• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ماہرینِ طبیعیات کو کیونکر تاریخ کامطالعہ کرنا چاہیے؟ میتھیو سٹینلے (ترجمہ: عاصم رضا)تیسرا،آخری حصّہ

ماہرینِ طبیعیات کو کیونکر تاریخ کامطالعہ کرنا چاہیے؟ میتھیو سٹینلے (ترجمہ: عاصم رضا)تیسرا،آخری حصّہ

طبیعیات ہمیشہ سے ایک جیسی نہیں تھی

مستقبل میں طبیعیات مختلف ہو گی ، اس بات کو تسلیم نہ کرنا اس بات کو ماننے کے مترادف ہے کہ ماضی میں طبیعیات مختلف تھی ۔ ہر ایک فرض کر لینے کا اہل ہے کہ اشیاء کا موجودہ اسلوب ہی مستند معیار ہے ۔ تاہم تاریخ اس بات کو واضح کرتی ہے کہ اشیاء ہمیشہ سے ایک جیسی نہیں تھیں ۔ افراد کیونکر متفرق انداز سے سوچتے تھے ، معاصر دنیا کی تفہیم میں اس نکتے کا علم ایک قوی آلہ ہے ۔تاریخ ہمیں دکھاتی ہے کہ قدیم اور ان کہے مفروضات پر نگاہ ڈالنے سے کیسے ہم اپنے ذاتی مفروضوں پر توجہ دینا شروع کرتے ہیں ۔

خود آئن سٹائن جیسی بڑی شخصیت نے اس تاریخی طریقہ کار کی حمایت کی ۔ اپنی جوانی میں اس نےتاریخِ سائنس پر ارنسٹ ماخ (Ernst Mach) کی تحاریر کو پڑھا ، اور اس نے ماخ کے سر اس بات کو سکھانے کا سہرا باندھا کہ سائنسی اصولوں کے بارے میں تنقیدی سوچ کو کیسے برتا جاتا ہے ۔ آئن سٹائن نے ایک دفعہ لکھا کہ ، ’’تاریخی اور فلسفیانہ پس منظر سے واقفیت اپنی نسل کےان تعصبات سے ایک قسم کی آزادی مہیا کرتی ہے جن میں بیشتر سائنس دان مبتلا ہو رہے ہیں ‘‘ ۔ اس نے شکوہ کیا کہ ماہرین ِ طبیعیات آج کل کے مقبول تصورات کو قطعی سمجھنے کو مائل تھے ۔ اس کے برعکس ، اس نے تجویز دی کہ انہیں ایسے تصورات کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے نیز اس صورت حال کو سمجھنا چاہیے جس میں وہ بامعنی اور مفید تھے ۔ اس طرح ایک غیرمعروف ، یوں کہیے 1905ء میں ایک پیٹنٹ کلرک کی حیثیت سے کام کرنے والے ایک نوجوان ماہرِ طبیعیات نئے میدانوں میں جھنڈے گاڑنے کی جرات کرے گا اور نئی تخلیقی جہات سامنے لائے گا ۔

تاریخ مقبول تصورات کی بابت تنقیدی اعتبار سے سوچنے کے لیے آپ کی تربیت کرتی ہے ۔ تاریخ غیرمعروف شاہراہوں کی موجودگی کا ثبوت دیتی ہے۔ قدری طبیعیات کے بھیدوں سے متعلق سوچ بچار کے لیے کثیر زاویے ہیں ۔ (قدری طبیعیات کی ) کوپن ہیگن تعبیر کی ہمہ گیریت (ubiquity) اپنے تئیں بہترین ہونے کا جواز نہیں رکھتی ، اور یقیناً صرف یہی ایک مفید تعبیر نہیں ہے ۔ خود آئن سٹائن متمنی تھا کہ ماہرین طبیعیات قدری میکانیات کی بنیادوں سے متعلق تنقیدی انداز کو بروئے کار لائیں ۔

مؤرخ اور فلسفی ہاسوک چانگ (Hasok Chang) کہتا ہے کہ سائنسی تعبیرات کی کثرت ، تاریخ ِ سائنس کو جدید سائنسی تحقیق کے لیے ایک ماخذ بنا دیتی ہے ۔ وہ اپنے طریقہ کار کو ’’تکملی سائنس ‘‘ (complementary science) کہتا ہے یعنی ماضی سے گم گشتہ اور غیرحل شدہ معموں کو بازیافت کرنا ۔ بعض قدیم تصورات اور مشاہدات جیسا کہ خنکی کے بارے میں افکار کو تفصیلی تحقیق سے گزارنے کی بجائے بہتر وجوہات کی بنا پر ترک کر دیا گیا ۔ تکملی سائنس کو عمل میں ڈھالنا خود احتسابی کی متفرق اقسام کا تقاضا کرتا ہے ۔ مفروضات اور مقبول علم کے بارے میں عمیق اور تنقیدی فکر، پیشہ وارانہ سائنسی تناظر کے باب میں دشوار ہو سکتا ہے ، تاہم تاریخ کے دھارے میں اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔

نسلِ انسانی کا اگلا پڑاؤ(تیسرا حصہ)۔۔محمد شاہزیب صدیقی

داؤد قیصر (David Kaiser) کی کتاب ’’ ہپی لوگوں نے کیسے طبیعیات کو بچایا ‘‘ (How the Hippies Saved Physics) ایک عمدہ مثال ہے کہ کس نوع کی تنقیدی فکر بروئے کار آ سکتی ہے ۔ 1960ء اور 1970ء کے بعض ماہرین ِ طبیعیات اپنے دائرہ علم کے ’’منہ بندرکھواور گنتی کرو‘‘ (shut up and calculate) والے کلچر سے غیرمطمئن تھے ۔ وہ اپنی مساوات کے پس پردہ عمیق تر فلسفیانہ معانی میں دلچسپی رکھتے تھے ۔ اس معنی کی تلاش کرنے کے لیے ، انہوں نے اپنے زمانے کے مخالف سر ی کلچر(mystical counterculture); اور قدری طبیعیات کی تاریخ دونوں سےرجوع کیا ۔ اسی شاہراہ پر ، انہوں نے بیل کے مسلم الثبوت دعوی (Bell’s Theorem) میں وسیع تر دلچسپی کے امکانات کو ابھارنے میں مدد کی ۔ سادہ احساس کہ لوگ متفرق انداز میں سوچتے ہیں ، نہایت طاقت ور ہو سکتا ہے ۔

طبیعیات بے لچک قوانین پر مشتمل نہیں ہوتی ہے

پہلی دفعہ تاریخ ِ سائنس کا سامنا کرنے والے افراد کو عموماً دھچکا لگتا ہے کہ سائنس کا حقیقی عمل اس مرحلہ وارسائنسی طریقہ کار سے نہایت ہی کم مشابہت رکھتا ہے جس کو انہوں نے سکول کے زمانے میں سیکھا تھا ۔ سائنس دان مسائل کو حل کرنے والے ایک بے لچک اور خطی طریقہ کار کی پیروی نہیں کرتے ہیں ۔ بعض اوقات وہ ایک مفروضہ سے آغاز کرتے ہیں ، بعض اوقات ایک عجیب و غریب مشاہدے سے اور بعض اوقات ایک سیدھے سادے تجربے میں درپیش ایک غیرفطری (weird) بے قاعدگی سے ۔ خود آئن سٹائن نےزندگی کے آخری ایام میں اس نکتے پر روشنی ڈالی کہ ایک سائنس دان کو لازماً ’’کسی اصول کی پروا نہ کرنے والا ایک موقع پرست‘‘ (Unscrupulous Opportunist) ہونا چاہیے جو نت نئی آزمائش کے نمودار ہونے پر متفرق طریقہ ہائے کار کو اختیار کرتے ہوئے خود کو اس کے مطابق ڈھال لے ۔

ایک بے لچک طریقہ کار کو بروئے کار لانے کی بجائے سائنس دان ہر ممکن دستیاب ثبوت سے کام لیتے ہوئے ایک بہترین ممکنہ بیان سے آغاز کرتے ہیں۔ اس دعوی کو فرض کیجئے کہ نظریات متضاد مشاہدات کی بنیاد پر مسترد ہوتے ہیں۔ انیسیوں صدی کی ابتداء میں یورینس کا مدار نیوٹن کے قوانین برائےکشش ثقل کے ساتھ ناموافق دکھائی دیتا تھا ۔ ایک ردعمل یہ ہوتا کہ نیوٹن کے قوانین برائے کشش ثقل کو مسترد کر دیا جاتا ۔۔ یقیناً بہت ہی کم لوگوں نے ایسا کیا ۔ نیوٹن کا نظریہ برائے کشش ثقل اس قدر بارآور / مفید ثابت ہو چکا تھا کہ اس کو رد کرنے کے لیے ایک سے زیادہ بے قاعدگیوں کو مشاہدہ میں لانے کی ضرورت پڑتی ۔ اس مسئلے کا ایک آسان حل یہ تھا کہ ایک نیا سیارا نیپچون تاریکی میں پوشیدہ تھا ۔ چنانچہ سامنے کی بات ہے کہ بعد ازاں ، مدارِ عطارد میں درپیش تضاد کو بھی اسی طریقے سے بیان کر نا چاہیے ۔ نیوٹن کے قوانین برائے کشش ثقل کودوبارہ سے بچانے کی خاطر ماہرین ِ فلکیات نے سورج ِ کی روشنی میں چھپ جانے والے ایک سیارے ’’ویلکان ‘‘ (Vulcan) کو تلاش کیا ۔تاہم آخرِ کار ، آئن سٹائن نے تجویز دی کہ عطار کے مدارد میں در آنے والی بے قاعدگی اس کے اپنے نظریہ کی تائید میں نیوٹن کو ترک کرنے کی خاطر ایک عمدہ وجہ ہے ۔

