سیدکی۔۔عارف خٹک

چھوٹے سے قد کا وہ جوان جو ہر وقت سر پر قراقلی ٹوپی رکھے ایک دوست کی طرح میرے ساتھ گاوں کے کھیتوں اور پہاڑوں میں سارا دن گھومتا تھا۔ رشتے میں ہم دونوں سگے چچا بھتیجے تھے مگر ایک دوسرے کے بہترین دوست تھے۔ چچا سیداسلم خان میرے والد سے دو سال بڑے تھے۔ چچا کا نک نام “سیدکی” تھا۔

ہمارے پشتونوں میں اگر کوئی آپ سے ایک دن بھی بڑا ہو تو آپ احتراماً ان کا نام نہیں لے سکتے کجا یہاں میری دوستی کی انتہانے مجھے چچا بھتیجے کا رشتہ تک بھلا دیا تھا میں بھی اس کو نام سے بلاتا تھا۔ اماں ابا سے ہزاروں جوتے کھائے مگر میری نام لینے کی عادت نہیں بدلی۔ مجبورا ًًسبب نے سمجھوتہ کرلیا۔ چھریرا بدن، اور بلا کی پھرتی نے ان کو ہمیشہ جوان رکھے رکھا۔ مجھ سے عمر میں تیس سال بڑے تھے مگر سوچ اتنی جوان تھی کہ جب میں کالج سے چھٹیوں میں گاؤں آتا تھا تو ہم دونوں شکار پر ایک ساتھ جاتے تھے۔ میں ان کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھ کر “یار” کہہ کر بلاتا تھا۔ جب ابا کی کلاس کروانی ہوتی تو میں ان کو اپنی  سگریٹ کی ڈبیہ سے سیگریٹ نکال کر پیش کردیتا وہ ہونٹوں میں دبا کر میری ماچس جلانے کا انتظار کرتا۔ سیگریٹ جیسے ہی جلتی میں اپنے دل کے پھپھولے پھوڑنا شروع کردیتا کہ “تیرا بھائی بہت ظالم ہے کہ ان کو اپنی اولاد کی فکر ہی نہیں ہے۔ پچھلے ہفتے پانچ سو روپے دیئے تھے کہ مہینے کا خرچہ ہے۔ اپنے بھی یار دوست ہوتے ہیں کیا اب پانچ سو روپے میں ہاسٹل کے اخراجات پورے ہوسکتے ہیں؟”۔ وہ دھواں باہر پھینکتے ہوئے تاسف سے مجھے دیکھتے اور میری دلجوئی کرتے “یار ایک بات بولوں تیرا باپ انسان کا بچہ ہے ہی نہیں۔ تم فکر مت کرو آج اس کی ایسی بےعزتی کرونگا کہ پورا حجرہ دیکھے گا”۔
رات ابا شکایتی نظروں سے مجھے دیکھتے رہتے اور بے بسی سے اپنے ہونٹ کاٹتے رہ جاتے۔
سیدکی نے شادی لیٹ کی۔ ساری زندگی قطر بلدیہ میں محنت مزدوری کرتا تاکہ گاؤں میں بھائی سکھی رہے جب چالیس کے ہوئے تو اس امید پر ویزہ کینسل کرکے مستقل واپس  آگئے کہ اب آرام سے گاوں میں کوئی کاروبار کرکے بقیہ زندگی گزاریں گے مگر آکر معلوم ہوا کہ بھائی تو خوشحال ہوگئے ہیں مگر اس کے حصے میں صرف ایک بستر اور ایک صندوق رہ گیا ہے۔ ادھیڑ عمری میں شادی کی ،ان کا چھوٹا بیٹا میرے بڑے بیٹے کا ہم عمر ہے۔ جس عمر میں ہڈیوں کو آرام کی ضرورت ہوتی ہے انھوں نے مزدوریاں شروع کردیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سولہ سال کی عمر میں جب پہلا عشق ہوا تو سیدھا جاکر چچا جان کو بتایا “یار سیدکی فلاں کی بیٹی اپنا دل لیکر گئی ہے؟”۔ ہنستے ہوئے کہا “یار عارف ایک بات بتاؤں مت کر عشق یہ کفر ہے”۔ حیرت سے ان کا منہ دیکھا “کیوں؟”۔ ہنستے ہوئے کہنے لگا “لڑکی کی ماں تیرے ابا کی سابقہ محبوبہ ہے”۔ میں نے غصے سے زمین پر پاؤں دے مارا “ایک تو تیرے بھائی نے آج تک کسی سے آنکھ ملانے کے قابل چھوڑا ہے”۔ مجھے بے اختیار اپنے گلے لگاتے ہوئے دلاسہ دیا “دفع کر یار اس لڑکی کو نہ سینہ ہے نہ کولہے میرے یار کی قسمت میں جو بھی آئیگی زرخیز ہی آئیگی۔ یاد رکھنا میری بات”۔
ہم دونوں کی دوستی ایسی تھی کہ گاؤں میں مثال دی جاتی تھی۔ ایک دن گاؤں گیا تو میرے استقبال کیلئے صرف ابا کھڑے تھے۔ میں نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے ابا سے پوچھا۔ “سیدکی کہاں ہے؟”۔ کہا بیمار ہوگیا ہے۔ میں ماں کے کمرے میں جانے سے پہلے اس کے پاس چلا گیا۔ وہ بستر پر لیٹے تھے۔ میرا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ حالانکہ ان کو ہلکا سا بخار تھا مگر مجھ سے میرے یار کی یہ حالت نہیں دیکھی جارہی تھی۔
اگلے دن پھر ہم دونوں تھے،ہمارے غلیل اور بیری کے درخت۔
میری شہری بیگم جب پہلی بار گاؤں آئی تو سب سے پہلے ان کے پاس لیکر گیا کہ دیکھ سیدکی تیری بات سچ ثابت ہوگئی کہ نہیں کہ میری قسمت میں زرخیز لڑکی ہوگی۔ وہ شرما کر بھاگ گئے۔
پانچ سال پہلے سیدکی کو فالج کا اٹیک ہوا مگر مجھے معلوم تھا کہ کس بیماری نے ان کو بے بس کرڈالا ہے۔ ساری زندگی غربت سے لڑتے لڑتے وہ نڈھال ہوکر تھک کر گر پڑے تھے۔ نہ کسی کو پہچانتے تھے نہ کسی سے بات چیت کرتے تھے۔ جب میں جاتا تو حیرت انگیز طور پر وہ مجھے گھورنا شروع کردیتے اور میں دنیا جہاں کی باتیں شروع کردیتا۔ میری باتوں کا محور میری غیر ملکی محبوبائیں ہوتیں۔ چاچی اپنی بچیوں سمیت منہ پر پلو گرا کر ہم دونوں کو کمرے میں اکیلا چھوڑ دیتی تھی کیونکہ ہماری خالص مردانہ باتیں ان کی سمجھ  سے باہر ہوتیں۔ سیدکی میری آنکھوں میں جھانکتے جھانکتے رو پڑتے۔
ابا کے وجود کو قبر میں اتارنے کے بعد کسی سے پرسہ لئے بغیر سیدھا سیدکی کے بستر پر جاکر بیٹھ گیا۔ کہ سیدکی کے علاؤہ  میرے آس پاس کوئی تھا ہی نہیں۔ ہم دونوں کافی دیر تک بے آواز آنسوؤں سے روتے رہے۔ میں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر التجاء کی۔ “تیرا بھائی تو بقول تیرا انسان کا بچہ نہیں تھا،چھوڑ کر چلا گیا۔ مگر تم ایسا مت کرنا۔ ۔۔بہت اکیلا ہوگیا ہوں یار”۔
صبح سے سوچ رہا ہوں یہ سیدکی بھی تو اپنے چھوٹے بھائی اور میرے باپ کا ہی خون تھا۔ خون کیسے اپنی اصلیت چھوڑ سکتا ہے۔ انسان کا بچہ تو یہ بھی نہیں تھا۔ اپنے بھائی کی طرح آج صبح مجھے چھوڑ کر ہمیشہ کیلئے یہ بھی چلا گیا۔۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply