اپوزیشن کا سفینہ۔۔سعید چیمہ

اپوزیشن کا سفینہ ڈوب چکا،بلکہ  بہت پہلے ڈوب گیا تھا۔ گریہ زاری اب جاری ہے، سمت کا تعین کیا تھا ،نہ منزل کا نشاں تھا، اپوزیشن مگر پھر بھی کانٹوں بھرے رستے پر چل پڑی۔ تعصبات فراست پر غالب آ گئے، اپوزیشن کے ہمنوا اب آہستہ آہستہ کھسک رہےہیں، مٹھی سے ریت کی مانند۔ ڈھیٹوں کی مگر بات دوسری ہے، جو اب بھی اپوزیشن کو مزاحمت کا استعارہ سمجھتے ہیں۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ بلاول اور مریم سیاست کا دھارا بدل رہے ہیں، ایسے ناہنجاروں کو کون سمجھائے کہ محلات میں بیٹھ کر سیاست کے دھارے نہیں بدلے جاتے، ابراہم لنکن سے لے کر گاندھی و منڈیلا تک ،بڑے لیڈروں کی زندگی کے احوال سبھی کے لیے نوشتہ دیوار ہیں، کسی نے جیلیں کاٹیں تو کوئی اپنے ہی عوام کے زیرِ عتاب آیا۔ مقصد میں جب خلوص ہو تو قدرت اپنی طاقتوں کو متحرک کرتی ہے۔ اخلاص وہ انمول موتی ہے جو ہر کسی کی ملکیت میں نہیں ہوتا۔ اسلام کی عمارت کی بنیاد یں ہی خلوص پر اٹھائی گئی ہیں، ان میں سے کون ہے جو ہم عوام کے ساتھ مخلص ہے، کسی کو پارلیمنٹ کی یاد چین نہیں پڑنے دیتی تو کوئی خواہاں ہے کہ نیب کیسز کو دریا برد کیا جائے۔

عمران خان پانچ برس پورے کریں۔۔نجم ولی خان

صحافت میں جن لوگوں کو  درخشندہ ستارہ سمجھا جاتا ہے، حسن نثار ان میں سے ایک ہیں، لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں چودھری شجاعت کی کتاب”سچ تو یہ ہے” کی تقریبِ رو نمائی جاری تھی کہ حسن نثار کو اپنے خیالات کے اظہار کے لیے اسٹیج پر مدعو کیا گیا، دو اڑھائی منٹ کی گفتگو میں حسن نے علم و دانش کی ایسی سحر انگیز خوشبو بکھیری کہ ماحول معطر ہو گیا، کہنے لگے کہ لاہور سے تعلق رکھنے والے لیڈروں کے خاندان کے ڈی این اے میں جھوٹ شامل ہے، جو اتنی ڈھٹائی سے جھوٹ بولتے ہیں کہ دور کسی سنسان وادی میں شیطان اپنے کارندوں کے ساتھ تالیاں بجا کر ان کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہو گا۔  تہتر سال قبل ہندوستان سے علیحدہ ہونے والی اس قوم کی بنیادوں سے یہ لوگ اینٹیں بھی نکال کر بیرونِ ملک لے گئے اور اب تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ عوام چین رکھیے، آپ کے لیے ایسے محلات تیار کریں گے کہ فرعون و قارون بھی اگر آج زندہ ہوتے تو آپ کی قسمت پر رشک کرتے، اعتبار نہیں آتا، اب سیاست دانوں کی باتوں پہ اعتبار نہیں آتا، کیا پتہ کہ کب کون کسی نئے رنگ میں رنگا جائے۔۔

کبھو سنتے تھے کہ سیاست دان نظریاتی ہوتے ہیں، لیکن کسی کامل نے یہ گرہ نہیں کھولی کہ آخر ان کا نظریہ ہوتا کیا ہے، درویش بھی اس گرہ کو کھولنے کی جسارت نہیں کرے گا، سوچتا ہوں کہ مزدوروں کی ہڈیوں اور پسینے سے بنے گارے جو ان کے محلات میں استعمال  ہوئے ہیں سے آہیں اور سسکیاں تو سنائی دیتی ہوں گی۔۔”ان کے کان تو ہیں مگر وہ بہرے کر دیئے جاتے ہیں”،آج بھی ذاتی کشمکش ہے اور ہم عوام وہ تختہ مشق ہیں جن پر تیرزنی کی خوب مشق کی جاتی ہے۔  جنوبی پنجاب سے ایک سیاست دان ہوا کرتے تھے جن کا بنیادی نعرہ یہ ہوتا تھا کہ اکتانا نہیں، ہچکچانا نہیں اور شرمانا نہیں، اور وہ اپنی محفلوں میں اس کا بھرپور تذکرہ بھی کرتے تھے، ہماری سیاست کے سر تاج یہ سیاست دان پھر خود ہی اپنے نعرے کی تشریح کیا کرتے تھے،   فرماتے تھے کی کرپشن کرتے ہوئے اکتاہٹ نہیں ہونی چاہیئے، ہچکچاہٹ تو کرپشن کے وقت پاس بھی نہیں پھٹکنی چاہیے اور دوسروں پر الزامات لگاتے ہوئے شرمانے سے گریز کرنا چاہیے۔

وزیراعظم پاکستان کے نام کھلا خط۔۔افتخار علی خان مغل

موصوف فراست کے موتی بکھیرتے ہوئے مزید گویا ہوتے تھے کہ اگر کوئی سیاست دان کامیاب ہونا چاہتا ہے تو ان نعروں پر عمل درآمد یقینی بنائے، یہ وہ نسخہ کیمیا ہے جو ہر گھاٹ سے نہیں ملتا، ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک یہ سیاستدان حکمت اور بذلہ سنجی کا حسین امتزاج تھے تبھی تو ایسا نعرہ تخلیق کیا، قیامِ پاکستان کے وقت اگر حضور پُر نور اپنا نعرہ پیش کرتے تو ہیروں پر سہاگہ ہوتا۔ سیاست کے جس باغ میں زیادہ تر گُل ہونے چاہیئں تھے، وہاں اب جا بجا خار دار کانٹے ہیں، گُل اور کانٹوں میں کوئی تناسب نہیں، اس سیاست کے باغ کا کوئی مالی بھی ہونا چاہیے تھا جو وقتاً فوقتاً کانٹوں کو چن کر چمنستان سے باہر پھینکتا، یار لوگوں کی دلیل مگر یہ ہے کہ مالی تو عوام تو ہوتے ہیں۔ حضور مالی کا منصب بہت بڑا ہوتا ہے، جن لوگوں کے پاس تعلیم ہی نہیں اور شعور سے بھی جو بیگانہ ہوں تو کیسے ممکن ہے کہ وہ مالی کے منصب پر براجمان ہو سکیں۔ ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

منطق یہ نہیں ہے کہ سیاست میں سبھی وہ لوگ شامل ہوں جن کے دامن نچوڑنے سے فرشتے وضو کریں، دلیل یہ ہے کہ سیاست میں کم از کم وہ لوگ تو ہوں جو دولت کی ہوس اور قتدار  کے لالچ سے مغلوب نہ ہوں۔  شاید یہ بھی  ایک خواہش ہی ہے، اور قوانینِ قدرت کے مطابق ہر خواہش پوری نہیں ہوتی۔

Facebook Comments