بعض اوقات ، ایک بے قاعدگی کسی نظریے کو مسترد کرنے کی خاطر ایک عمدہ وجہ بنتی ہے ، اور بعض اوقات ایک نظریے کو بچانے کی خاطر ایک بالکل ہی نئے عنصر کو ایجاد کرنا بہتر ہے ۔ متفرق صورتِ احوال ، متفرق طریقہ ہائے کار کا تقاضا کرتی ہیں ۔ ماہرین ِ طبیعیات عموماً اپنے انتخاب (choice) کی تائید میں مناسب وجوہات کے حامل ہوتے ہیں ، تاہم ان کو ایسے انتخابات کی پیچیدگی اور دشواری کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔

سائنسی دریافتوں سے وابستہ کہانیاں بھی قابلِ اعتناء ہوتی ہیں ۔ کوئی شخص خصوصی نظریہ اضافیت کی بنیاد کے بالکل مختلف نسخوں (versions) کو آسانی کے ساتھ تلاش کر سکتا ہے ۔ کیا یہ مائیکل سن اور مورلے (Michelson-Morley) کے تجربہ سے براہ راست اخذ ہونے والا نتیجہ تھا؟ یا، کیا یہ زمان و مکان کی ماہیت پر آئن سٹائن کے فلسفیانہ غوروفکر سے پھوٹا؟ یا ، تاریخی بنیادوں کے باوجود ، کیا اس کو میکس ول (Maxwell) کی مساوات سے تجریدی معنوں میں اخذ کرنا چاہیے ؟ آپ اپنی سنی ہوئی کہانی کے مطابق طبیعیات کو متفرق انداز سے متصور کرتے ہیں ۔ داستان گو ؤں کو یقینی بنانا چاہیے کہ تاریخی ثبوت بہترین انداز سے ان کی کہانیوں کی تائید میں ہیں ۔

کسی شخص کو ایسی تحقیق کے بارے میں بہت زیادہ تشویش کا شکار نہیں ہونا چاہیے جو بظاہر سائنسی طریقہ کار پر سوال اٹھاتی ہے یا اس کے وجود کو خطرے میں ڈالتی ہے ۔ طبیعیاتی تحقیق کے بہت سے طریقہ ہائے کار ہیں ، اور منہاجی ضابطوں کی خلاف ورزی کے سبب سٹرنگ تھیوری پر حملہ آور ہونا شاید مناسب نہ تھا ، اگرچہ اس بات کا امکان تھا کہ ماہرین ِ سٹرنگ تھیوری ان ابتدائی نصیحتوں پر غور کرنے کے خواہاں تھے کہ وہ خوبصورت نظریات کے ساتھ حد سے بڑھی ہوئی دلچسپی کے حامل تھے۔ ماہرینِ طبیعیات آج کل عام طور پر تاریخ سائنس کے حوالے سے تربیت یافتہ نہیں ہیں، اگرچہ آئن سٹائن اور نیلز بوہر دونوں تربیت یافتہ تھے ۔اور ان کے وضع کردہ فلسفیانہ اصول عام طور پر متروک ہیں ۔ کارل پوپر کا تصور کہ لائق تکذیب (Falsifiablity) ہونا ہی سائنس کی علامت ہے ، اس وقت بہت زیادہ مستعمل نہیں ہے ۔ مثال کے طور پر ، علم نجوم (astrology) مکمل طور پر لائق ِ تکذیب ہے ، تاہم اس کو سائنس تصور نہیں کیا جاتا ہے ۔ حتی کہ فی زمانہ معروف بائز ین ازم (Bayesianism) کو بھی اب تک صرف ایک مرتبہ ہی اختیار کیا جا سکتا ہے ۔ تاریخ ِ سائنس دکھاتی ہے کہ کیسے سائنس کی تعریفات اور معیارات مختلف زمانوں میں تبدیل ہو چکے ہیں اور، امید ہے کہ یہی بات معاصر فلسفہ سائنس میں اہم تحقیق کرنے والوں سے استفادہ کرنے کی ہمت دیتی ہے ۔

تصورات اور ان کی شرائط

تاریخ سے سبق ملتا ہے کہ علم میں قطعیت نہیں ہوتی ۔ تاریخی اندازِ فکر چبھتے سوالات پر مشتمل ہوتی ہے : ماضی میں لوگ کسی شے کو درست کیوں کہتے تھے؟ میں ماضی کے برعکس کو کیونکر درست تصور کرتا ہوں؟

تاریخ سے وابستگی آپ کو سبق دے گی کہ تصورات کو ان کی شرائط پر سمجھا جائے ۔ ارسطو ایک شخص نہیں تھا جو نیوٹن کی طبیعیات میں ناقص تھا ، وہ ایک بالکل ہی مختلف تناظر کا حامل تھا ۔ ماضی میں لوگ مختلف اشیاء کے بارے میں تشویش کا شکار ہوتے اور اپنے مسائل کو متفرق انداز میں حل کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔ مؤرخین کی ناپسندیدہ شے (واہمہ) و ہ نام نہاد پراگندہ حال تاریخ (Whig History) ہے جو ماضی کی ہر شے کا تصفیہ اس کی موجودہ صورت کے مطابق کرتی ہے ۔ اس نوع کے فیصلے سے پرہیز ہی دنیا اور اہلِ دنیا کی بامعنی تفہیم کی خاطر ایک حیرت انگیز آلہ ہے ۔ اگر آپ سمجھ سکتے ہیں کہ لوگ کیونکر حرارت کو مادے کی ایک قسم سمجھتے تھے ، تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کسی مجلس میں آپ کے ساتھ کام کرنے والا کیونکرضد پر اڑا ہے۔

ارتقاء ایک سائنسی حقیقت یا ‘محض نظریہ’؟۔۔محمد حسنین اشرف

تاریخی انداز فکر اپنے موضوع کو متحرک متصور کرتا ہے ۔ یہ سائنس کوقضیات کی ایک قطار کی بجائے بطور سلسلۂ سوالات تصور کرنے میں آپ کی مدد کرتا ہے ۔ وہ سوالات مستقبل میں اٹھتے رہیں گے ، اوراس سے مدد ملتی ہے کہ اب تک کیا کون سے سوالات اٹھائے جا چکے ہیں ۔

میں اس بات کو بیان کرنے میں کوتاہی نہیں کروں گا کہ بلاشبہ ، تاریخ ِ سائنس دلچسپ ہے ۔ یہ دلفریب کہانیوں سے بھری پڑی ہے جو آپ کو مسحور کر دیں گی ۔ کون اس بات کو مزید جاننے کی خواہش نہیں رکھتا کہ اپنے تجربات میں جیمز جول (James Joule) بیئر سے متعلق اپنی مہارت کو کام میں لاتا تھا ، یا رنگوں سے متعلق نسبتاً زیادہ جاننے کی غرض سے نیوٹن نے اپنی آنکھ میں ایک خنجر گھونپ لیا ؟

اگرچہ میں ایسے تحفظات کو سن چکا ہوں کہ ایسی کہانیاں اضطراب (پریشاں خیالی) کا باعث بنتی ہیں جو ہدایاتِ سائنس یا کمیتی تحقیق سے دور لے جاتی ہے ۔ تاریخ کو تدریس اور تفکر کے ساتھ مدغم کر دینا ایک عمدہ حکمت عملی ہے ۔ ایسا کرنے سے ہم طبیعیات کی تعلیم لینے والوں اور ماہرینِ طبیعیات کو دنیا کا ایک بہتر شہری بنا پائیں گے نیز اس کی بدولت سائنس کے پیشوں میں زیرک طلباء کی دلچسپی کو بڑھانے میں مدد ملے گی۔ حتی کہ غیر سائنسی علوم کی تعلیم حاصل کرنے والوں کے ہاں ، ان کے سائنسی فہم اور سائنسی تصورات میں ان کی دلچسپی میں اضافہ کرنے کی خاطر تاریخ ِ سائنس ایک بہترین طریقہ ہے۔ آخرکار تاریخ ِ سائنس ، سائنس دانوں کو سوچنے کے نت نئے انداز سے آشنا کرتی ہے او ر پہلے سے معلوم اشیاء کو دوبارہ سے کھوجنے کی خاطر ان کو مجبور کرتی ہے ۔ کسی بھی شعبہ کے لیے ایسی علمی لچک ناگزیر ہے ، تاہم طبیعیات اور دیگر سائنسی علوم جیسے مؤثر اور معتبر مضامین کے لیے خاص اہمیت کی حامل ہے ۔ ہم کیسے واقفیت حاصل کرتے ہیں کہ ہم کیا جانتے ہیں ، اور ہماری واقفیت کی دیگر صورتوں کے کیا امکانات ہو سکتے تھے ؟

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ جائزہ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply