ترکی کی عدالت نے اپنے ایک فیصلے میں یونیورسٹی کی طالبات پر دورانِ تعلیم سکارف پہننے پر پابندی لگا دی ہے۔
عدالت کے ترجمان نے اخباری نمائندوں کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ سکوک،کالج اور یونیورسٹی میں طالبات میں مذہبی علامت کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی،جن میں مسلم طالبات بھی شامل ہیں،جو سکارف نہیں پہن سکیں گی،ترجمان کے خیال میں اس سے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا۔
حجاب یا سکارف ایسا سماجی اور مذہبی مسئلہ ہے جو ایک “ڈائلما”کی شکل اختیار کرگیا ہے۔اور یہ المیہ حل نہیں ہوتا۔اس کے ساتھ جینا پڑتا ہے۔جب قرآن میں بالوں اور چہرے کو اتنی سختی سے ڈھانپنے کا حکم دیا گیا ہوتو ظاہر ہے انتہا پسندوں کی طرف سے گولی ماردینے کو کون بُرا سمجھے گا؟
میرے خیال سے مسلمان دین اور دنیا کی آویزش کا کوئی اطمینان بخش اور معقول حل تلاش نہیں کرسکے اور آئیندہ اس کی امید ہے کہ شاید اسی المیے میں جینا ہی اسلام کے پیروکاروں کا مقدر رہے۔
سات کروڑ سے زائد آبادی والے ملک ترکی میں دین اور دنیا یا دین اور سیاست کے درمیان تصادم کا آغاز ہوچکا ہے۔
گزشتہ سال ترکی میں سیکولر نطام کے حامیوں کے خلاف ودسرا بڑا اجتماع اور مظاہرہ تھا،جس کی تعداد بھی لاھوں میں تھی۔ترکی میں سیکولر آبادی کی واضح اکثریت ہے،مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے سیکولر راہنماؤں نے یہ بات ایک سے زیادہ مرتبہ کہی ہے۔کہ”تری ایک سیکولر ملک ہے،اور سیکولر ہی رہے گا۔موجودہ حکومت جدید ترکی کے بانی اتاترک اور اس کے نظریات کی دشمن ہے،اور یہ ترکی کو ایامِ جہالت میں واپس لے جانا چاہتی ہے،جو ترک عوام کبھی نہیں ہونے دیں گے”۔
ترکی کا لفظ لاطینی زبان سے نکلا ہے،جسے”ترشیا”کہا جاتا ہے،اور اس لفظ کے معنی “مضبوطی”کے ہیں۔
کہا ،جاپان تو ہوگا۔۔ڈاکٹر اظہر وحید
مصطفیٰ اتاترک موجودہ ترکی کا پہلا حکمران تھا، جس نے 625سالہ خلافت اسلامیہ کے فرسودہ نظام کو ختم کرتے ہوئے جدید ترکی کی بنیاد رکھی اور ملک کو سیکولر ازم کی راہ پر گامزن کیا۔
چھ صدیوں سے زیادہ ترکی نیلافت عثمانیہ یا اسلامیہ کی قیادت کی۔
جنگِ عظیم اوّل کے بعد عثمانی دور کا زوال ہوا،اور بیسویں صدی کے آغاز میں بلآخر خلافتِ عثمانیہ کو ختم کردیا گیا۔
خلافت کو مسلمانوں نے مغل حکومت کے زوال کے بعد عثمانی خلیفہ استنبول کا نام اپنے خطبوں میں لینا شروع کردیا تھا۔
ہندوستانی مسلمانوں کی ترکی سے خاص محبت اور تعلق ہی کی وجہ سے ہندوستانی مسلمانوں نے انگریزکے خلاف جنگ سے آزادی سے ہاتھ کھینچ لیا۔
انیسویں صدی کے آخر تک برطانیہ بھی ترکی کی حمایت کرتا رہا،کیونکہ روس ترکی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہا تھا۔اور برطانیہ کو خطرہ تھا کہ اس سے ہندوستان میں اس کی حکمرانی قطر میں پڑ جائے گی،
جنگ عظیم اوّل میں ترکی نے جرمنی کی حمایت کی اور جرمنی کی حمایت میں اعلان جنگ کردیا۔
ہندوستان کے مسلمانوں کے جذبات برطانیہ کے خلاف بھڑک اُٹھے۔
اس جنگ میں جرمنی کو شکست ہوئی اور اس کا سارا نقصان ترکی کو بردشت کرنا پڑا۔
10اگست 1920کو جنگ عظیم اوّل کے فاتحین نے ترکی کے ساتھ اپنی مرضی کے صلح نامے پر دستخط کیے،جس کی شرائط انتہائی ہتک آمیز تھیں،اس صلح نامے یا معاہدے کے خلاف دنیا بھر کے مسلمانوں میں بے چینی پیدا ہوئی،ہندوستان کے مسلمانوں نے بھی تحریک خلافت شروع کی،جس کے اثرات آج تک ہنوستانی مسلمانوں پر دیکھے جاسکتے ہیں۔
ترکی کی سرحدیں آٹھ ملکوں سے ملتی ہیں،جن میں بلغاریہ،جارجیا،ایران،یونان،آرمینیا،آذربائیجان،عراق،شام شامل ہیں۔
اگر امریکہ کو بھی شامل کرلیا جائے،جو کہ سب ملکوں کا ہمسایہ ہونے کا دعویدار ہے تو پھر نو ممالک ایسے ہیں جن کی سرحدیں ترکی سے ملتی ہیں۔
یورپی ملکوں میں گھرا ہوا آج کا ترکی جہاں کی موجودہ حکمران جماعت “اے کے پارٹی”سیاسی اسلام کی بیک گراؤنڈ کے کہنے کے باوجود اپنے آپ کو لبرل جماعت ثابت کرنے پر تُلی ہوئی ہے،لیکن سیکولر اسٹبلشمنٹ کے شدید ردِ عمل کی وجہ سے اس کے بیشتر لبرل کارنامے خرطے میں پڑے ہوئے ہیں۔
حال ہی میں ہالینڈ کے روزنامہ کے صحافی نے ترکی کے صدر طیب اردگان سے انٹر ویو کیا،جس کی تفصیلات اس نے اپنے اخبار میں شائع کیں۔
نامہ نگار نے طیب اردگان سے سوال کیا کہ،
کیا اے کے پارٹی کا کوئی خفیہ اسلامی ایجنڈا ہے؟،جسے وہ آہستہ آہستہ نافذ کرنا چاہتی ہے؟
اہلِ مغرب کے لیے جوتعمیر ہے،ہمارے لیے تخریب ہے۔۔اسد مفتی
اس کے جواب میں صدر طیب اردگان نے کہا۔۔نہیں!آپ خود دیکھیے کہ گزشتہ چار پانچ سال میں ہماری حکومت نے کیا کیا کارنامے سرانجام دیے،ہم نے ترکی کو یورپی یونین کاممبر بنانے کے لیے ترکی کی تاریخ میں کسی بھی سیاسی جماعت کے مقابلے میں زیادہ تگ و دو کی ہے۔
طیب اردگان نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہاکہ “ہم نے سینکڑوں ایسے قوانین بنائے ہیں،جنہوں نے معیشت کو آزاد کیا،اور انسانی حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے انہیں مضبوط کیا،اگر ہم ترکی کو اسلامی ملک بنانے کی کوشش کررہے ہوتے تو ہم یہ سب کیوں کرتے؟”
نامہ نگار نے دوسرا سوال کیا۔۔۔
جس طرح دنیا بھر کی اسلامی جماعتوں کا طریقہ کار اور ہدف ہوتا ہے،کیا آپ بھی ایسا سوچتے ہیں،کہ حکومت کی مضبوطی کے بعد آپ ترکی میں شریعت اوراسلامی قوانین نافذ کردیں گے؟
تو انہوں نے جواب دیا،نہیں!ترکی میں شریعت کے نفاذ کا کوئی امکان نہیں،ہم تو ترکی کے قوانین کی شعبہ زندگی میں یورپی یونین کے قوانین کیساتھ ہم آہنگی پیدا کررہے ہیں،کیا شریعت ایسی ہوتی ہے۔”
طیب اردگان کاموقف صحیح ہے یا وہ مصلحت سے کام لے رہے ہیں،اس کا فیصلہ وقت کرے گا،البتہ چلتے چلتے یہ بات بتاتو چلوں کہ طیب اردگان کی بیوی سر پر سکارف اوڑھتی ہے،اور سیکولر ترک عوام کی پریشانی یہ ہے کہ جو تحقیق کمال اتاترک کے منصب پر فائز ہو اور اس ی بیوی سر پر سکارف اوڑھتی ہو،بات کچھ بنتی نہیں!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں