شہر گریہ(تیسری،آخری قسط)۔۔شکور پٹھان

‏وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
‏کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
شہر کی بربادی کے ذمہ دار وہ نہیں جنہوں نے اس شہر کو لوٹا یا وہ جن کی نالائقی اور نااہلی کے سبب شہر اس حال کو پہنچا۔ سانپ کا تو کام ہی ڈسنا ہے اور لٹیروں کا کام ہی لوٹنا ہے۔ اور نالائق اور نااہلوں سے کوئی امید لگانا خود کو دھوکا دینا ہے۔ اس کے ذمہ دار وہ ہیں جو اس لوٹ مار کو ، اس تباہی بربادی کو دیکھتے رہے اور خاموش تماشائی بنے رہے یا اس بربادی کا حصہ بنتے رہے۔ وہ میں بھی ہوں اور تم بھی ہو۔
دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
یہ وہ شہر تھا جس کے پاس بے پایاں زمین تھی۔ ہر آبادی اور محلے میں کھلے میدان اور کھلے بازار اور گلیاں تھیں۔ ناظم آباد ہو، حیدری ہو، پی ای سی ایچ ایس ہو، ملیر، ڈرگ روڈ، لانڈھی ہو یا کورنگی، ہر علاقے میں شام کے وقت کہیں لڑکے کرکٹ کی پریکٹس کرتے نظر آتے تو کہیں فٹبال یا ہاکی کا میچ ہورہا ہوتا۔ نہ صرف نوجوان صحتمند تفریح میں مشغول نظر آتے بلکہ محلے کے بڑے بوڑھے بھی بطور تماشائی محظوظ ہوتے۔
پھر کہیں کسی میدان کے کسی حصے میں کوئی خان صاحب لکڑیوں کا ڈھیر جما کر “ ٹال” کھول لیتے۔ ان کی دیکھا دیکھی کوئی چوہدری جی سیمنٹ کے بلاک کا بھٹہ شروع کردیتے۔ انہیں روکتا تو کون، کوئی رانا صاحب ایک بڑے سے احاطہ پر قبضہ کرکے بھینسوں کا باڑہ قائم کردیتے تو محلے ہی سے کوئی حضرت یہ نیا “ کمرشیل سینٹر دیکھ کر وہاں گولہ گنڈے یا آلو چھولے کا ٹھیلا لگالیتے اور پھر چل سو چل۔ میدان آہستہ آہستہ غائب ہوتا جاتا۔ علاقے والے انہیں روکتے تو کیا الٹا خوش ہوتے کہ اتوار بازار اب قریب ہی لگا کرے گا۔ کسی محلے والے میں اتنی حمیت، غیرت اور ہمت نہیں ہوتی کہ ٹال والے، اینٹوں والے، باڑے والے سے پوچھتا کہ بھئی تم کس کی اجازت سے یہاں آئے۔ نہ کوئی متعلقہ محکمے کو خبر کرتا۔ اور رہے محکمے تو انہیں ایسے مواقع اللہ دے اور بندہ لے۔ ان کے لئے مستقل آمدنی کا انتظام ہوجاتا اور باقاعدگی سے بھتہ اور حصہ پہنچتا رہتا تو انہیں کیا غرض کہ ان تجاوزات کو ہٹائیں۔
اب سے کچھ عرصہ قبل عدالت عظمی کے حکم پر تجاوزات کے خلاف کاروائی کی گئی۔ لوگوں کی ہمدردی بجا طور پر ان کے ساتھ تھی جن کے چھوٹے موٹے کاروبار ختم کردئیے گئے لیکن نہ تو عدالت نے، نہ عوام نے ان سے کوئی سوال کیا جو ان تجاوزات کو روکنے کے ذمہ دار تھے۔
میں نے کھیل کے ان قدرتی میدانوں کا ذکر کیا جو شہر میں جا بجا موجود تھے ۔ لیکن ان کے علاوہ بھی کئی میدان اور اسٹیڈیم تھے جن کا اب نام و نشان نہیں۔ مجھے پورے شہر کی تو خبر نہیں نہ میں نے آج تک پورا شہر دیکھا ہے لیکن جب تک میں کراچی میں رہا یعنی ۱۹۷۵ تک ، اور جب میں بھی کرکٹ اور ہاکی کے میچز کھیلنے ان میدانوں میں جایا کرتا تھا آج وہ کہیں نظر نہیں آتے۔ مجھے نہیں علم کہ بوہرہ جیمخانہ کا میدان کس حال میں ہے۔ پولوگراؤنڈ کے پاس وائی ایم سی اے گراؤنڈ ہوا کرتا تھا، اس کی کیا خبر ہے۔ ناظم بڑا میدان جہاں رمضان کر کٹ میں ٹسٹ میچ جیسا ہجوم ہوتا تھا وہ ہے بھی یا نہیں۔ کوچنگ سنٹر، بختیاری یوتھ سینٹر، گارڈن پر واقع پولیس گراؤنڈ، جی پی او کے بغل میں واقع ریلوے گراؤنڈ، کے جی اے گراؤنڈ، ہندو جیمخانہ، آغا خان جیمخانہ، مسلم جیمخانہ، کے پی آئی وغیرہ کس حال میں ہیں۔ کورنگی پانچ سے کے ایریا تک اور ناظم آباد بڑا میدان سے میٹرک بورڈ اور شہید ملت روڈ کے درمیان میں جو میدان تھے اور ڈرگ کالونی کے وہ میدان جو شارع فیصل سے نظر آتے تھے، وہ کب اور کس طرح غائب ہوئے۔ کیا کہیں اہل محلہ نے کوئی احتجاج کیا، یا کسی متبادل جگہ کا مطالبہ کیا ؟ آج سب روتے ہیں کہ ان کے بچوں کو صحتمند تفریح میسر نہیں ۔ ان کے بچے یا تو دہشت گرد تنظیموں کے آلہ کار بن گئے یا پان کی دکانوں کے آس پاس گٹکا اور مین پوری چباتے نظر آتے ہیں یا تنگ گلیوں کے بیچ سڑک گھیر کر ٹیپ ٹینس کرکٹ کھیلتے نظر آتے ہیں۔ کراچی جہاں سے پاکستان کو ظہیر عباس، جاوید میانداد، محسن خان ، یونس خان، شاہد آفریدی جیسے کھلاڑی ملے اور جو سب سے زیادہ بار قائداعظم ٹرافی جیتنے کا اعزاز رکھتا ہے، آج حال یہ ہے کہ پچھلے دنوں زمبابوے کی ٹیم پاکستان آئی تو اس میں پہلی بار کراچی کا کوئی کھلاڑی شامل نہیں تھا۔ گلی میں اینٹیں رکھ کر کھیلنے والے اور گٹکے کھانے والے بھلا بین الاقوامی معیار تک پہنچ بھی کیسے سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہر کے لوگ اکثر دفتر سے گھر جاتے ہوئے شام کے انگریزی اخبار ضرور لیتے جو وہ بسوں میں پڑھتے ہوئے جاتے۔ ڈیلی نیوز، ایوننگ اسٹار وغیرہ میں گئے دن کی تقریبات کی تصاویر ہوتیں یا نائٹ کلبوں کے اشتہار۔ ان میں نمایاں تصویریں کسی سرکاری یا غیر سرکاری عشائیے،کسی غیر ملکی سفارتخانے یا کمپنی کی دعوت، آرٹ گیلری میں تصویروں یا سنگتراشی کی نمائش، پھولوں کی نمائش ، کلاسیکی موسیقی اور رقص کے پروگرام مشاعرے یا کسی ادبی محفل کی تصویر یں وغیرہ ہوتیں۔
یہ سب پروگرام اور تقریبات زیادہ تر فلیٹ کلب ۔ فیضی رحمین آرٹ گیلری، آرٹس کونسل، امریکن کلچرل سینیٹر، کیٹرک ہال، ڈینسو ہال، خالق دنا ہال، تھیوسوفیکل سوسائیٹی، غالب لائبریری وغیرہ میں ہوتے۔ شہر کا ثقافتی کیلینڈر ان سرگرمیوں سے جگمگا رہا ہوتا۔ اب فلیٹ کلب، ٹھیوسوفیکل کلب،کیٹرک ہال وغیرہ کو تو شاید کراچی میں کوئی جانتا بھی نہ ہو۔ اب لے دے کے ایسے کلب رہ گئے ہیں جن میں صرف متمول طبقے کے لوگ ہی جاسکتے ہیں اور جن کی ممبرشپ فیس کئی لاکھوں میں ہوتی ہے۔ کراچی جیمخانہ، کراچی کلب، سندھ کلب، ڈیفینس سوسائٹی میں بنے بے شمار کلب جن کی سالانہ فیس پندرہ پندرہ بیس بیس لاکھ ہوتی ہے وہاں بھلا عام سے لوگ، فنکار وغیرہ جھانکنے کی ہمت بھی کیسے کرسکتےہیں۔ نہ ہی ان میں اس طرح کی تقریبات ہوتی ہیں نہ اس طرح کے باذوق لوگ۔ بس نودولتیوں کا ازدحام ، جن کی توجہ کھانے، پینے پلانے اور ناچ گانوں پر ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس شہر کی اصل خوبصورتی انگریزی دور کی گو تھک، راجھستانی اور مغل طرز تعمیر کی وہ عمارتیں تھیں جن سے پرانا شہر آباد تھا۔ یہ پرانا شہر جمشید روڈ ، عامل کالونی، پارسی کالونی، سولجر بازار، صدر، بندر روڈ، کوئنز روڈ، کلفٹن، میریویدر ٹاور، کیماڑی تک پھیلا ہوا تھا اور ایک سے ایک خوبصورت عمارت یہاں ہوا کرتی تھی۔ لیکن آہستہ آہستہ ہماری پیسے کی ہوس انہیں کھاتی گئی۔ جو عمارت پرانی ہوتی گئی اس کی مرمت اور تزئین نو کے بجائے اسے ڈھاکر بے ہنگم، بھدے اور بے ڈھنگے پلازے اور شاپنگ سینٹر بنا دئیے گئے۔ اگر شہری حکومت، یا شہر کے باسیوں میں جمالیاتی ذوق ہوتا تو یہ عمارتیں خوبصورت آرٹ گیلریوں، میوزیم ، کلچرل سینٹر، اور سماجی اور ثقافتی تقریبات کے مراکز میں تبدیل کی جاسکتی تھیں۔ جب یہ عمارتیں تقریباً تمام کی تمام منہدم کردی گئیں تو شاید متعلقہ اداروں کو ہوش آیا اور چند ایک کو قومی ورثہ قرار دے کر محفوظ کرںے کی بے تکی سی کوششیں کی گئیں، وہ اس طرح کی پوری عمارت ڈھا دی گئی صرف سامنے کا حصہ جو لب سڑک ہے وہ محفوظ رکھا ہے جو شہریوں کی جان کے لیے مستقل خطرہ ہے اور معمولی سے جھٹکےسے کسی وقت بھی نیچے گر سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ شہر تھا جہاں عیاش طبع اور رنگین مزاجوں کے لیے روما شبانہ، ایکسلسئیر، تاج۔ لیڈو، میٹروپول، گرانڈ، بیچ لگژری، کولمبس، پیلس ہوٹل اور نائٹ کلب وغیرہ تھے تو دین داروں اور صاحبان علم کے لیے حکیم سعید کی شام ہمدرد، الفلاح ہال میں غلام احمد پرویز یا ڈاکٹر اسرار احمد کے دروس ہوتے۔ جہاں عشرہ محرم میں علامہ رشید ترابی ایک ہی دن میں نشتر پارک، حسینیہ سجادیہ اور بڑا امام باڑہ کھارادر میں مجالس عزاء سے خطاب کرتے اور ایسے عزا دار بھی تھے جو پیدل چل کر ان تمام جگہوں پر مجالس میں شرکت کرتے اور ان میں ہر مکتب فکر اور ہر مسلک کے لوگ شامل ہوتے۔ یہیں جیکب لائن کی جامع مسجد میں جب شب قدر کو مولانا احتشام الحق تھانوی رقت آنگیز دعا مانگتے تو ان آہوں اور سسکیوں میں بریلوی، دیوبندی، سہل حدیث، وہابی اور اثنا عشری کی کوئی تفریق نہ ہوتی۔
یہ تھا وہ شہر دل فِگار اں، شہر یاراں کراچی جہاں زندگی ہردم جواں پیہم رواں رہتی تھی۔ آج اس شہر کا حال بے حال ہے۔ شہریوں کو یہی علم نہیں کہ شہر میں حکومت کس کی ہے۔ گھان کچرے کی طرح ادارے ہیں لیکن شہر کا کچرا اٹھانے کا کوئی ذمہ دار نہیں، مرکز میں جو حکمراں رہے ان کا تعلق اس شہر سے صرف اتنا ہے کہ یہاں کاروبار چلتا رہے تاکہ ملک کی آمدنی کا جو غالب حصہ یہاں سے ملتا ہے اس میں رکاوٹ نہ آئے اور اس آمدن سے وہ اپنے اپنے شہروں کو ترقی دیتے رہیں۔ نئی نئی سڑکوں جا ل بچھائیں، میٹرو بسیں اور جدید ٹرینین چلائیں۔ ان کی بلا سے اس شہر کے لوگ برباد ہوتے ہیں تو ہوتے رہیں، سکون کے لیے ترستے ہیں تو ترستے رہیں۔ ان کی ڈرامہ بازی اس شہر کے ساتھ البتہ جاری رہتی ہے کہ انہیں یہاں سے ووٹ بھی لینے ہوتے ہیں،۔ ابھی پچھلی بارشوں میں شہر میں شدید تباہی ہوئی جس کے ڈیڑھ ہفتے بعد محترم وزیراعظم چند گھنٹوں کے لیے کراچی تشریف لائے اور کراچی کے لیے گیارہ سو ارب روپے کے “ پیکیج “ کا اعلان کیا۔ لوگوں نے اس سخاوت پر تالیاں بجائیں۔ وزیراعظم محترم تو واپس تشریف لے گئے۔ ان کے ترجمان نے اگلے دن بتایا کہ اس میں سے تین سو ارب وفاقی حکومت دے گی ( ہم نے تالیاں گیارہ سو ارب کے لیے بجائی تھیں اور وزیراعظم زندہ باد کے نعرے لگائے تھے) تین سو صوبائی حکومت دے گی، دوسو ارب نجی اداروں سے لیے جائینگے اور باقی تین سو ارب کے بارے میں ، سوچیں ، گے کہ کس طرح حاصل کئے جائیں گے۔ چلیں اس طرح بھی ہوتا توغنیمت تھا، آج تین ماہ سے اوپر ہوگئے ، گیارہ سو ارب ایک طرف، مرکزی اور صوبائی حکومت کے تین تین سو ارب ایک طرف، ایک سو ارب ، بلکہ ایک ارب کیا ایک روپیہ بھی اب تک کہیں نظر نہ آیا نہ کوئی اقدام ہوتا کسی نے دیکھا۔ نہ ہی کوئی پوچھنے والا ہے کہ کیا ہوا تیرا وعدہ، وہ قسم وہ ارادہ۔
یہ یہ تماشہ گری ، یہ ڈرامے بازی، جھوٹ، مکر فریب موجودہ حکومت نے ہی نہیں کیا۔ پچھلی حکومتیں چاہے وہ نواز شریف کی ہو، بے نظیر کی ہو یا زرداری کی سب کا طرز عمل کراچی کے بارے میں یکساں ہے۔ اور ان سے کیا شکایت کریں کہ ان کا تو کام ہی یہ ہے۔ اس شہر کے شہری جو خود کو بہت باشعور کہتے ہیں وہ جب تک ٹھنڈے پیٹوں ان کو برداشت کرتے رہینگے ان کے ساتھ یہی ہوگا۔
اس شہر میں ایک بلدیہ ہے، ایک کے ڈی اے ہے یعنی ادارہ ترقیات کراچی ۔ کراچی صرف ان میں ہی نہیں بٹا ہوا۔ واٹر بورڈ الگ ہے اور بجلی کا محکمہ ایک لٹیرے نجی ادارے کی ملکیت ہے۔ ائیرپورٹ کے آس پاس کا انتظام وانصرام ایک اور ادارے کے ہاس ہے جس میں بلدیہ کراچی کا کوئی داخل نہیں۔ پھر ہمارے بادشاہ لوگوں کی ڈیفینس ہاؤسنگ اتھاریٹی ہے جہاں قدم رکھتے ہوئے فرشتوں کے پربھی جلتے ہیں، دنیا کے کسی شہر میں اس قسم کا تماشہ نہیں ، لیکن ہمارے شہر میں یہ بھی ہے اور ڈنکے کی چوٹ پر ہے۔ پھر انہی کے بھائی بندوں کی ، کنٹونمنٹ اتھاریٹیز ہیں ، جہاں بلدیہ کراچی اور دوسرے ادارے قدم نہیں رکھ سکتے، ملیر کینٹ، ڈرگ کینٹ، کلفٹن اور کورنگی کریک ان سب کے بادشاہ الگ ہیں۔ ان پندرہ بیس اداروں کے بیچ یہ شہر ناپرساں چوں چوں کا مربہ بنا ہوا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئیے کہ اتنے ادارے مل جل کر اس شہر کی تعمیر کرتے، اسے خوبصورت بناتے لیکن یہ سب مل جل کر اس شہر کی بربادی میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
کراچی اہل پاکستان کا مائی باپ ہے۔ یہ سب کو پناہ دیتا ہے اور ملک کے ہر حصے کے لوگ یہاں اپنے خوابوں کی تعبیر پاتے ہیں۔ محنت مزدوری کرتے ہیں ۔ اپنی بہنوں کے ہاتھ پیلے کرتے ہیں، بوڑھے ماں باپ کے لئے چھت مہیا کرتے ہیں ، بچوں کو اچھی تعلیم دلواتے ہیں ۔ یہ شہر ان سب کو مرغی کی طرح اپنی پناہ میں لیتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ان میں سے اکثریت یہاں کی مستقل رہائش رکھتے ہوئے بھی اسے اپنا گھر نہیں مانتے اور جب مردم شماری ہوتی ہے تو اپنا شمار اپنے آبائی علاقوں میں کرواتے ہیں، ملکی وسائل میں ان کا حصہ وہاں پہنچا دیا جاتا ہے اور جہاں یہ اصلا رہتے ہیں وہ شہر اس سے محروم رہتا ہے۔ یہ شہر سب کا ہے اور سب کو اپنی آغوش میں لے لیتا ہے لیکن کوئی بھی اسے اپنا نہیں سمجھتا۔ کوئی بھی اسے اپناتا نہیں۔
بہت سی باتیں شاید اس طرح نہ ہوں ۔ بہت کچھ شاید بہتر بھی ہوگیا ہو ۔ آجکل آپ کراچی جائیں تو شاید میری باتیں آپ کو جھوٹ لگیں۔ لیکن کبھی کراچی میں آدھا گھنٹہ مستقل بارش ہو تو آپ کراچی دیکھئے گا۔ اس دوران اگر شہر اور شہری سہولتیں آپ کو کہیں نظر آئیں تو مجھے بھی بتائیے گا۔
پس چہ باید کرد ای ساکنان کراچی
ان تمام مسائل کا حل کیا ہے؟ ان کا حل میرے پاس نہیں نہ آپ کے پاس ہے۔ ان کا حل ، ہمارے ، پاس ہے اور وہ یہ ہے ، ہم ، سب اپنے احساس کو بیدار کریں۔ برائی کو گر ہاتھ سے روکنے کے طاقت نہیں، زبان بھی معذور ہے تو کم ازکم دل سے ضرور برا سمجھیں۔ لیکن یہ بے حسی ہمیں کہیں کا نہ چھوڑے گی۔
موت کی پہلی علامت صاحب
یہی احساس کا مر جانا ہے

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