• صفحہ اول
  • /
  • سائنس
  • /
  • ماہرینِ طبیعیات کو کیونکر تاریخ کامطالعہ کرنا چاہیے؟ میتھیو سٹینلے (ترجمہ: عاصم رضا)حصّہ دوم

ماہرینِ طبیعیات کو کیونکر تاریخ کامطالعہ کرنا چاہیے؟ میتھیو سٹینلے (ترجمہ: عاصم رضا)حصّہ دوم

ہر دفعہ ماہرین ِ طبیعیات اختلاف کرتے ہیں کہ ایک مجموعۂ مواد کو کیسے تعبیر کیا جائے ، وہ ایک تازہ ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ طبیعیات سادہ نہیں ہے ۔ کچھ مواد صرف ایک خاص زاویہ نگاہ سے ہی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ ارنوپینزیس (Arno Penizias) اور رابرٹ ولسن نے اپنے اینٹینا میں ادنی فریکوئنسی کا شور (low-frequency-noise) دیکھا ، نہ کہ آفاقی مائیکرویو تناظر ۔ یہ اسی وقت اہمیت کا حامل دکھائی دیا جب انہوں نے اس شور کو انفجارِ عظیم (Big Bang) کی تکوینیات کی روشنی میں دیکھا ۔

تاریخ ِ طبیعیات تجویز کرتی ہے کہ عام طور پر ایک مسئلے کو حل کرنے کے بے شمار طریقے ہوتے ہیں ۔ نظریۂ قدر پر مبنی برقی حرکیات (Quantum Electrodynamics) اپنے پیشروؤں میں سے اس وجہ سے برآمد نہیں ہوئی کہ یہ ان سے صریحاً برتر تھی بلکہ اس کا سبب یہ ہوا کہ فری مین ڈائسن(Freeman Dyson) نے رچرڈ فائن مین (Richard Feynman)، جولیان سکیونجر (Julian Schwinger)، اور سین اٹیرو ٹوموناگا (Sin-itiro Tomonaga) کے طریقہ ہائے کار کو ازسرنو طبعی حالت میں بیان کرتے ہوئے (renormalization) یکساں برابری کا حامل دکھایا۔ ان میں سے کوئی بھی طریقہ کار غلط نہ تھا ، ان سب کو ازسر نو وضع کرنے کی ضرورت تھی ۔ حتی کہ اس وقت ناگزیر سمجھی جانے والی فائن مین کی ڈایاگرامز بھی زیادہ کارآمد نہ تھیں جب وہ پہلی دفعہ منظرِ عام پر آئیں ۔ وہ پریشان کن تھیں ، اور ان کا استعمال واضح نہ تھا۔ دوبارہ سے ڈائسن ہی ایک نئے تصور کی مقبولیت کا وسیلہ بنا: اس کو ہر ایک کو سکھانا پڑا کہ فائن مین کی تصاویر کس شے کے لیے کارآمد ہیں نیز ان کی اہمیت کو تقدس دینا پڑا ۔ اب جو چیزیں لازمی اور واضح دکھائی دیتی ہیں ، ان کا آغاز کبھی ایسے نہیں ہوا ۔

طبیعیات کو بے شمار انواع کے افراد کی ضرورت ہوتی ہے

پیچیدگی کو عمدہ طبیعیات میں تبدیل کرنے کے لیے تخلیقی صلاحیت کی حاجت ہوتی ہے ۔ آپ کبھی نہیں بتا سکتے کہ کون سا انوکھا تصور ایک پریشان کن مشاہدے کو واضح کرنے میں مدد دے گا ، یا ایک مساوات کو حل کرنے کی کنجی فراہم کرے گا ۔ تاریخ، تصورات کی ایک عجیب اتھل پتھل کو منکشف کرتی ہے جو طبیعیات کی بڑھوتری کے لیے ناگزیر تھی ۔ حرحرکیات (تھرموڈائنامکس ) کے دوسرے قانون کی مثال لے لیجئے ۔ اس کی زیادہ تر تشکیل و تعبیر کا ذمہ دار لارڈ کیلون (Lord Kelvin) تھا ۔ تاہم کیلون حرحرکیات تک اس طرح نہیں پہنچا کہ وہ خالی سلیٹ تھی ۔ وہ بربادی اور انجیئنرنگ مہارت کے دلدادہ وکٹورین کی حیثیت سے اس قانون تک پہنچا ۔(بعینہ ) وہ اس تک یخ بستہ اختتام ِ کائنات کا مطالعہ کرنے والے مذہبی شخص کی حیثیت سے پہنچا کیونکہ زبور کی آیت نمبر 102ء کے مطابق یہی شے بامعنی لگتی تھی ، جس کے مطابق آسمان و زمین کی ہر ایک شے لباس کی مانند فرسودہ ہو جائے گی ۔ اس کے ذاتی پس منظر نے اس کو ایسے آلات سے لیس کیا جنھیں وہ اس وقت دوسرے قانون کہلانے والے حیرت انگیز مظہر کے ساتھ الجھنے کے ضمن میں استعمال کرنے کا خواہاں تھا ۔آپ کیلون کے مخصوص زاویۂ نگاہ کی اہمیت کو ملاحظہ کر سکتے ہیں جب آپ اس کی تحقیق کا ، یوں کہہ لیجئے، حرحرکیات پر کام کرنے والے ایک جرمن ماہر طبیعیات کی تحقیق کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں ۔ انہوں نے نہایت مختلف تصورات کو پیش کیا اور متفرق تصورات کو متعارف کروایا ۔ کئی طریقہ ہائے کار کے باہمی تعامل نے ہمار ے جدید زاویہ نگاہ کو جنم دیا ، جس کا خیال بھی کیلون کے انوکھے تصورات کے بغیر نہیں کیا جا سکتا ۔

انوکھے لیکن نہایت مفید تناظرات اکثر اوقات ایسے شعبوں اور مضامین سے آتے ہیں جن کا بظاہر زیرِ نظر مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے ۔ جیمز کلارک میکس ول (James Clerk Maxwell) نے مؤرخین سے شماریاتی تنوع کے بارے میں اکتساب کیا ۔ جوہری ماہر طبیعیات لوئس الوریز ((Luis Alvarez نےآئسوٹوپ میں اپنی مہارت کو اپنے بیٹے والٹر کی ارضیاتی تحقیق میں استعمال کیا اور ڈائنوسار کی معدومیت کے راز کو حل کرنے میں مدد کی ۔ تاریخ ِ سائنس دکھاتی ہے کہ مختلف شعبوں کے سائنس دانوں کے مابین مکالمہ کتنی اہمیت کا حامل ہے ۔ متفرق گروہوں کے مابین تبادلہ خیال صحت مند سرگرمی ہے ۔ بظاہر ایک دوسرے سے جدا نظر آنے والے مسائل اکثر ایک دوسرے سے قربت رکھتے ہیں ، اور آپ کبھی نہیں جانتے کہ کب آپ کو اپنی دشواریوں کو حل کرنے کی خاطر انوکھے تصورات مل جائیں گے۔

متفرق تصورات کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ ایک متفرق معاشرے کا بیج بویا جائے ۔ مختلف اندازِ فکر کے حامل غیرمعروف گروہ اکثر اوقات تازہ معارف اور انوکھے طریقہ ہائے کار کو متعارف کروانے کا ماخذ بنتے ہیں ۔ بے شمار حیرت انگیز مثالیں وجود رکھتی ہیں ، اور انہوں نے محیط پر کام کرنے والے گروہوں کو مرکزی دھارے کے اندر نمایاں مقام حاصل کرنے کی راہ دکھلائی ہے ۔ مثلاً، ماریٹا بلاؤ (Marietta Blau) نے جوہری آمیزش (nuclear emulsion) کی تکنیک کو کیسے پروان چڑھایا جو اس وقت ذراتی طبیعیات (Particle Physics) کہلانے والے شعبے کی پیدائش کے لیے نہایت بنیادی حیثیت کی حامل ہے ، مرکزی دھارے سے باہر کام کرنے والے ایک فرد کا خاصہ تھی ۔ حالتِ جنگ کے آسٹریا سے تعلق رکھنے والی بلاؤ (Blau)کو ایک یہودی خاتون ہونے کی بنیاد پر دہرے اخراج کا سامنا تھا ۔ لیبارٹریوں میں خواتین کا داخلہ اکثر و بیشتر ممنوع تھا ، بعض اوقات اس بنیاد پر کہ ان کے بال بہت جلدی آگ پکڑ لیتے ہیں ۔ نازیوں سے پہلے بھی یہودیوں کو شاذ ہی اعلیٰ مراتب تک پہنچنے کی اجازت ہوتی تھی ۔ ایسی پابندیوں کا مطلب تھا کہ اگر بلاؤ (Blau) ذرات کا مطالعہ کرنے کی خواہاں تھی تو اس کو نہایت ارزاں اور سفری شناسدہ آلات (detectors) کی ضرورت تھی جنھیں عام طور پر دستیاب مواد کی مدد سےبنایا جا سکتا تھا ۔ اپنی جداگانہ تکنیک کے ساتھ اس نے ایک مشاہداتی آلہ تخلیق کر لیا جو اس زمانے کی طبیعیات کے مرکزی دھارے میں کام کرنے والے بیشتر ماہرین ِ طبیعیات کے لیے ایک مکمل حیرت انگیز شے تھی ۔

قدرے غیر معروف گروہ عام طور سےسماجی جمود یا طویل عرصہ پہلے ہونے والے سوچے سمجھے فیصلوں کی بدولت مرکزی دھارے سے دور ہوتے ہیں ۔ اسی سبب طبیعیات میں تنوع پیدا کرنے کی خاطر کام کرنے والے بہت سے لوگ اپنے آپ کو ایک سماجی غلطی کو سدھارنے کی خاطر مدد فراہم کرنے والوں میں شمار کرتے ہیں ۔ فائن مین کو کولمبیا یونیورسٹی میں داخلہ دینے سے انکار کر دیا گیا کیونکہ وہاں کسی نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ پہلے ہی یہودی طلباء بہت زیادہ ہو گئے ، ایک ایسا فیصلہ جو اس وقت بظاہر مہمل و ناانصافی پر مبنی دکھائی دیتا ہے ۔ یقیناً اس کی مادرِ علمی میساچوسٹس انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی (MIT) نے روایتی معیارات پر کم کم اترنے والے طلباء کو داخلہ دینے سے متعلق اپنے فیصلوں کی بابت فائدہ اٹھایا ۔

2015ء میں امریکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جان رابرٹس اس تصور سے تشویش کا شکار ہو گئے کہ تنوع ، طبیعیات میں مددگار ہو سکتا تھا ۔ رابرٹس کے تبصرات مایوس کن تھے اگرچہ ا ن کے پس پردہ تصور غیرمعمولی نہیں ہے : خالص عقلیت پر مبنی ایک وحدانی شعبے کی حیثیت سے مقصودِ سائنس متفرق تناظرات اور زاویہ ہائے نگاہ کی اہمیت کو نگاہوں سے اوجھل کر دیتا ہے ۔ تاہم تاریخ سائنس میں یہ اہمیت نہایت شرح و بسط سےدرج ہے جو ان دونوں باتوں کی توضیح میں مددگار ہو سکتی ہے کہ کیوں سفید فام لوگ ہی سائنس میں آگے ہیں اور کیونکر یہ نکتہ مستقبل میں ہونے والی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے ۔ تاریخِ طبیعیات علمی اور شعبہ جاتی تنوع کی اہمیت کے ضمن میں ایک شاندار مثال ہے ۔ ایک مسئلے پر تفکر کے بے شمار متفرق طریقوں کو یکجا کیا جا سکتا ہے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے ۔

طبیعیات اختتام پذیر نہیں ہے

تصورات و تعبیرات کا تنوع یاد دہانی کرواتا ہے کہ طبیعیات ترقی پذیر ہے ۔ علم عارضی ہے ۔ ایک مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہمیشہ نت نئے طریقے موجود ہیں ، اور سیکھنے کو بھی کوئی نہ کوئی شے موجود ہے ۔ تاریخ ِ طبیعیات کی بدولت اس بات کا دعوی کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے کہ موجودہ نظریات ہمیشہ کے لیے برقرار رہیں گے ۔

بعض لوگ پریشان ہوتے ہیں کہ غیریقینیت کی ایسی توثیق کی بدولت سائنس میں دلچسپی نسبتاً کم ہو جاتی ہے ۔ دراصل ، اس کے برخلاف درست ہے ۔ اگر طبیعیات تکمیل کے قریب جا پہنچی ہے تو اس پر کام کیوں کیا جائے ؟ تکمیل کے قریب پہنچی ہوئی دیوار میں چند آخری اینٹیں لگانے کا فعل ہمیشہ دلچسپ نہیں ہوتا ہے ، تاہم ایک نامکمل ڈھانچے کو ترقی دینا ایک متجسس چیلنج ہے ۔ اس بات کو جاننا حوصلہ افزاء ہے کہ سب کچھ دریافت نہیں ہو چکا ہے ۔

غیریقینیت کی قبولیت ، طبیعیات اور خاص طور پر سائنس کی تعلیم میں تبدیلی کی متقاضی ہے ۔ طبیعیات کو عام طور سے فہرستِ اشیاء کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہےجنھیں ماہرین ِ طبیعیات درست تصور کرتے ہیں ۔ ہم ان فہرستوں کو ’’ درسی کتب‘‘ کہتے ہیں ۔ وہ ماہرین ِ طبیعیات اور دیگر سائنس دانوں کی اصلی کارگزاری یعنی معموں کو حل کرکے دکھانے کا ہولناک فریضہ سرانجام دیتی ہیں ۔ ماہرین ِ طبیعیات جن اشیاء کے بارے میں جانکاری رکھتے ہیں ، ان کے بارے میں بات کرنے کی بجائے ، درسی کتب موضوع کے بارے میں نامعلوم شے پر زور دے سکتی تھیں ۔ وہ اس پر بات کر سکتی تھیں کہ ابھی کتنا کام باقی ہے : کون سے اسرار کو منکشف کرنا ابھی باقی ہے ؟ کون سا ایسا مسئلہ ہے جس کا حل ممکن نہیں ہے ؟ تجسس کا بدلہ دینا چاہیے اور اس بات کو دریافت کرنے پر ہر ایک کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کہ ’’ اس کے سوا کیا ہے؟‘‘

تدریس میں اس قسم کی تبدیلی کا ایک نتیجہ تصدیق (proof) پر کم تر اصرار کرنے کی صورت میں سامنے آئے گا ۔ بعض اشیاء کو قطعیت کے ساتھ درست/ صحیح ثابت کیا جا سکتا ہے ۔ عملی اعتبار سے ، سائنس دان ایک مخصوص دعوے کی خاطر گواہیاں جمع کرتے ہیں ۔ وہ گواہی کسی درجے میں اعتماد /یقین فراہم کرتی ہے ۔ اس بات پر اصرار کہ ہر سائنسی تصور ایک تصدیقی معیار پر پورا اترتا ہے یا اس کو پورا اترنا چاہیے ، خطرناک ہے ؛ اس کی بدولت علم پر سوال کھڑے کرنا آسان ہو جاتا ہے کیونکہ ہر ایک دعوی کسی درجے میں تشکیک کا حامل ہوتا ہے ۔

اگر سائنس دان اپنے شبہات کے بارے میں واضح اور کھرے نہیں ہیں ،تو اعتماد کا ایک بحران جنم لیتا ہے جب وہ غیریقینیت منکشف ہوتی ہے ۔ اُس نفسیاتی حقیقت کو بڑے فائدے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ، مثال کے طور پر ، ان کے ہاتھوں جو سکولوں میں ارتقاء کو پڑھانے کی مخالفت کرتے ہیں ۔ تصدیق اور اس کی عدم موجودگی کی بجائے گواہی او ر شک / بے یقینی کے متفرق درجات سے متعلق بات چیت ، درحقیقت سائنس کو عوامی دائرے میں نسبتاً زیادہ تقویت بخشتی ہے ۔

جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ جائزہ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply