بادشاہ کو اونچا سنائی دیتا ہے۔۔محمد فیصل

بلوچستان کے علاقے مچھ میں جو کچھ ہوا ہے وہ ہمارے لیے نیا نہیں ہے لیکن اس کے بعد جو کچھ ہورہا ہے وہ ہماری اجتماعی بے حسی کو عیاں کررہا ہے۔ یخ بستہ سردی میں اپنے پیاروں کے تابوت کے ساتھ موجود اس خاتون کے درد کا مداوا کون کرسکتا ہے جو کہہ رہی ہے کہ گھر میں اس کے پیارے کے جنازے کو کاندھا دینے والا کوئی مرد نہیں بچا ہے۔شہر ِ علم کے دروازے حضرت سیدنا علی کا قول ہے کہ کفر کا نظام چل سکتا ہے لیکن ظلم کا نظام نہیں چل سکتا۔ کہنے کو ہم اسلامی بھی ہیں، جمہوری بھی ہیں اور سرزمین بھی ہماری پاک ہے ،لیکن ہمارے چاروں طرف ظلم کے گہرے سائے ہیں۔کیا عجب ہے کہ آپ کے گلے آپ کے عقائد کی وجہ سے کاٹ دیئے جائیں۔سنا ہے کہ مچھ کے  ان کان کنوں کو ایسی چھریوں سےذبح کیا گیا ہے جن سے آلو پیاز بھی مشکل سے کٹ سکیں۔موت کتنی اذیت ناک ہوسکتی ہے، یہ جاننے کے لیے آپ کو ان گیارہ تابوتوں کو کھولنا ہوگا ،اور پھر احساس سے عاری ہو کر ان چہروں کی جانب دیکھنا ہوگا، جو جرم بے گناہی میں مارے گئے ہیں۔

ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی خیبر پختونخوا کے ایک مدرسے میں معصوم طلبا دہشت گردی کا نشانہ بنے تھے اور اب یہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے مزدور بھی اس ہی دہشت گردی کے بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ہم وہ قوم ہیں جو آرمی پبلک  سکول میں اپنے بچے کٹواکر بھی کوئی سبق حاصل نہیں کرسکے ہیں۔ ہم ہر واقعہ کو سیاست کی نذر کردیتے ہیں۔مچھ میں ہونے والی دہشت گردی کوئی سانحہ نہیں ہے بلکہ ہمارے معاشرے کا اجتماعی جنازہ ہے۔ ہمارے حکمران دعویدار ریاست مدینہ کے ہیں اور ان کے کردار فرعونیت کے عکاس ہیں۔ کسی مہذب معاشرے میں اس طرح کا کوئی ایک واقعہ بھی پیش آجاتا ہے تو اس کی بنیادیں ہل جاتی ہیں۔ 9/11 کے بعد امریکہ  نے ایک ایسا سسٹم بنایا کہ اس کے بعد آج تک وہاں دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوسکا ہے اور وجہ صرف اتنی ہے کہ وہ ایک قوم ہیں اور ہم ایک ایسا ریوڑ کہ جس کو ہانکنے والے بھی نہیں جانتے کہ ان کو لے کر کہاں جانا ہے۔

کہتے ہیں کہ ملک میں انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ دہشت گردی جنرل ضیاء الحق کے تحفے ہیں۔چلیں وہ تو ایک آمر تھا اس نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے ایسی قوتوں کو مضبوط کیا لیکن سوال یہ ہے کہ ان کے بعدآنے والے روشن خیال اور لبرل حکمرانوں نے اس کے تدارک کے لیے کیا اقدامات کیے ؟کیا ہم دہشت گردی کے ہر واقعہ کا ذمہ دار بھارت کو قرار دے کر اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہوسکتے ہیں؟ اگر یہ بیرونی سازش ہے تو کئی دہائیاں گزرجانے کے باوجود ہم ان سازشوں کو ناکام بنانے میں کیوں ناکام ہیں ؟ہم اپنے ہزاروں سکیورٹی اہلکاروں،بچوں،بزرگوں،جوانوں اور خواتین کے جنازے اٹھا چکے ہیں لیکن ہماری عقلوں پر اب بھی پردے پڑے ہوئے ہیں۔ہم بحیثیت قوم فیصلہ ہی نہیں کرپارہے ہیں کہ ہماری منزل کیا ہے اور ہمارا ایک قومی بیانیہ کیا ہوگا۔سانحہ اے پی ایس کے بعد بنایا جانے والا نیشنل ایکشن پلان کہاں ہے ؟کیا ہماری سیاسی قوتیں اس بات کا اعتراف کریں گی کہ اقتدار کی کشمکش انہیں عوام کی جان و مال کا  تحفظ زیادہ عزیز ہے۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ ضیا الحق ہو یا عمران خان ہمارے تمام حکمرانوں کی سوچ ایک سی ہے۔

کوئٹہ کے مغربی بائی پاس پر مچھ میں ذبح ہونے والے بے گناہوں کے تابوتوں کے ساتھ موجود ان کے اہل خانہ کی اذیت کا کوئی شمار ہو ہی نہیں سکتا ہے۔وہ دکھ کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ ان کے آنسو خشک ہوگئے ہیں۔ بلاول ،مریم ،شیخ رشید اور نجانے کتنے سیاست دان لاشوں کے ساتھ موجود ان زندہ لاشوں کے پاس پہنچ کر دلاسے تودے رہے ہیں لیکن کوئی یہ یقین نہیں دلا رہا کہ اب دوبارہ ایسا نہیں ہوگا۔ الفاظ تو کچھ سخت ہیں، لیکن لگتا یوں ہے کہ مچھ کے شہیدوں کی لاشوں پر سیاست کی جارہی ہے۔ وفاقی حکومت کے ایک معاون خصوصی نے تو ان غمزدہ لوگوں سے پوچھ بھی لیا ہے کہ اگر وزیر اعظم یہاں آجائیں گے تو انہیں کیا فائدہ ہوگا ؟

Advertisements
julia rana solicitors

میں نہ کوئی وزیر ہوں اور نہ ہی کوئی مشیر، میں نہ کوئی سیاسی مداری ہوں اور نہ ہی سفارتکاری کا کوئی شاہسوار۔میں ایک کھلاڑی کی نام نہاد ریاست مدینہ کا ایک شہری ہوں جہاں میتوں کو کاندھا دینے کے لیے مظلوموں کے گھر میں کوئی مرد باقی نہیں بچتا ہے۔ میں ظلم جنتے اسی معاشرے کا حصہ ہوں جہاں ایک کافر وزیر اعظم کو مسجد میں شہید ہونے والوں کے ورثاء کے گلے لگ کر روتا ہوا سوچتا ہوں کہ کاش میں بھی اس کافر وزیر اعظم کی رعایا ہوتا۔۔میرے بس میں ہوتا تو میں کوئٹہ بائی پاس پر موجود اس خاتون سے یہ ضرور کہتا کہ وزیر اعظم کا انتظار نہ کرو ،اور اپنی میتوں کو خدا کے حوالے کرو کیونکہ “بادشاہ” کو اونچا سنائی دیتا ہے لیکن رب سے یہ فریاد ضرور کرنا کہ ہمیں ظلم کا نہیں کفر کا نظام دیدے کہ جہاں ہمیں اپنے پیاروں کو کاندھا دینے کے لیے مرد مل جائیں۔۔۔

Facebook Comments