میڈم نوین :تاریک راہوں میں مزاحمت کی لوء۔۔گوتم حیات

یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں عاصمہ جہانگیر کا دھواں دار خطاب جاری تھا۔۔۔ وقفے وقفے سے عاصمہ جہانگیر کی کسی اہم بات پر میں ڈیسک بجا کر ان کی باتوں کی تائید کر رہا تھا۔ میں جب ڈیسک بجاتا تو بھرے ہوئے آڈیٹوریم میں کچھ دوسرے لوگ بھی حوصلہ پا کر تالیاں بجانے لگتے۔ ان کے خطاب کے دوران، میں جب خوش ہو کر ڈیسک بجاتا تو میرے آگے والی نشست پر بیٹھی ہوئی دو خواتین مجھے پیچھے مُڑ کر دیکھتیں اور خوشی کا اظہار کرتیں۔۔اُس وقت جب وہ سیمینار ابھی چل رہا تھا تو میں ان دو خواتین کے نام سے ناواقف تھا اور میں اس بات سے بھی بےخبر تھا کہ ایک سال بعد وہ مجھے تاریخ پڑھائیں گی۔ کلاس میں لیکچرز کے دوران میں ان کی کچھ باتوں سے اختلاف کرتے ہوئے بغیر کسی خوف کے اُن سے الجھوں گا، انہیں کہوں گا کہ نہیں میڈم ایسا نہیں ہے، یہ بات تاریخی طور پر مجھے درست محسوس نہیں ہو رہی، ایسا کیسے ممکن ہے۔نہیں میں اس نظریے کو نہیں مان سکتا اور وہ مجھے کہیں گی “عاطف آپ سے تو بحث ہی بیکار ہے، آپ کیوں نہیں مان رہے اس بات کو، تاریخی طور پر اُس زمانے میں یہی ہوا تھا، وہ زمانہ بہت بیک ورڈ تھا۔”

اس وقت مجھے بار بار وہ پہلی ملاقات یاد آرہی ہے، جب میں ان کو جانتا نہیں تھا اور وہ میرے ڈیسک بجانے پر مسرور تھیں، انہیں اس بات کی بھی خوشی تھی کہ   طلبا میں کوئی تو ہے جو اس آڈیٹوریم میں جمعیت کے خوف کو پسِ پُشت ڈال کر عاصمہ جہانگیر کی حمایت کر رہا ہے۔

کرونا ڈائریز:کراچی کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(پہلا دن)۔۔۔گوتم حیات

سیمینار ختم ہوا تو میں صائمہ کے ڈیپارٹمنٹ گیا، اسے حرف بہ حرف عاصمہ جہانگیر کے خطاب کی ساری روداد سنائی کہ آڈیٹوریم میں جمعیت کے  طلبا  کا قبضہ تھا، کچھ نقاب پوش لڑکیاں حقارت سے مجھے تکتی تھیں، جب میں عاصمہ جہانگیر کی کسی بات کی تائید میں ڈیسک بجاتا تھا اور پھر میں نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ یہ جو خاتون ابھی تمہارے ڈیپارٹمنٹ میں آئی ہیں یہ بھی وہاں تھیں اور اتفاق سے یہ میری آگے والی نشست پر اپنی کسی دوست کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں، انہوں نے مجھے اس وقت دیکھ کر بیحد خوشی کا اظہار کیا تھا۔ میں نے اپنی بات ختم کی تو صائمہ نے مجھے بتایا کہ
“عاطف یہ میڈم نوین ہیں، ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں تاریخ کی استاد ہیں، بہت ہی بولڈ ہیں، عام استادوں سے ہٹ کر ہیں، پچھلے کچھ دنوں سے تو میں ان کے ساتھ اسلام سمیت دوسرے مذاہب کے بارے میں بھی کھل کر گفتگو کر رہی ہوں، آؤ میں تمہیں ان سے ملواتی ہوں اور پھر صائمہ مجھے ان کے آفس روم میں لے کر گئی تھی۔”

آج اس بات کو گیارہ، بارہ برس بیت چکے ہیں لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ  یہ کل کی بات ہو۔۔۔ اور ہم لوگ میڈم نوین کے آفس میں ان سے عاصمہ جہانگیر کے آڈیٹوریم والے خطاب پر تبادلہ خیال کر رہے ہوں۔ اس کے بعد ہماری انگنت ملاقاتیں ہوئیں، دوسال تک ریگولر انہوں نے ہمیں پڑھایا، یونیورسٹی کی تعلیم ختم ہونے کے باوجود ہم لوگ کسی نہ کسی مسئلے پر ان سے ملتے رہے۔۔۔ شہر اور یونیورسٹی کے کسی بھی اہم اور سنسنی خیز موضوع پر ان کی رائے جان کر ہم ہمیشہ خوش ہوتے تھے  اور اب تو ہم یہ بھی نہیں کر پائیں گے کہ آپ ہمیشہ کے لیے رخصت ہو چکی ہیں۔

2020 کا اختتام ہو چکا ہے، آج4 جنوری 2021 ہے۔۔۔ مجھے اس وقت 2018 کے دسمبر کی وہ سہانی شام یاد آرہی ہے،  جب میری ٹیچر ارم نے مجھے فون پر بتایا تھا کہ ہم لوگ نئے سال کو خوش آمدید کہنے کے لیے 31 دسمبر کی شام کو میڈم نوین کے گھر پر جمع ہو رہے ہیں، کچھ نئے  سٹوڈنٹس ہوں گے، اگر تم فری ہو تو لازمی آنا۔ تمہارا وقت بھی اچھا گزر جائے گا، ان کی بات سن کر میں نے فوراَ ہی حامی بھر لی تھی کہ ہاں میں ضرور آؤں گا۔

اردو ادب کا شمس۔شمس الرحمن فاروقی۔۔ڈاکٹر فریدہ تبسم

31 دسمبر کی شام میں مِس ارم کے ساتھ جب میڈم نوین کے فلیٹ پر پہنچا تو وہاں عجیب ہی سماں تھا، کچن سے آنے والی مختلف کھانوں کی خوشبوئیں یہ بتا رہی تھیں  کہ میڈم نے خوب اہتمام کر رکھا ہے، کمرے کی دیواروں پر سجاوٹ کے لیے بھی رنگ رنگ کی جھنڈیاں، رِبن اور غبارے چار سو بکھرے ہوئے تھے۔۔۔ کچھ ہی دیر میں سب   طلبا  آگئے تو پھر ہم سب نے مل کر کمرے کو نئے سرے سے سجایا تھا۔ میڈم نے ہم سب کے لیے فُل سائز کے مگ کو ٹافیوں سے بھر کر انہیں گفٹ پیپرز سے پیک کر دیا تھا اور ہمیں یہ تاکید کی گئی تھی کہ ایک ایک مگ آپ لوگ اپنے ساتھ لے کر جائیں گے۔۔۔ وہ مگ آج بھی میرے پاس نشانی کے طور پر رکھا ہوا ہے اور اس میں بھری گئی ٹافیاں تو میں نے کچھ دنوں میں ہی کھا کر ختم کر دی تھیں۔

سال کی وہ آخری شام جب شب میں بدلی تو ہم لوگوں نے ڈنر کیا اور پھر دو گاڑیوں میں “سی ویو” کے لیے نکل گئے۔ راستے میں کہیں کہیں ٹریفک جام تھا لیکن اس کے باوجود ہم بارہ بجنے سے کچھ دیر پہلے “سی ویو” پر پہنچ گئے تھے۔ وہاں پر لوگوں کی بھیڑ تھی، ایک جم غفیر تھا جو غازی کے مزار سے ویلیج اور اس سے بھی آگے تک پھیلا ہوا تھا۔میڈم نوین اور ہم سب اس بات پر شاداں تھے کہ شہر کے حالات اب اس قابل ہو گئے ہیں کہ ہم بلا خوف و خطر آرام سے گھوم پھر سکتے ہیں۔ ابھی یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ ایک دم پٹاخوں کی گونج دار آوازوں نے ہمیں چونکا دیا، پٹاخوں کی یہ آوازیں اس بات کا ثبوت تھیں کہ بارہ بج چکے ہیں اور2019  کا آغاز ہو چکا ہے۔

میڈم نوین کو زندگی اور اس سے وابستہ ہر اُس چیز سے والہانہ محبت تھی جس سے ان کو خوشی ملتی تھی، اسی لیے وہ مختلف مذہبی تہوار کے ساتھ ساتھ ثقافتی تقریبات و تہواروں کو بھی شایانِ شان طریقے سے سیلیبریٹ کرتی تھیں۔ ہماری ایم اے کی کلاس کا ماحول قدامت پسندانہ تھا، زیادہ تر طالبعلموں کا رجحان مذہبی بنیاد پر تعصّب کا شکار تھا لیکن یہ میڈم نوین کی انتہائی روشن خیال فکر تھی کہ انہوں نے کلاس روم میں مذہبی ہم آہنگی و رواداری کا بیج بویا اور جب مارچ کا مہینہ آیا تو ہم سب نے اُن کے ساتھ مل کر نوروز کا تہوار بھی منایا۔ اُس دن مجھ سمیت بہت سے طالبعلم اپنی زندگی کا پہلا نوروز منا رہے تھے۔

یہ میڈم نوین ہی تھیں جنہوں نے ہر قسم کی مخالفت کے باوجود کلاس کے سب لڑکے، لڑکیوں کو اس بات کے لیے قائل کیا تھا کہ ہمیں بھی دنیا بھر میں جاری سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہونے والی “وال اسٹریٹ موومنٹ” کا حصہ بننا چاہیے، آج نہیں تو کل، اس جابرانہ نظام کا خاتمہ ہو کر رہے گا، آخر کب تک ہم آئسولیشن کا شکار رہ سکتے ہیں۔

یہ اکیسویں صدی کی نئی دنیا ہے، اگر آج کسی ایک ملک میں قیامت برپا ہو گی تو اس کا اثر یقینی طور پہ ہم پر بھی پڑے گا۔۔۔ مجھے ابھی تک یاد ہے وہ دن جب میڈم کے ان الفاط نے سارے ڈیپارٹمنٹ میں آگ لگا دی تھی، ایک کھلبلی مچ گئی تھی، ہم سب لڑکے، لڑکیاں میڈم کی رہنمائی میں سرمادارانہ نظام کے خلاف ہونے والے احتجاج کو حتمی شکل دینے کے لیے جُت گئے تھے، طالبعلموں کے گروپوں نے اپنے ذمے کام بانٹ لیے، کوئی میٹنگ ارینج کر رہا ہے تو کسی نے بینر اور پوسٹر بنانے کے لیے خود کو پیش کر دیا۔۔ڈیپارٹمنٹ کی لائبریری اور کلاس روم میں جہاں دیکھو ہر کوئی سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ دینے کے خلاف سراپا احتجاج بنا بیٹھا تھا، میڈم نوین نے ہمیں اردو کے معتبر شاعروں کے وہ اشعار بھی بتائے جو سرمایادارانہ نظام کے خلاف تھے، میڈم کا کہنا تھا کہ یہ اشعار ہمارے پیغام کو دور دور تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کریں گے، اس لیے آپ لوگ ان اشعار کو ہرگز نظرانداز نہ کیجیے گا۔ آخر وہ دن بھی آیا جب ہم سب لوگ اپنے اپنے احتجاجی بینرز اور پوسٹرز لیے صدر کی شاہراہ پر جمع ہوئے اور پریس کلب کی طرف مارچ کا آغاز کیا۔۔ اُس دن کئی لڑکے، لڑکیاں پہلی بار کسی سیاسی و سماجی تحریک کا حصہ بن کر یونیورسٹی کی محفوظ چار دیواری سے نکل کر سڑکوں پر آئے تھے۔ اس بات کا بھی کریڈٹ میڈم نوین کو جاتا ہے کہ انہوں نے طالبعلموں کے جامد ذہنوں میں سیاسی شعور و مزاحمت کی شمع روشن کر کے انہیں عملی طور پر متحرک کر دیا تھا، وہ عملی طور پر کام کرنے کو ہی مقدم جانتی تھیں، انہیں ہمیشہ اس بات کو دیکھ کر دکھ ہوتا تھا کہ ہماری درسگاہوں میں اساتذہ بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں، بڑے بڑے موضوعات پر لیکچر دیتے ہیں لیکن عملی طور پر وہ ہر اس چیز کی نفی کرتے ہیں جس کا اظہار وہ بذات خود اپنی تحریروں اور لیکچروں میں کرتے آئے ہیں۔ بہت سے دانشور حضرات تو بےضمیری کی سی زندگی گزار رہے ہیں، یہ ڈبل اسٹینڈرڈ ہیں اور انہی ڈبل اسٹینڈرڈ نے ہمارے معاشرے کو فکری طور پر مفلوج بنا کر رکھ ریا ہے۔

طبقات اور انسانی حقو ق محکوم۔۔ابھے کمار

میڈم نوین کلاس روم سے باہر بھی ہر وقت اپنے طالبعلموں کے لیے دستیاب رہتی تھیں ، ان کا کہنا تھا کہ میں ایک استاد ہوں اور اس حیثیت سے کلاس روم کے باہر بھی اگر آپ لوگ مجھ سے کسی بھی مضمون یا موضوع پر کچھ پوچھنا چاہیں تو میں حاضر ہوں اور اتوار کے دن آپ لوگ میرے گھر پر بھی آسکتے ہیں۔
کچھ سال پہلے میڈم نوین کو ایک سینئر پروفیسر کی طرف سے جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے فوری طور پر اس کی شکایت کر دی، ہر طرف سے آوازیں آنے لگیں کہ وہ تو اتنے برگزیده پروفیسر ہیں، کیسے کسی کو ہراساں کر سکتے ہیں، ضرور انہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے، لیکن اس سنگین جرم کو نظر انداز کرنا یا غلط فہمی کہہ کر مصلحت پسندی کا لبادہ پہنا کر، چُپ کا روزہ رکھنا میڈم نوین جیسی ہستی کے لیے ناقابلِ قبول تھا۔۔۔ وہ اپنے موقف پر ڈٹ گئیں اور آخر کار کیس یونیورسٹی کے کیمپس سے نکل کر شہر کے محتسبِ اعلیٰ کے پاس جا پہنچا۔ کیس کی سماعت کے دوران اور اس کے بعد بھی شیما کرمانی نے میڈم نوین کی بھرپور حمایت کی اور اس موضوع پر ایک ناٹک بھی تیار کیا جسے شہر کے چوراہوں میں بطور احتجاج بھی پیش کیا گیا۔ کئی سماعتوں میں ہم لوگ بھی میڈم کے ساتھ شریک ہوئے اور صائمہ نے تو بطور گواہ محتسبِ اعلیٰ کے سامنے بیان بھی ریکارڈ کروایا، جس دن صائمہ نے اپنا بیان دیا تو واپسی پر میڈم نوین نے صائمہ کا شکریہ ادا کیا۔ میں یہاں پر صائمہ کے کالم کا ایک پیراگراف شامل کر رہا ہوں، یہ کالم میڈم نوین کی ناگہانی موت کے فوراً بعد صائمہ نے  ایک معاصر ویب سائٹ کے لیے لکھا تھا۔۔۔ اُس نے لکھا تھا کہ
“میں بھی میڈم نوین کی جانب سے ایک گواہ کے طور پر پیش ہوئی اور اس ذلت کو پہلی دفعہ محسوس کیا جو میڈم نوین کئی مہینوں سے جھیل رہیں تھیں۔ اس روز جب سماعت ختم ہوئی اور ہم سندھ سیکرٹریٹ سے باہر نکلے تو میڈم نوین اور ثمینہ سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے بارہا میرا شکریہ ادا کیا اور ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آپ نے اپنے بہت سے دوستوں کو ناراض کر دیا ہے میری وجہ سے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں نے جس چیز کو درست جانا ہے وہی کیا ہے اگر میں دلی طور پر مطمئن نہ ہوتی تو آج آپ کے ساتھ اس جگہ نہ کھڑی ہوتی”۔

یہ کیس کئی سماعتوں تک چلا اور آخرکار میڈم نوین سرخرو ہوئیں۔ اسی کیس کے دوران میڈم نوین کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھئی میں تو اب اس دوراہے پر کھڑی ہو چکی ہوں کہ میرے اپنے لوگ مجھے خاموش ہو جانے کا مشورہ دے رہے ہیں، یونیورسٹی کے جو کولیگ پروفیسر میرے ساتھ مختلف سماجی و سیاسی مسائل پر احتجاجوں میں شرکت کرتے تھے وہ بھی اب مجھ سے کترا رہے ہیں۔
ایسے میں شیما کرمانی جیسی اہم شخصیت اور صائمہ جیسی لڑکیوں کی حمایت مجھے حوصلہ دیتی ہے کہ میں اپنے موقف پر قائم رہوں۔ یہ سچ بھی تھا کہ یونیورسٹی کی جن لڑکیوں کو اُن پروفیسر نے ہراساں کیا تھا وہ بھی خاموش تھیں، ایک لڑکی جو کبھی میری کلاس فیلو رہ چکی تھی، اکثر ہمیں بتایا کرتی تھی کہ وہ پروفیسر مجھے بہت تنگ کرتے ہیں، رات کے تین، تین بجے مجھے کالز کرنے لگے ہیں، میں بہت مشکل سے سب کچھ برداشت کر رہی ہوں، کچھ کہہ بھی نہیں سکتی کہ کہیں وہ مجھے فیل نہ کر دیں۔۔۔۔ میڈم نوین کے کیس کی سماعتوں کے دوران جب بطور گواہ میں نے اسے پیش ہونے کے لیے کہا تو اس نے صاف انکار کر دیا۔ مجھے اس کے انکار پر بہت حیرت ہوئی اور پھر اس معاملے پر میری اس سے اتنی بحث ہوئی کہ آخرکار ہماری دوستی ہی ختم ہو گئی۔

تاریخ کے دھاگوں میں نہ الجھائیے۔۔ انعام رانا

میڈم نوین کو تاریخ  پر عبور تو تھا ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ فن و ثقافت، موسیقی، جغرافیہ، مذاہب، جنس، صوفی ازم پر بھی دسترس رکھتی تھیں۔۔ایک بار انہوں نے بہادری کا مظاہرہ کر کے جنس کے بارے ميں بیحد طویل لیکچر بھی دیا تھا، اس لیکچر کے مندرجات مذہبی صحیفوں اور ہماری نام نہاد اخلاقی قدروں سے میل کھاتے تھے لیکن انہیں رتّی برابر بھی اس بات کی پروا نہیں تھی کہ طالبعلم ان کے بارے میں کیا سوچیں گے۔ وہ تو برستی ہوئی بارش کی پہلی پھوار سے مہکتی ہوئی زمین کا وہ ٹکڑا تھیں جنہیں مہکنے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ آخر وقت تک تاریک راہوں میں، درسگاہوں میں براجمان آمرانہ ذہنیت رکھنے والے دانشوروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مزاحمت کی لو ء کو روشن کیے رہیں۔
الوداع میڈم نوین، الوداع!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply