملی کی ایک واضح مثال کرونا ایپڈیمک کی حالیہ پراسرار ہینڈلنگ بھی ہے۔

گلوبل دنیا میں بیماریوں کو اچانک پھیلنے سے روکنے کے لیے کچھ عالمی پروٹوکولز ہیں، جن کی رو سے ممالک اپنے ہاں پھوٹنے والی کسیبھی نئی بیماری سے دنیا کو ٹھیک ٹھیک آگاہ کرنے کے پابند ہیں۔ کرونا کے معاملے میں جان بوجھ کر چین نے دنیا کو اندھیرے میںرکھا۔ دنیا کو وائرس کی نوعیت، مرض کی شدت اور اموات کے قابل اعتماد اعداد و شمار نہیں بتائے گئے جس وجہ سے یہ موذیایپڈیمک پھیل کر پینڈیمک کی صورت اختیار کرتی ہوئی یورپ و امریکہ میں ناقابل کنٹرول ہو گئی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ سمیت کئیممالک اس سے ناراض ہیں بلکہ اس کے خلاف ہرجانے کے دعوے اور نقصانات کے تخمینوں پر مبنی بل تیار کئے بیٹھے ہیں۔ جاپانسمیت کچھ ممالک احتجاجاً اپنی انڈسٹری اور ہیوی پلانٹ بھی چین سے نکال رہے ہیں۔

چین جو کسی کا سگا نہیں، کسی ہمسائے کا اپنا نہیں، نہ ان کا خدا، نہ ان کا کوئی مزہب، نہ مزہبی برداشت، نہ کوئی اخلاقیات اور نہ ہیان کا کوئی ضمیر ہے۔ ہٹلر کے بعد اگر کسی ملک نے اقلیتوں کو ہولوکاسٹ جیسے عقوبت خانوں  (concentration camps) میں قید کررکھا ہے تو وہ چین ہے جس نے اوغیور مسلمانوں کو تاریخی استبداد کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ کیمپوں میں انہیں زبردستی شعائر اسلام سےدور کر کے کفر و الحاد اختیار کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ سالہاسال لگ جاتے ہیں مگر مطلوبہ نتائج برآمد ہونے تک افراد غائب رہتےہیں، عزیزوں کو ان کے کیمپ کی اور پیاروں کی خیر و عافیت کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔

چین کثیر ہمسائے رکھنے والا ایک بڑا ملک ہے مگر ہر ہمسائے سے اس کا پنگا بھی بڑا ہے۔ بھارت، کوریا، ہانگ کانگ، تائیوان،انڈونیشیا، ملائشیا اور جاپان سمیت بیشمار ہمسایوں سے اس کے دیرینہ تَلخ معاندانہ تعلقات ہیں۔ روس جیسے نظریاتی گُرو اور قبلہ و کعبہکی پیٹھ میں چُھرا گھونپنے سے بھی باز نہیں آیا تھا۔ تبت ہڑپ کرنے کے بعد جب ٦٢ میں اس نے بھارت پر زور دار حملہ کیا توپاکستان کے آہنی صدر نے فوری طور پر ٦٣ میں چین کی شرائط پر اس سے مفاہمت کر لی تھی۔ صاف ظاہر ہے، دیگر ہمسایوں کےپاس ایوب جیسا بہادر اور مطلق العنان حکمران نہیں تھا، اور یوں وہچین کی مرضی کی دوستیسے محروم ہی رہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

چین کے کردار بارے معروضات کے بعد یہ بھی یاد رہے کہ اقوام کے درمیان دوستی و دشمنی ان کے دیرپا مفادات کے تابع ہوتیہے۔ کل امریکہ اور سعودیہ ہمارے دوست تھے تو آج دوستی کے رشتوں میں ہم سے روس اور ایران جُڑ رہے ہیں۔ اگر نہروسیاسی و علاقائی بصیرت سے کام لیتا، چین کیخلاف پاکستان کا دوستی کے لیے بڑھا ہاتھ اور ایوب کی دو بار دوستانہ پیشکش جھٹک نہدیتا تو آج پاک بھارت دوستی کا بندھن مضبوط ہوتا۔ دوسری طرف ایک دور وہ بھی تھا جب پورا ایشیاء ہندی چینی بھائی بھائیکے نعرے سے گونجتا تھا۔ کون جانے مستقبل میں پاک و ہند کی قیادتیں بالغ النظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مفاہمانہ اقداماتکریں۔ لہذا موسموں کی صورت میں قدرتی خزانوں کی چابی ہمیں کسی کے سپرد نہیں کرنی چاہئیے۔ چاہے آج اس سے ہماری دوستی،سمندروں سے جتنی بھی گہری ہو، ہمالیہ سے جس قدر بھی بلند ہو اور شھد سے جتنی بھی بڑھ کر میٹھی ہو۔ اس دوستی کا مستقبلبالکل ایسے ہی نامعلوم ہے جیسے آج سے کچھ سال قبل سعودیہ سے ہمارے تاریخ کے سرد تر و پست ترین موجودہ تعلقات کا گمانکرنا بھی ناممکن تھا۔ اس سب کے پیچھے میکانکی قوت دراصل ہمارے اور ان کے اپنے اپنے بدلتے مفادات ہیں۔ انٹرنیشنل ریلیشنزپر گہری نظر سے معلوم ہوتا ہے کہ عالمی برادری میں رشتے مستقل کبھی نہیں ہوتے۔ عملی سفارتکار کیلئے کامیاب اور عملی نکتہ نظرصرف یہی ہے کہ ہمارے لئے صرف ہمارے ہی مفادات مقدم ہونے چاہئیں۔ جبری موسمی تبدیلیوں کے تناظر میں عالمی قوانین کابغور جائزہ لے کر ہمیں اپنے دیرپا مفادات کا بخوبی تعین کرنا چاہئے ورنہ ہمیشہ کی طرح گزرے سانپ کی لکیر پیٹتے رہ جائیں گے۔

Facebook Comments