کل بروز ہفتہ جنوری مئی کو انجمن اتحاد ہزارہ والے شام کو ‘ہزارہ کلچر ڈے’ منارہے ہیں اور اس ضمن میں ہم اور ہماری تنظیم شہری حقوق محاذ بھی وہاں مدعو تھے اور ہم کو اپنے ہزارہ وال بھائیوں کی اس خوشی کی ثقافتی تقریب میں شرکت کے ذریعے اردو وال طبقے کی جانب سے یکجہتی کا اظہار کرنا تھا اور یوں سندھ میں بسنے والی سبھی ثقافتوں کے لیےمحبت اور بھائی چارے کا پیغام دینا تھا ۔۔۔ لیکن جب کوئٹہ میں 11 بے گناہ شیعہ کانکنوں کا بہیمانہ قتل ہوا اور انکی میتیں سڑک پہ رکھ کے دھرنا دیا گیا اور اس احتجاج کا دائرہ ملک کے کئی علاقوں تک پھیل گیا تو ہم نے انجمن اتحاد ہزارہ کے کرتا دھرتاؤں سے یہ گزارش کی کہ وہ سوگ کی اس صورتحال میں اپنے اس پُرمسرت و رنگا رنگ کلچر ڈے کو چند روز کے لیے ملتوی کردیں، تو انہوں نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا اور پھر اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ انکی اس بے حسی پہ ہم انکی اس تقریب میں اپنی اور اپنی تنظیم شہری حقوق محاذ کی شرکت سے قطعی انکار کردیں جو ہم نے کردیا ہے ۔
اس معاملے میں زیادہ اہم اور بتانے لائق بات یہ ہے کہ ہزارہ کلچر ڈے کی اس تقریب کے مہمان خصوصی سندھ کے وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ ہیں کہ جن کی جماعت پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کل کوئٹہ پہنچ کرمرکزی احتجاجی دھرنے کے کیمپ میں حاضری دی ہے اور مقتولین کے سوگوار اہلخانہ و اعزہ و اقرباء و غمزدہ افراد سے ملاقات کی ہے اور انکے دکھ کو اپنا دکھ قرار دیا ہے ،تو یہاں میرا اس جماعت سے یہ گستاخانہ سوال ہے کہ کوئی بتائے کہ آخر یہ کیسا عجب دکھ ہے کہ جو مرکزی قیادت کو تودرجہ اؤل پہ بتایا جارہا ہے لیکن جس کا اثر صوبائی قیادت کے دلوں پہ مطلق نہیں ہوا ہے ۔۔ بدقسمتی سے یہی معاملہ مسلم لیگ نون کے چند مقامی و غیر مقامی رہنماء بھی اس ہزارہ کلچر ڈے کی رنگینیوں میں شریک ہورہے ہیں جبکہ انکی نائب صدر محترمہ مریم صفدر نے بھی کوئٹہ کے احتجاجی کیمپ کا دورہ کیا تھا اور وزیراعظم عمران خان کے وہاں نہ پہنچنے پہ انہیں خوب خوب لتاڑا تھا اور انہیں بے حسی و بزدلی کے طعنے بھی دیئے تھے۔

لیکن اس انسانی المیے کے حوالے سے ہم اور ہماری تنظیم اپنی انسان دوست سوچ پہ مستقیم ہیں اور کسی بھی کنفیوژن یا بے حسی کا ہرگز ہرگز شکار نہیں اور اسی لیے ان سیاسی گرو گھنٹالوں سے برملا شکوہ کناں ہیں کہ آخر یہ کیسی سیاست ہے کہ اسکا کوئٹہ والا چہرہ کوئی اور روپ لیے ہوتا ہے اور کراچی میں اسکے تیور مختلف بلکہ بالکل جداگانہ ہوتے ہیں ۔۔۔ کاش کوئی ان سیاسی مجاورں کو بتائے کہ ایک دکھ اور سکھ کا مشترک طرز احساس ہی تو مختلف النوع ثقافتوں اور قبیلوں کو ایک قوم بناتا ہے وگرنہ تو انکی حیثیت ایسے گروہوں سے زیادہ کچھ بھی نہیں کہ جن کے لیئے دوسرے افراد کا وجود محض اپنی اغراض پوری کرنے کے لیے ہے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں