سفرنامہ پنجاب(قسط2)۔۔عارف خٹک

ہم نے ڈاکٹر کو غور سے دیکھا تو اس نے جلدی سے “نیکسٹ” کی ہانک لگائی اور ہم پرچی تھامے کبھی ڈاکٹر کو اور کبھی اس کی کمپاؤنڈرنی کو حیرت سے دیکھنے کے علاوہ کر بھی کیا سکتے تھے۔ ڈاکٹر نے شاید میری “ماہواری” کا سنا ہی نہیں تھا، بس وہ مشینی انداز میں ہر بندے کو نمٹائے جارہا تھا۔ کمپاؤنڈرنی نے ہمیں ایسی غلیظ نظروں سے دیکھا جس کے ہم گھر میں عادی ہیں۔ کہنے لگیں۔ “جلدی کر۔۔۔۔ پینٹ نیچے کر” ہم نے اس کو منمناتے ہوئے فقط اتنا کہا “میڈم ابھی تو ہم نے پانچ سو روپے فیس بھی نہیں بھری”۔ اس نے بدتمیزی سے پرچہ ہاتھ سے چھین کر کہا “یہاں داتا کا لنگر فری بٹ رہا ہے؟”۔ یہ کہتے ہوئے میرے پیچھے والے مریض کو ہاتھ سے پکڑا اور تقریباً ہوا میں اچھالتے ہوئے اس پچیس کلو کے  مریض کو اندر پردے میں لاپھینکا اور میرا  انجکشن اس کو چبھو دیا۔ جس کے بعد  ایک تیز “اوئی” کی آواز سنائی دی۔

رانا صاحب نے کہا “یہ بڑے خبیث  ہوتے ہیں، رک میں پانچ سو جمع کروا کر آتا ہوں”۔ میں نے رانا صاحب کا ہاتھ پکڑا “چھڈو جی ہم پٹھان انجکشن لگا ہی نہیں سکتے”۔ حیرت سے میری طرف دیکھا “کڑی سے بھی نہیں؟”۔ میں نے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے جواب دیا۔ کہ “منڈے سے وی نہیں۔ لڑکی سے ہم اپنا الٹراساؤنڈ بصد شوق کروا سکتے ہیں، بشرط الٹراساؤنڈ ہرنیا کا ہو۔ مگر انجکشن مردوعورت دونوں سے نہیں لگوا سکتے”۔ رانا صاحب نے استہزائیہ لہجے میں پوچھا “خٹک صاحب پٹھان تو بڑے بہادر ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ سنا تو یہی ہے”۔ میں نے اس کو بازو سے پکڑ کر ہسپتال سے باہر کھینچتے ہوئے معلومات دیں “رانا صاحب پٹھان خودکش دھماکہ کرتے ہوئے ایک لمحے کو  بھی نہیں ہچکچاتا۔ توپ کے سامنے کھڑا کردو تو بے دھڑک خود کو توپ سے اُڑا دے۔ قتل اور جنگ وجدل بلکہ کسی بھی کام سے قطعا ً نہیں گھبراتا۔ مگر کوئی ان کو انجکشن کی سوئی ہلاکر دیکھا دے پٹھان پھر آپ کے گوجرہ کے اولمپک ہاکی پلیئرز سے بھی تیز بھاگتا ہے۔ امریکہ نے طالبان کے سرکردہ رہنماؤں کو جب افغانستان میں پکڑا تو سر توڑ کوششیں    کیں ،مگر ان کی زبانیں ان کے ایمان کی طرح مضبوطی سے بند رہیں۔ بالآخر کسی کافر تاجک نے ان کو بتایا تو امریکیوں نے انجکشن کی سوئیاں دکھا دکھا کر ان سے مُلاعمر کی ساری معلومات لیں تھیں”۔ رانا صاحب حیرت سے میرے منہ کو تکتے رہے۔ جب میں نے ساری معلومات انڈیل دیں تو آخر میں رانا صاحب افسوس سے سرہلاتے ہوئے گویا ہوئے۔ “محمود غزنوی کو صدیوں پہلے پنجاب سوئیاں دکھاتا تو کیا ہوتا؟”۔ جواب دیا پاکستان پھر غزنوی میزائل بنانے سے محروم رہتا۔

