وزیراعظم صاحب کافروں سے ہی کچھ سیکھ لیں۔۔عبدالستار

گزشتہ سال نیوزی لینڈ میں ایک المناک حادثہ پیش آیا تھا جس میں ایک مسجد پر حملہ کی صورت میں  51 مسلمان بھائی مارے گئے تھے ۔اس حادثے کے فوری بعد نیوزی لینڈ کی پرائم منسٹر جائے حادثہ پر خود پہنچی اور لواحقین کو گلے لگا کر ان کو حوصلہ دینے کے ساتھ ساتھ وہ اس عزم کااظہار کر رہی تھیں کہ “we are united” میں دکھ کی گھڑی میں آپ کے ساتھ ہوں اور جو ہمیں تقسیم کرنا چاہتے ہیں ہم ان کو ان کے ارادوں میں کبھی کامیاب ہونے کی اجازت نہیں دیں گے ۔مسلمانوں کی حمایت میں اور ان کے دکھ درد میں شریک ہونے کے لیے نیوزی لینڈ کی عوام ذات پات،مذہب اور رنگ نسل کے تمام فرق کو مٹا کر سڑکوں پر شانہ بشانہ کھڑی ہوگئی تھی اور بہت سے لوگوں نے تو جائے حادثہ پر گلدستوں کا ڈھیر لگا دیا تھا ۔مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے مائیک پر اذان دینے کی بھی اجازت دی گئی تھی۔جسنڈا آرڈن نے عوام پر ثابت کردیا کہ وہ کسی خاص طبقہ کی وزیراعظم نہیں ہے بلکہ پورے ملک کی وزیراعظم ہیں ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ آداب انسانیت کافروں نے کہاں سے سیکھےہیں ؟چونکہ بطور مسلمان ہمیں اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہے اورہم اپنے علاوہ سب کو کافر سمجھتے ہیں اور اسی خبط میں مبتلا ایک نوجوان، جسنڈا کو مسلمان کرنے بھی پہنچ گیا تھا یعنی اخلاقیات کا مظاہرہ صرف مسلمان کر سکتے ہیں، کافروں کو اس کا کوئی حق نہیں ۔مسالک کی تقسیم پر نظر ڈالیں تو آپ کو مختلف ناموں سے سینکڑوں فرقے ملیں گے اور سب فرقے ایک دوسرے کو تسلیم نہیں کرتے حتٰی کہ مساجد بھی ان فرقوں کے نام پر تقسیم نظر آتیں ہیں ۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ تقسیم اب بہت سی قیمتی جانوں کا نذرانہ لے رہی ہے۔اس المناک صورتحال کے تناظر میں گزشتہ دنوں ہزارہ کمیونٹی کے تقریباً 11 افراد کو بڑی بے رحمی کے ساتھ قتل کر دیا گیا اور لواحقین اپنے پیاروں کی میتوں کے ہمراہ گزشتہ 5دنوں سے سراپا احتجاج ہیں مگر ریاست کے کان پر جُوں تک نہیں رینگی الٹا ریاست مدینہ کے دعویدار وزیراعظم نے ٹویٹ کر ڈالی کہ میں آپ سے ضرور ملوں گا ،پہلے آپ اپنے پیاروں کو دفن کر دیں ۔سفاکی اور بے رحمی کا اس سے بڑا مظاہرہ کیا ہوسکتا ہے؟

دکھ  کی اس گھڑی میں پرائم منسٹر کو ان کے شانہ بشانہ ہونا چاہیے تھا اورانہیں گلے لگا کر دلاسہ دینا چاہیے تھامگر وزیراعظم صاحب نے اس المناک حادثے کو محض ایک ٹویٹ کی نذر کردیا ۔

وزیراعظم صاحب آپ پوری قوم کے نمائندہ ہیں اور آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ یہ ظلم تقریباً 22سال سے مسلسل ہزارہ کمیونٹی کے ساتھ ہورہا ہے اور وہ جنازے اٹھا اٹھا کر تنگ آگئے ہیں اور ہر المناک واقعہ کے بعد ان سے یہی کہا جاتا ہے کہ “ہم قاتلوں کو عبرت کا نشان بنائیں گے “مگر پھر کچھ عرصہ کے بعد ان کے نوجوانوں کو مار دیا جاتا ہے ۔2013 ء میں جب ہزارہ کمیونٹی کے لوگ مارے گئے تھے تو آپ خود ان کے دھرنے  میں تشریف لے گئے تھے اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے آپ نے اس وقت کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو مستعفی  ہوجانے کے لیے کہا تھا اور کہا تھا کہ اس شرمناک اور المناک واقعہ پر وزیراعظم اپنے عہدے پر رہنے کا اخلاقی جواز کھو چکے ہیں ۔

جناب اب 2021ء میں بطور وزیراعظم ہزارہ کمیونٹی کی 11 لاشوں پر آپ کا کیا موقف ہے ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

بطور وزیراعظم اخلاقی جواز تو آپ بھی کھو چکے ہیں۔خدا را ہزارہ کے مظلوم لوگوں پر رحم کھائیے ،وہ 11لاشوں کے ساتھ سخت سردی میں سڑکوں پر ہیں ان کے دکھوں کا مداوا کیجیے اور جناب وزیراعظم ان کی بات مان کر کم از کم خود جنازے میں شریک ہوکر ان کی تدفین کروادیجیے ،کیونکہ وہ بھی ہمارے ملک کے شہری ہیں ۔ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے اور ماں اپنے سب بچوں سے برابر پیار کرتی ہے۔وزیراعظم صاحب ہزارہ کمیونٹی کے پاکستانی شہریوں کے اور انسانیت کے قاتلوں کو عبرت کا نشان بنا ڈالیے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply