شٹ اپ پرائم منسٹر: انعام رانا

ہزارہ کمیونٹی ایک لمبے عرصے سے جبر کا شکار ہے۔ اسکی وجوہات انکی مسلکی شناخت ہے یا نسلی، بلوچ علہدگی پسند ہیں یا تکفیری، بھارت ہے یا اسرائیل، ہماری اپنی ایجنسیاں کیا کردار ادا کر رہی ہیں اور انکے پسندیدہ گروپس کیا؟ یہ سب سوالات اس دقیق مطالعہ میں سامنے آتے ہیں جو بلوچستان ایشو پہ کیا جائے۔ مگر اس وقت بات کسی دقیق مطالعہ یا مباحثے کی نہیں ہے۔

اس وقت ایک حقیقت منہ کھولے سامنے کھڑی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اک بار پھر ہزارہ مارے گئے، اک بار پھر دفنانے کو مرد کم پڑ گئے اور اک بار پھر ہزارہ کمیونٹی اپنے پیاروں کی لاشیں سامنے رکھے سخت سردی میں باہر بیٹھی ہے۔ اک مطالبہ ہے جس نے پوری قوم کے سامنے اک سوال رکھ دیا ہے، سوال کہ “ریاست مدینہ” کا حکمران کیسا ہو۔ وہ کافر جیسنڈا آرڈن جیسا ہو جو بن بلائے لواحقین کو گلے سے لگا کر پرسہ دے، یا پھر ایک ایسا شخص جو انا کے گھوڑے پر سوار ہو جائے۔

وزیراعظم کہتے ہیں کہ میتیں دفنانے تک وہ نہیں جائیں گے اور لواحقین سے “بلیک میل” نہیں ہوں گے۔ وہ شاید بھول گئے کہ میتیں مدعی ہوتی ہیں بلیک میلر نہیں۔ تحریک انصاف سے وابستہ کچھ دوست ابھی بھی وزیراعظم کی غیر انسانی بے حسی کی توجیہہ کی کوشش کر رہے ہیں۔ جی ہاں یہ سچ ہے کہ ہزارہ پہلے بھی مارے گئے اور بڑے لوگوں کے جانے کے باوجود مارے جاتے رہے۔ بالکل انکے قاتلوں کو پکڑنا بہت اہم ہے۔ مگر ایک ریاست کے سربراہ کا موقع پہ جا کر مظلوموں کو امید دلانا سمبالک ہوتا ہے اور کئی بار سمبالک کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔

کچھ دوستو کو اعتراض ہے کہ ہزارہ نے کئی سیاسی مطالبات رکھے ہیں۔ مطالبات ہمیشہ “میکسیملائزیشن” کے اصول پہ کئیے جاتے ہیں۔ وزیراعظم اگر فقط جا کر حوصلہ دیتے، کچھ لاکھ غریب مزدوروں کے گھر والوں کو فورا ادا کرواتے اور باقی مطالبات پہ نوے دن میں مکمل غور کے بعد فیصلے کا یقین دلا دیتے تو شاید یہ مسلئہ کھڑا ہی نا ہوتا۔ کچھ دوست سمجھتے ہیں کہ یہ روایت ڈالنا غلط ہو گا کہ کہیں بھی کچھ لوگ مر جائیں تو وزیراعظم کو بلایا جائے۔ عرض ہے کہ یہ “کہیں بھی” اور “کچھ لوگ” کا مسلئہ نہیں ہے۔ ایک کمیونٹی مسلسل بلوچستان جیسے حساس علاقے میں فوج اور ایجنسیز کی موجودگی کے باوجود مسلسل نشانہ بن رہی ہے، یہ عام حالات ہیں ہی نہیں کہ کہیں اور سے مثال پیش کی جا سکے۔ ریاست کی مسلسل ناکامی کا بوجھ اسکے چیف ایگزیکٹو کو ہی اٹھانا ہوتا ہے اور ریاست و وزیراعظم ناکام رہے۔

پاکستان قوم نے ہمیشہ بہادر لیڈر پسند کئیے ہیں۔ وہ جناح ہوں، ذوالفقار و بے نظیر بھٹو یا بگٹی؛ پاکستانی قوم بہادروں کو پسند کرتی ہے۔ جو توہم پرست میت پہ جانے سے گھبرا جائے، جیسا کہ افواہیں بیان کرتی ہیں کہ یہاں “روحونیت” کا بھی عمل دخل ہے اور اقتدار کا خوف بھی، تو ایسے بزدل کو پاک پتن مزار پہ چلہ کاٹنا چاہیے ہماری رہبری نہیں کرنی چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

وزیراعظم جاتے یا نا جاتے، ایک مسلئہ جو مسلئہ بنتا ہی نا، ایک مسلئہ جو مقامی و نسلی تھی، وزیراعظم کے روئیے نے اسکو قومی اور مسلکی مسلئہ بنا ڈالا ہے۔ افسوس کہ احساس زیاں تک نہیں ہے اور نا مسلئہ کی حساسیت کا احساس۔ اس پہ مستزاد ایسے بیانات کھو جلے پہ نمک ڈالنے کے مترادف ہیں، کاش کوئی وزیراعظم سے کہے، شٹ اپ مسٹر پرائم منسٹر

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply