• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پشتونوں کا جینیاتی مطالعہ اور حقیقت۔۔ملک گوہر اقبال خان رماخیل

پشتونوں کا جینیاتی مطالعہ اور حقیقت۔۔ملک گوہر اقبال خان رماخیل

ڈی این اے کی دریافت “میشر” نے 1869 میں کی تھی اور اسے مواد میں پائے جانے والے خلیہ سے نکالا تھا۔ “ایوری،میکلیارڈ اور مکارٹی”نے اس کے موروثی مادہ ہونے کا ثبوت فراہم کیا تھا۔ جبکہ 1953 میں”ڈی واٹسن اور کرک” نے مل کر اس کی پہلی جامع تھیوری دی تھی۔ جس پر انہیں نوبل پرائز سے نوازا گیا تھا۔
عزیزانِ من۔ تمہیدی سطور کو پڑھ کر آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میرا روئے سخن آج علم جینیات کے طرف ہے۔ گزشتہ دنوں محترم امجد علی سحاب صاحب کی ایک تحریر پڑھ کر معلوم ہوا کہ پختونوں کے نسلی تاریخ کی گتھی سلجھانے کے لیے علم جینیات کے میدان کی خاک چھان کر ایک صاحب نے تحقیق کی ہے جو کتابی شکل میں شائع کی گئی ہے۔ جس کا نام”پشتونوں کا جینیاتی مطالعہ” ہے۔ کتاب کے میرے ہاتھوں تک پہنچنے میں کافی دن لگ گئے کیوں کہ میری رہائش آج کل روالپنڈی میں ہے اور یہ کتاب صرف پشاور اور سوات کے بک سٹالز کی زینت بنی ہے۔ آج کتاب پڑھنے کے بعد کتاب کے مصنف ڈاکٹر محمد الیاس سیٹھی صاحب کی خدمت میں چند گذارشات پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ امید ہے کہ میری یہ جسارت مصنف کے طبع نازک پر گراں نہیں گزرے گا۔ کتاب کے ابتدائی پانچ ابواب میں ڈاکٹر صاحب نے جینیات کے اصطلاحات، متعلقات اور مقاصد پر سیر حاصل بحث کی ہے جس کے ہم من و عن قائل ہیں۔ کیوں کہ ڈاکٹر صاحب اس میدان کے شہسوار ہے۔ لیکن چھٹے باب میں پختونوں کی تاریخ اور تہذیبی پس منظر کو ڈاکٹر صاحب نے اپنے غیض و غضب کا نشانہ بنایا ہے۔ سب سے پہلے تو ڈاکٹر صاحب کو پختونوں کا بنی اسرائیل ہونے پر تحفظات ہیں وہ لکھتے ہیں کہ پختونوں کا بنی اسرائیل ہونے کا قدیم تحریری سند ابو الفضل کی آئین اکبری ہے۔

زہر جو خٹکزینے میں پھیلتا جارہا ہے۔۔عارف خٹک

اس کے بعد وہ اسرار الافغان اور مخزن افغان کا ذکر کرکے ” نعمت اللہ ہروی” کی کتاب تاریخ خان جہانی ومخزن افغانی کو کٹہرے میں کھڑا کرکے الزام لگاتے ہیں کہ نعمت اللہ ہروی نے کسی کی فرمائش پر پختونوں کو بنی اسرائیل ثابت کرنے کا نظریہ گھڑا ہے۔ میری گزارش ڈاکٹر صاحب سے یہ ہے کہ براہِ کرم آپ صرف علم جینیات کی حد تک محدود رہیں کیوں کہ تاریخ پر آپ کی نظر کمزور ہے۔ سب سے پہلے تو یہ بات بالکل جھوٹ ہے کہ آئین اکبری پختونوں کی قدیم تحریری سند ہے۔ دوسری بات یہ کہ نعمت اللہ ہروی نے پختونوں کو بنی اسرائیل ثابت کرنے کا نظریہ گھڑا ہے یہ ایک صریح بہتان ہے کیوں کہ ہروی صاحب سے بھی صدیوں پہلے” ابو سلیمان البناکتی نے” 717ہجری میں اپنی کتاب میں افغان قبائل کا بنی اسرائیل کی اولاد ہونا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ تیسری بات کہ ہروی صاحب نے یہ سب کچھ مغل اور ایرانی امراء کے تضحیک آمیز باتوں کے ردعمل میں کیا اور اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اس نے اپنے مخالفین کے منہ بند کردیے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ہروی صاحب نے جھوٹ گھڑنا تھا تو اس نے پختونوں کو کسی زورآور قوم کے ساتھ کیوں نہ جوڑا مثلاً عثمانی ترک جن کی سلطنت ان دنوں عروج پر تھی اور جن کے خوف سے پوری دنیا لرزتی تھی۔ بنی اسرائیل تو ان دنوں دنیا کی ذلیل وخوار قوم تھی جو در در کے دھکے کھاتے پھرتی تھی اور جن پر سیدنا مسیح ابن مریم کی زبان سے لعنت پڑی ہو اور جو خدائے قہار کی  جانب سے غضب کا مستحق قرار پائی ہو بھلا ایسی قوم کے ساتھ خود منسوب کرنے میں کونسا دنیاوی فائدہ تھا؟ بہرحال ڈاکٹر صاحب مزید لکھتے ہیں کہ اس نظریے کا نقصان یہ ہوا کہ بعد کے مؤرخین کے لیے ایک بے بنیاد محاذ کھل گیا اور اصل تاریخ پھر سے دھند لکے میں گم ہوگئی۔ تو اس کے جواب میں ہم ڈاکٹر صاحب سے سوال کرتے ہیں کہ براہِ کرم وہ اصل تاریخ آپ ہمیں بتا کر ہم پر عظیم احسان فرما دیجیے۔ اس کے بعد مصنف ایک سوال یہ اٹھاتا ہے کہ کسی ایک آدمی کو بھی اپنے آباؤ اجداد کے بارے میں چند پیڑیوں پیچھے کا پتہ نہیں ہوتا اور ہروی صاحب نے سلسلہ قیس عبد الرشید سے شروع کرکے بڑی آسانی سے طالوت پھر یعقوب سے ہوتا ہوا آدم تک پہنچا دیا۔ اس کا جواب مفصل اور بہت طویل ہے اور چوں کہ تاریخ پر آپ کی نظر کمزور لہذا آپ اس کے سمجھنے سے بھی قاصر ہیں آپ بس اتنا سمجھ لیجیے کہ جس ذرائع سے آپ کو پتہ چلا ہے جو آپ نے کتاب کے صفحہ 46 پر لکھا ہے کہ میرے آباؤاجداد کئی صدیوں پہلے روس وافغانستان کے راستے کاروبار کرتے کرتے سوات کے علاقہ منجہ پہنچے۔ تو اس سے کہیں زیادہ معتمد ذرائع سے ہروی صاحب نے پختونوں کا شجرہ معلوم کیا ہے۔ دوسروں کو تو چند پیڑیوں پیچھے کا پتہ نہ ہو اور آپ کو صدیوں کا حال معلوم ہو کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ اور رہی یہ بات کہ افریقہ کے لوگوں کے ایک جیسے گنگھریالے بال موٹے ہونٹ ہیں ، اور چائنہ والوں کے چھوٹے ناک اور گول چہرے ہیں ،تو یہ بھی آپ کی غلط فہمی ہے اگر آپ کبھی  دھیان سے  دیکھیں تو چائنہ اور افریقہ والوں کے درمیان آپ کو ہمارے سارے لوگ ایک ہی ساخت کے نظر آئیں گے۔ گول چہرے اور لمبے چہرے جیسا تھوڑا بہت فرق تو چائنہ اور جاپان کے لوگوں میں بھی ہے۔ اور اس کا بھی کبھی صحیح تجزیہ کرلیں کہ کیا یورپ کے لوگ واقعی ایک ہی سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں؟ ہرگز نہیں۔

گوادر اور صفحہ قرطاس پر حقوق و انصاف کا خون۔۔نجیب اللہ زہری
عزیزانِ من۔ ساتویں باب میں ڈاکٹر صاحب نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ کہ پختونوں کا ڈی این اے یہودیوں سے میچ نہیں کرتا۔ اس کا تجزیہ کرنے سے پہلے آپ یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ ہر یہودی بنی اسرائیل تو ہو سکتا ہے لیکن ہر بنی اسرائیلی  یہودی نہیں ہے۔ بنی اسرائیل کا لفظ سیدنا یعقوب کے بارہ بیٹوں کی  اولاد کے لیے بولا جاتا ہے ،جبکہ یہودی صرف ایک بیٹے کی نسل کے لیے جس کا نام یہودہ تھا۔ اس لیے پختونوں کو یہودیوں کی نسل کہنا یا ثابت کرنا احمقانہ فعل ہے۔ 770 قبل مسیح میں جب بنی اسرائیل پر خدا کے عذاب کی مار پڑی تو یہ بارہ کے بارہ قبیلے جلاوطن کردیے گئے۔ ان میں سے بعد میں صرف دو قبائل یعنی یہودہ اور بنیامین کی اولادیں دوبارہ اپنے وطن میں آکر آباد ہوئیں تھیں ، باقی 10 قبیلے اس وقت سے ہی گم گشتہ قرار دیے گئے تھے۔ اور یہی وہ دو قبائل ہیں جو یہودی مشہور ہوئے اور جن پر خدا کا غضب تاقیامت رہے گا۔ تاریخ شاہد ہے کہ کتنی دفعہ  یہ لوگ غلام اور ان کی عورتیں لونڈیاں بنائی گئیں ۔ علم جینیات کے ماہرین کے لیے یہ بات قابل غور ہونی چاہیے کہ تاریخی لحاظ سے تو یہودی ڈی این اے سے زیادہ ان گم گشتہ بنی اسرائیل جن میں پختون قبائل شامل ہیں ، ان کا ڈی این اے زیادہ محفوظ ہیں۔ لہٰذا متنازعہ ڈی این اے کو اصل پر فوقیت دینا کہاں  کی عقلمندی ہے۔ بہرحال 64 صفحوں کی کتاب میں سے صرف 10 دس صفحات پر مشتمل” پشتون جینیات کے تناظر میں” کے عنوان سے ایک باب قائم کیا گیا ہے اور یہی وہ باب ہے جس میں پختونوں کا جینیاتی مطالعہ کیا گیا ہے ۔ اس پورے باب میں صرف ایک ہی ایسے ٹیسٹ کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں 22 پشتونوں کے ڈی این اے کے نمونوں کو 14 مختلف یہودی قبائل کے ڈی این اے کے ساتھ چیک کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اور یہ بتایا گیا ہے کہ ان 22 نمونوں میں کوئی بھی ایسا نہیں ملا جس میں کسی یہودی قبیلے کا ڈی این اے موجود ہو۔ تو یہ تو ایسا ہے جیسے 22 کروڑ پاکستانیوں کے مستقبل کا فیصلہ 2 جرنیل کرتے ہیں اور آپ نے کروڑوں پختونوں کا ماضی صرف 22 ڈی این اے کے نمونوں سے جوڑ لیا۔ بھئ یہ تو آمریت ہے یہ قابل قبول نہیں ہے۔ ایک سوال اس میں یہ اٹھتا ہے کہ وہ 22 پختون کس کس قبیلے سے تھے؟ اور صفحہ 40 پر اس کا اعتراف ڈاکٹر صاحب خود بھی کرتے ہیں لیکن جواب دیے بغیر آگے چل کر ایک اور تحقیق کا ذکر کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ جینیاتی مطالعہ کی  رو سےR1aہیپلوگروپ آریاؤں سے تعلق رکھتا ہے اور یہ گروپ سیدوں،گجروں،اعوانوں اور یوسف زئی وغیرہ میں پایا گیا ہے اور اس کے علاوہ پختونوں میں اور گروپس پائے گئے ہیں لہٰذا پختون ایک مخلوط قوم ہیں۔ اس کے جواب سے پہلے ڈاکٹر صاحب کے اپنے جینوم کی مضحکہ خیز رپورٹ ملاحظہ فرمائیں۔ صفحہ 47 پر جناب لکھتے ہیں کہ میرے جینوم کا زیادہ تر حصہ یورپین کے ساتھ مشابہت رکھتا ہے اور باقی ایشیا سے اور میرا جینوم انڈیا کے جینوم جیسا لگ رہا تھا جس سے یہ کنفرم ہوا کہ میرا تعلق جنوبی ایشیا میں رہنے والی  کسی قوم سے ہے اور اپنے جینوم کی “ایچ جی ڈی پی” کے ساتھ مشابہت دیکھنے کے بعد یہ واضح ہوا کہ میرا تعلق پشتون قوم سے ہے۔ یہاں انتہائی ادب کے ساتھ میں ڈاکٹر صاحب سے پوچھتا ہوں کہ جناب آپ کا جینوم تو زیادہ تر یورپین ہے اور جو تھوڑا بہت انڈین ہے وہ پشتونوں کے ساتھ ملتا ہے تو آپ یہ واضح کردیں کہ آپ یورپین پشتون ہیں ، یا مخلوط انڈین پشتون؟

ڈاکٹر صاحب کے طرزِ استدلال کو دیکھ کر مجھے ایسا لگا کہ  یا تو انہوں نے ڈی این اے کو صحیح طرح سمجھنے کی کوشش نہیں کی ہے یا پھر عوام کو بےوقوف خیال کرکے جان بوجھ کر اپنا دعویٰ ثابت کرنے کے لیے ایسے دلائل دیے ہیں جن کے  ماہرین جینیات کبھی قائل ہی نہیں رہے۔ مشرق ومغرب کے سارے ماہرین جینیات اس بات پر متفق ہیں کہ علم جینیات کبھی یہ نہیں بتاتا  کہ آپ کا ڈی این اے کہا ں سے آیا ہے بلکہ صرف یہ بتاتا  ہے کہ آپ کا جینوم فلاں فلاں ملک میں پایا گیا ہے۔ اور یہ بھی صرف ان کے اندازے ہیں ، جو سو فیصد تو دور بیس فیصد بھی درست نہیں ہوتے۔ آج دنیا بھر میں ڈھائی سو سے زیادہ ایسے ادارے قائم ہوئے ہیں جو جینوم کا مطالعہ کرتے ہیں مثلاً
Ancestry dna, my heritage, 23andme, family tree dna.etc
اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر آپ تین چار مختلف اداروں کو ڈی این اے سیمپل بھیج دیں تو ہر ادارہ آپ کو دوسرے سے مختلف رزلٹ دیتا ہے۔ کیوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سب کمپنیوں نے الگ الگ ڈیٹا اکھٹا کیا ہوتا ہے اور سب اپنے اپنے فہم سے جینوم کا جائزہ لیتے ہیں اور کہتے بھی ہیں ، کہ ہمارا رزلٹ یقینی نہیں ہے،ایک اندازہ ہے۔ آپ کبھی گوگل پرerorrs in DNA test سرچ کریں تو آپ کے چاروں طبق روشن ہو جائیں گے، آپ کے سامنے وہ سارے آرٹیکلز بکھر جائیں گے جن میں علمائے جینیات نے جینوم کا تجزیہ کرنے کے مختلف پہلوؤں پر جرح کی ہے۔ اور آپ کو ہزاروں ایسے آرٹیکلز پڑھنے کو ملیں گے جن پر سوالیہ نشان ہوتا ہے کہ میرے جینوم کا مختلف اداروں نے الگ الگ رزلٹ کیوں دیا؟ مثال کے طور پر ” چالسی اور کارلی” جو دو جڑواں بہنیں ہیں۔ دونوں اپنا اپنا ڈی این اے پانچ مختلف اداروں کو بھیج دیتی ہیں لیکن رزلٹ آنے پر دونوں کی پریشانی مزید بڑھ جاتی ہے کیوں کہ ہر ادارہ دوسرے سے مختلف رزلٹ بتاتا ہے حالانکہ جینیاتی نقطۂ نظر سے جڑواں بہنوں کا ڈی این اے ایک جیسا ہوتا ہے ۔ پھر بھی ایک کمپنی کہتی ہے کہ چالسی کا جینوم کارلی کے جینوم سے 10 فیصد کم یورپین ہے اور چالسی 3 فیصد فرنچ اور جرمن بھی ہے جبکہ اس کی بہن کارلی ایسی نہیں ہے۔ دوسری کمپنی کہتی ہے کہ دونوں بہنوں کا جینوم 60 فیصد بلقان کا ہے۔ تیسری کمپنی کہتی ہے کہ کارلی کا جینوم 3 فیصد انگلستانی ہے اور چالسی کا تھوڑا سا آئرلینڈ اور سکاٹ لینڈ رپورٹ ہوا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

انسانوں کے بغیر دنیا کیسی ہو گی؟ ایک سائنسی جائزہ۔۔          ملک محمد شاہد اقبال
عزیزانِ من۔ یہ ہے اس جینیاتی ٹیسٹ کا معیار جسے دلیل بنا کر ڈاکٹر صاحب نے پختونوں کو مخلوط ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ دراصل دو جینیاتی ٹیسٹ ایسے ہیں جو درست ہوتے ہیں ایک اس بچے کا جس کا ایک سے زیادہ افراد پدریت کے دعویدار ہو ں،تو ڈی این اے کے ذریعے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ بچے کا باپ کون ہے۔ دوسرا یہ کہ ہر انسان کی اپنی شناخت الگ ہوتی ہے اسی لیے قتل اور ریپ وغیرہ کے کیسسز میں مجرم کی پہچان یا مسخ شدہ لاش کی پہچان میں ہم ڈی این اے پر اعتماد کرسکتے ہیں۔ باقی رہا ہیپلوگروپ وغیرہ تو یہ سب جینیاتی سائنس کے اندازے ہیں ، اور ہم اسے سائنس کی خرافات بھی کہہ سکتے ہیں۔ کیوں کہ ڈاکٹر صاحب کتاب کے صفحہ 51 پر لکھتے ہیں کہ میرا وائی ہیپلوگروپ ” ایل ٹی” ہے جو 42600 سال پرانا ہے اور تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ سیدنا آدم ہی وہ پہلا انسان تھے   جو تقریباً دس ہزار سال پہلے دنیا میں تشریف لائے تھے۔ اس حساب سے ڈاکٹر صاحب کا ہیپلوگروپ سیدنا آدم سے 32600 سال پرانا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب بنی آدم ہی نہیں ہیں ۔ اب ہم ڈارون کی تھیوری کو تو جناب پر چسپاں نہیں کرسکتے اور نہ ہم سائنس کی ہر بات کو قبول کرسکتے ہیں کیوں کہ سائنس عقل کی مرہون منت ہے عقل سائنس کی تابع نہیں ہے۔ اس پوری کتاب کو پڑھ کر مجھے کہیں  بھی علمی خدمت نظر نہیں آئی ،اور نہ حقیقت تک پہنچنے کی غیر جانبدارانہ تحقیق نظر آئی۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک قوم کو تاریخی لحاظ سے متنازع بنانے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔۔ اور ان بے بنیاد دلائل کا سہارا لے کر پختونوں کے اتحاد کی چادر کو پارہ پارہ کرنے کی سازش کررہے ہیں۔

Facebook Comments