رانا صاحب ہمیں حکیم دوست کے پاس لیکر آئے۔ بغیر بیماری پوچھے  ،ہماری نبض پکڑ کر ایک منٹ کیلئے گہرے مراقبے میں چلے گئے۔ ایک منٹ بعد وہ رانا صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے فرمانے لگے۔ “لڑکے  کے  دماغ کو گیس چڑھی ہوئی ہے۔ ان شاءاللہ ہوائیں خارج ہوتے ہی دماغ ٹھکانے آجائیگا”۔ میں نے کچھ کہنے کیلئے منہ کھولا ہی تھا کہ رانا صاحب نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر خاموش کرادیا،کہ “حکیم صاحب ہمارے بچپن کے یار ہیں۔ خاندانی حکیم ہیں ،اللہ نے شفاء رکھی ہوئی ہے ہاتھ میں۔” اب کہنے سننے کا وقت نہیں تھا۔ حکیم صاحب نے کچھ پھکیاں دیں کہ پانی کیساتھ ابھی پھانک لیں۔ اور سات آٹھ باندھ کر دیدیں  کہ صبح دوپہر شام گرم پانی کیساتھ پھانکتے رہیے۔ ان شاءاللہ آفاقہ ہوگا”۔ اس کے بعد حکیم صاحب اور رانا صاحب کی گفتگو شروع ہوئی ،جو بالآخر اس بات پر ختم ہوئی۔ “حکیم صاحب اس بار دوائی ذرا ہلکی دینا وہ رضیہ شکایت کررہی تھی۔”

حیرت انگیز طور پر آدھے گھنٹے کے بعد واش روم کی ضرورت محسوس ہوئی۔ رانا صاحب کو ہاتھ سے پکڑا کہ چلیں گھر چلتے ہیں۔
ہم کراچی کے ننانوے اعشاریہ ننانوے فی صد باسیوں کو پیچش اور قبض کی دائمی شکایت رہتی ہے ۔ نہ ہم کھا سکتے ہیں اور نہ کھلا سکتے ہیں، اس لئے پنجاب کے مہمان ہمارے ہاں رات ٹھہرنے سے بہتر واپسی پنجاب کا رستہ لیتے ہیں، کہ تین بائی تین انچ کی دو چپاتی بھی کوئی خوراک ہوتی ہے؟۔ اب ہم کیا بتائیں کہ اس جیسی پانچ چپاتیوں سے ہم دس مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں اور پوری رات باتھ روم کے چکر لگاتے ہیں کہ آج کھانا زیادہ ہوگیا۔ رانا صاحب ستر سال کی عمر میں بارہ بائی بارہ انچ کی چار روٹیاں صرف لنچ میں آرام سے کھاتے تھے۔ مجھے باخدا ان کی خوراک پر کوئی اعتراض نہیں تھا فقط اعتراض اس بات پر تھا کہ وہ مجھے اس سے زیادہ کھلانے پر اصرار کررہے تھے کہ “جوان بندے ہو اور اپنی خوراک دیکھو۔ افسوس ہوتا ہے پشاور کا مرد کراچی جاکر مہاجر بن گیا ہے”۔

شام تک پیٹ مکمل طور پر  صاف ہوگیا اور حیرت انگیز طور پر  کمر درد بھی غائب ہوا۔ اس رات میں نے بھنے ہوئے گوشت کیساتھ دو روٹیاں اور لسی کا ایک گلاس پی لیا مگر بھوک پھر بھی نہیں مٹ رہی تھی۔

میرے اندر شدید خواہش ابھری کہ حکیم صاحب کی حکمت پر ایک پھڑپھڑاتا ہوا مضمون بی بی سی اردو کو ارسال کروں اور سارے ڈاکٹروں کی ڈگریوں کر جعلی قرار دیکر ان کو کوہ نور ٹیکسٹائل ملز میں مشین آپریٹر رکھوا دوں۔کہ وہ انسانوں سے زیادہ مشینوں کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ بھلے بعد میں حکومت پی آئی اے پائلٹس کی ڈگریوں کی طرح خود ہی تردید کرتی پھرے کہ غلط فہمی میں ڈگریاں جعلی قرار دی گئیں تھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply