نرگسیت۔۔عارف خٹک

ڈاکٹر نے انجکشن لگانے کے لئےجیسے ہی میری آستین اُوپر  اُٹھائی،تو کلائی کے پاس جلنے کا پرانا زخم دیکھ کر پوچھنے لگا،کہ کس چیز کا نشان ہے؟۔
ڈاکٹر کو کیا بتاتا کہ سنہ 1997 کی وہ سرد رات کیسے بُھول سکتا ہوں۔جب میں اپنے کزن گُل محمد خان عرف رقیب روسیاہ کے ساتھ بیٹھا ہوا مارون گولڈ کے سوٹے لگا رہا تھا۔ اس دن میں نے سارے سستے برانڈز جیسے کے ٹو، ریڈ اینڈ وائٹ اور کیپسٹین سمیت کل ستر سیگریٹ پیے ہوں گے۔بھائی نے غم کا سبب پوچھا،تو بے اختیار مُنہ سے نکل گیا۔ “شیرین جان بی بی کے عشق نے آگ بھری ہوئی ہے اندر۔ یہ اسی کا دُھواں ہے”۔یہ کہہ کر بےبسی سے مکا اپنے سینے پر دے مارا۔ حالانکہ سچ یہ تھا کہ سیکنڈ ایئر میں پھر فزکس اور کیمسٹری کے پرچے فیل ہوگئے تھے۔اور ابا نے اس بار قسم کھائی تھی،کہ اس بار فیل ہوگیا تو ننگا کرکے سنجے دت جیسی لمبی زلفیں سارے گاؤں کے سامنے کاٹوں گا۔ سارا ڈپریشن اسی بات کا تھا۔
گُل محمد خان جو خود شیرین جان بی بی کا اُمیدوار تھا، کی  آنکھوں سے چنگاریاں نکلنے لگیں۔ پوچھا، “کتنا پیار کرتے ہو؟”۔سگریٹ کا طویل کش لے کر سارا دُھواں پھیپھڑوں میں اُتارتے ہوئے اک مدھوش سی کیفیت میں جواب دیا”اتنا پیار کرتے ہیں کہ اس کیلئے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔” ہمارے لہجے کی مضبوطی نے گل محمد خان کو ہلا کے رکھ دیا۔ کہنے لگا “تیرے عشق کو تب مانوں گا گر یہ جلتا سگریٹ خود پر بُجھا دو”۔ ہم نے فوراً اپنا ہاتھ آگے کیا اور اس ظالم روسیاہ نے جلتی سگریٹ ہماری کلائی پر رکھ دی۔ ہمارے اندر دُھواں سا بھر گیا۔تکلیف کی شدت سے آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔مگر اس خوف سے آہ تک نہیں کی،کہ کل گُل محمد نے گاؤں کے لونڈوں کے سامنے ہمارا مذاق اُڑانا ہے۔اگر ہماری کمزوری کی خبر شیرین جان بی بی تک پُہنچی،تو وہ بھی ہم پر ہنسے گی،اور اس کی بڑی بہن کے ساتھ بھی اپنا بریک اپ ہوجائے گا،کہ منحوس مارا اتنا بزدل نکلا۔ تھوڑی دیر بعد سگریٹ بُجھ گیا اور ہم تکلیف سے نڈھال ہوگئے،مگر مجال ہے کہ ہمارے منہ سے سسکی تک نکلی ہو۔ گل محمد خان حیران و پریشان بلکہ شکست خوردہ ہوکر چلا گیا۔ جب ہمیں یقین ہوگیا کہ گل محمد خان چلا گیا ہے۔ تو زمین پر لوٹ پوٹ ہوکر ہم نے وہ چیخیں ماریں جیسے کوئی بیوہ دوسری بار بیوگی کا دُکھ سہے۔۔
اگلے دن گاؤں کے لونڈوں سے بذریعہ زبانی کمیونیکشن جب یہ بات شیرین جان بی بی تک پہنچی،تو سر پر کچرے کا ٹوکرا اٹھائے وہ ہماری طرف دیکھ کر مسکرائی۔ ہم سمجھ گئے کہ عشق کا دُھواں بالآخر اس تک پہنچ چکا ہے۔
پورا دن سوچا کیے کہ اب شیرین جان بی بی سے رابطہ کرکے حال دل کیسے پہنچایا جائے۔کیونکہ وہ چٹی اَن پڑھ اور ہم کیڈٹ کالج کے فیل یافتہ۔بہت سوچنے کے بعد بین الاقوامی زبان کا سہارا لیا۔ والدہ حضور نے کسی بات کی منت مانی ہوئی تھی۔سو دوپہر کو اصیل مرغ ذبح ہوا تو ہم نے بھی فائدہ اُٹھاتے ہوئے گرم گرم خون میں قلم ڈبو کر ایک سفید کاغذ پر دل بنایا۔اور ایک تیر اُس دلِ ناتواں کے آر پار کرڈالا۔ شام کو پنگھٹ پر وہ کاغذ پھینک دیا۔وہ پانی کا مٹکا بھر رہی تھی۔لہجے میں نہایت ہی محبت سمو کر بول پڑے۔”ہم نے اپنے خون سے دل بنا کر بھیجا ہے سنبھال کر رکھیے گا”۔ وہ نمناک آنکھوں سے دیکھ کر فقط اتنا بولی “اتنی محبت مت کرو فرہاد،ہم سے کہ کل ہم اس کا جواب دیتے ہوئے اپنی جان تک دے دیں”۔
آج کل شیرین جان بی بی گل محمد خان کے آٹھ بچوں کی ماں ہے۔
کل سے بستر پر پڑا کراہ رہا ہوں۔ بیگم گھر پر نہیں ہے ۔اور جیسے ہی فون کرتی ہے، تو میں ایسی آوازیں نکال نکال کر آہیں بھرتا ہوں،جیسے میرا آخری وقت آن پہنچا ہو۔ کبھی سانس روک لیتا ہوں کبھی “آئی وئی” کی قابل اعتراض آوازیں نکالتا ہوں کہ بیچاری بے بسی سے رو پڑتی ہے کہ “جان آئی ایم سوری میں تم سے دُور ہوں۔ مُجھے سمجھ نہیں آرہا میں تیرے لئے کیا کروں”۔ پھر تھوڑی دیر بعد کہتی ہے “جانو میں کتنی بُری ہوں آپ سے ہر وقت لڑتی جھگڑتی ہوں۔ آئندہ آپ میرے ساتھ جو بھی کروگے اُف تک نہیں کروں گی۔ پرامس”۔
دو تین محبوبائیں کل سے اتنی پریشان ہیں جیسے میں بیمار نہیں ہوا ہوں بلکہ ان کی خالائیں مر گئیں ہوں۔ پل پل خبر رکھنا اور اپنی محبت کا یقین دلانا اور آخر میں یہ کہنا “میری عمر بھی لگ جائے میرے چاند کو”۔
اندر ایک کمینی سی خوشی محسوس ہونے لگتی ہے،دل کرتا ہے ایسا ہی سب کچھ یوں چلتا رہے اور میں توجہ کا طالب دانشور ایسے ہی نرگسیت کے مزے لیتا رہوں!

Facebook Comments