کہا ،جاپان تو ہوگا۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

(احبابِ مکرم یہ کالم گزشتہ کالم بعنوان “غیر مسلم معاشرے ‘مسلم معاشروں سے بہتر ہیں؟۔۔ڈاکٹر اظہر وحید ” کے تسلسل میں پڑھا اور سمجھا جائے۔ یہ ایک فکری اشکال ہے جس کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے)

گزشتہ ہفتے کے کالم پر تبصرہ کرتے ہوئے واپڈا ٹاؤن سے ایک دیرینہ قاری شفیق الرحمٰن کہتے ہیں‘ اُن کی ملاقات جاپان میں ایک دوست سے ہوئی ، جاپانی معاشرے کی معاشرتی اقدار سے بہت متاثر تھے ۔اُن کا کہناتھا کہ جاپان میں پیغمبر اِس لیے مبعوث نہیں ہوئے کہ جاپانی معاشرہ پہلے ہی سے بہت مہذب اور اعلیٰ اقدار کا حامل ہے، اُن کی دانست میں یہاں گویا اصلاح کی گنجائش ہی نہ تھی۔ یہاں آکر کوئی اسلام کی کیا تبلیغ کرسکے گا؟ اسلام جس معاشرے کی تشکیل چاہتا ہے ٗ وہ یہ لوگ پہلے ہی بنا چکے ہیں ۔ جاپانی معاشرے کی تعریف میں رطب اللّساں ایک مولوی صاحب کا وڈیو کلپ بھی آج کل وائرل ہو رہا ہے، وہ بڑے وثوق سے بتا رہے ہیں کہ ایک جاپانی ٹیکسی ڈرائیور نے کس طرح اپنی غلطی پر راستہ لمبا ہونے کی صورت میں ٹیکسی کا میٹر بند کردیا تاکہ مہمان کو زیادہ کرایہ ادا نہ کرنا پڑے۔آج کل ایک مخصوص فکری طبقے کی طرف سے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ بھی بڑی تیزی سے گردش کر رہی ہے‘ جس میں بتایا جا رہا ہے کہ جاپانی لوگ کوئی چلہ بھی نہیں لگاتے، نمازیں پڑھتے ہیں‘ نہ تہجد گزار ہیں، اور نہ وہ رمضان کے روزے ہی رکھتے ہیں، ہر سال حج عمرے پر بھی نہیں جاتے ‘ لیکن اُن کے ہاں گزشتہ دس سال سے کسی قتل کی واردات نہیں ہوئی، گزشتہ پانچ برس سے کوئی چوری نہیں ہوئی ، اور ڈاکے کی واردات تو ان کی پولیس درج کرنا ہی بھول چکی ہے۔ یہ پوسٹ ترتیب دینے والا غالباً بین السطور یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ دین، کلمے اور پھر عبادات کی آخر کیا ضرورت ہے‘ جب اس کے بغیر بھی لوگ ایک فلاحی اور پُراَمن معاشرہ قائم کر لیتے ہیں۔

انتشار اور یکسوئی۔۔ڈاکٹر اظہر وحید
یہ تو سُنی سنائی باتیں ہیں‘ میں یہاں جگ بیتی بیان کروں گا‘ لیکن اِس بیان کا مقصد کسی قوم پر تنقید اور ان کی معاشرتی اقدار کی تنقیص ہرگزنہیں۔ مراد صرف یہ ہے کہ حقائق سامنے آجائیں۔ ہمارے بابا جی واصف علی واصفؒ کے بھانجے ملک امین دس برس جاپان بسر کرکے آئے، الیکٹرونکس کی تعلیم کیلئے اُن کے ماموں محترم ہی نے انہیں جاپان جانے کی ترغیب دی تھی۔ وہ کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں۔ اِسے کہانی بھی نہیں کہا جا سکتا کہ یہ اُن کی ہڈ بیتی ہے۔ گزشتہ دنوں وہ اپنی کمپنی کی طرف سے جاپان کے دورے پر گئے، اِس بار اُن کے ساتھ عجیب واقعہ ہوا۔ ٹوکیو ایئر پورٹ سے جس عمارت میں جانا تھا‘ وہاں جانے کے لیے ٹیکسی لی۔ ٹیکسی ڈرائیور سے انگریزی میں مکالمہ کیا اور اپنامطلوبہ ایڈریس بتا کر بیٹھ گئے۔ ڈارائیور نے سیدھا راستہ لینے کی بجائے ایک طویل راستے کا انتخاب کیا، ملک امین راستے بھی جانتے تھے اور جاپانی زبان بھی۔ کہنے لگے ‘ میں نے جاپانی ڈرائیور سے پھر جاپانی زبان میں کہا کہ تم نے کرایہ بڑھانے کیلئے لمبا راستہ لیا ہے ‘ میں ابھی پولیس کو فون کرتا ہوں۔ ڈرائیورلگا منت سماجت کرنے کہ پولیس کو فون نہ کرو، وہ جانتا تھا کہ پولیس کو فون کرنے کا مطلب یک قلم اُس کے لائسنس کی منسوخی ہے۔ بقول اُن کے وہاں اخلاقی جرائم تو بہت ہیں، فرق یہ ہے کہ لاء اینڈ آرڈر کا ڈنڈا سخت ہے، لوگ قانون کے ڈر سے قانون کی پاسداری کرنے پر مجبور ہیں۔ملک صاحب کہتے ہیں‘ کوبےشہر کے زلزلے میں ساری عمارتیں تباہ ہو گئیں لیکن ایک قدیم مسجد قائم رہی۔ یہ وہاں کیلئے لوگوں نادر عجوبہ بات تھی۔ اسلام وہاں تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے۔ پچھلے دنوں سونامی سے ایٹمی پلانٹ کی تباہ کاری و تابکاری سے متاثرہ جزیرے میں پاکستانیوں کی طرف سے کیے گئے فلاحی کاموں پر جاپانی قوم بڑی متاثر ہے۔ آج کل وہاں پاکستانی بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ ملک صاحب جاپان میں قیام کے دوران میں مختلف کمپنیوں میں کام کر چکے ہیں۔سناتے ہیں کہ کسی پہاڑی پر تعمیراتی کام کے دوران میں ایک مزدور کھائی میں گر گیا، ٹھیکیدار نے اس کی نعش نکالنے کی بجائے  سکیورٹی والے کو رشوت دے کر معاملہ رفع دفع کر دیا۔ ٹھیکیدار اگر اس کی نعش نکالتا ہے تو اُس کاوقت ضائع ہوتا ہے ، تجہیز و تکفین اورکریا کرم کے اخراجات اس رشوت سے کہیں زیادہ جاپانی ین بنتے ہیں۔ بقول ان کے یہ قوم اس قدر بزدل ہے کہ قدم قدم پر ” آبنائے آبنائے” (خطرہ ہے ، خطرہ ہے) پکارتی رہتی ہے۔ اس سے بڑی بزدلی کیا ہوگی کہ مایوس ہو کر خود کشی کی کھائی میں چھلانگ لگانے والے کو اِس معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ہاں! بہت محنتی قوم ہے۔ چیونٹی بھی بہت محنتی ہوتی ہے۔ گوگل سرچ میں ٹوکیو کا سالانہ کرائم ریٹ چیک کیا تو قتل ، چوری اور ڈاکے کے ہوشربا اعداد شمار اس دعوے کی تردید کر رہے ہیں کہ وہاں ایک عرصے سے جرم کا وجود ہی نہیں۔ اگر زمینی حقائق کے برعکس کسی مقالے کی بنیاد رکھی جائے تواس سے کوئی جاندار موضوع یا کلیہ مرتب نہیں ہوتا۔

نفس اور ترغیباتِ نفس۔۔ڈاکٹر اظہر وحید
آمدم برسر موضوع‘ اخلاقیات دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک معاشرتی اخلاقیات اور ایک دینی اخلاقیات! معاشرتی اخلاقیات کسی اِلہامی ہدایت کے بغیر بھی قومیں سیکھ لیتی ہیں کیونکہ اُن کے اچھے یا بُرے اثرات اِسی دنیا میں ہم اپنی آنکھوں سے مرتب ہو تے ہوئے دیکھ لیتے ہیں۔ سائنس کی طرح اسے بھی آزما لیا جاتا ہے کہ سچ بولنے والے ، صحیح تولنے اور وعدہ پورا کرنے والے اپنے کاروبارِ زندگی میں ترقی کرتے ہیں ،اور یہ لوگ جھوٹ بولنے والوں ، ملاوٹ کرنے والوں اور وعدہ خلافی کرنے والوں کی نسبت زیادہ خوش حال ہوتے ہیں۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ مسکراہٹ دل کے دروازے کھولتی ہے، زیادہ گاہک گھیرتی ہے۔ اس لیے ہر قبیل کے موٹیویشنل اسپیکرز یہ معاشرتی کلیہ جات کسی حکیم کے کشتہ جات کے طرح قوم کو صبح شام گھوٹا لگا کر پلاتے جا رہے ہیں۔ ہر ٹام ڈک اینڈ ہیری جانتا ہے کہ صفائی ستھرائی سے جراثیم دُھل جاتے ہیں اور بیماری سے بچاؤ ممکن ہو جاتا ہے۔ اس میں انہیں کسی دین کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ دینی اخلاقیات کا تعلق گناہ ، ثواب اور اللہ اور رسولؐ کی خوشنودی کے ساتھ ہے۔ اس میں عبادات بھی شامل ہے اور اخلاقیات بھی۔ شراب نوشی کسی معاشرتی اخلاقیات کی خلاف ورزی نہ ہو ‘ لیکن دینی اخلاقیات کی خلاف ورزی ضرور ہے۔ممکن ہے ‘ کسی کیسینو کا رخ کرنا‘ کسی ملک کی معاشرت کے فریم ورک میں کوئی دراڑ نہ ڈالے لیکن اس سے دینی اخلاقیات کا تارو پود بکھر کر رہ جاتا ہے۔ ممکن ہے ٗ بغیرشادی کیے مرد و عورت کا ایک ساتھ رہنا کسی معاشرے میں قابلِ قبول ہو لیکن دینی اخلاقیات اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتی۔ آج کل بعض ملکوں میں ہم جنس پرستی کو قانونی اور معاشرتی تحفظ بھی حاصل ہے‘ لیکن ایسی قبیح حرکت دین کے حوالے سے ایک گناہِ کبیرہ کے زمرے میں آئے گی۔ دینی اخلاقیات کی پابندی نہ کرنے کی صورت میں لازم نہیں کہ وبال و عذاب اسی دنیا میں ہمارے سامنے نازل ہو، اِس کا وبال اور سزا جس دنیا میں دیکھی جائے گی‘ اسے عقبیٰ کہتے ہیں۔ عقبیٰ کی خبر دینے کے لیے پیغمبر مبعوث کیے گئے ۔ پیغمبر مخلوق کو خالق سے متعلق کرتے ہیں، خالق اور مخلوق کا تعلق واضح کرتے ہیں اور ایک ایسے عالمِ غیب کی خبر دیتے ہیں جس کا مشاہدہ ہم اپنی فہم و دانش اور حواسِ خمسہ سے نہیں کر سکتے۔ جو انہیں مانتا ہے‘ وہ اُن کی بتائی ہوئی باتیں جانتا ہے۔ پیغمبر محض معاشرتی اخلاقیات ہی نہیں بلکہ دینی اخلاقیات بھی سکھانے کے لیے بھیجے گئے۔ پیغمبر محض مصلح اور مفکر نہیں ہوتا، بلکہ اس کی حیثیت خالق اور مخلوق کے درمیان ایک رابطے اور وسیلے کی ہوتی ہے۔

عمران خان پانچ برس پورے کریں۔۔نجم ولی خان
یہ استدلال درست نہیں کہ کسی خطے میں کوئی پیغمبر نازل نہیں ہوا۔ ماننے والے جانتے ہیں کہ کوئی قوم ایسی نہیں جس کی طرف کسی زمانے میں نبی و مرسل نہیں بھیجا گیا۔ قرآن کہتا ہے ــ ولِکُلّ قومٍ ھاد ( اور قوم کیلئے ہادی ہیں)، اور یہ بھی کہ ولکلّ امّۃ الرسل’’ ہر ُامت کیلئے رسول ہوئے‘‘۔قرآن کریم میں صرف اُن انبیا و رُسُل کا ذکر ہے‘ جنہیں اُس دور کے عرب اُن کے ناموں اور اُن کی قوموں سے جانتے تھے۔بنی اسرائیل کے بے شمار انبیا کاذکر قرآن کریم میں درج نہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے ‘ چین، جاپان اور قدیم یونان میں انبیا مبعوث نہ کیے گئے ہوں۔ قبل اَز اسلام‘ چین میں کنفیوشس ،برصغیر میں بدھ اور یونان میں سقراط کے بارے میں فیصلہ محققین کا کام ہے۔ پھر یوں ہوا کہ ہر قوم نے حسب ِ دستور اپنے ہادیوں کی اصل تعلیمات سے بتدریج انحراف کیا، کسی نے اپنے ہادی کو صرف ایک مفکر اور فلسفی کا درجہ دیا، کسی نے مصلح کا ،اور کسی قوم نے اپنے نبی کو درجۂ اُلوہیت پر ایسے فائز کردیا کہ ہزاروں کی تعداد میں اُس کے بت بنا ڈالے اور اُسی کی عبادت کے آسن بیٹھ گئی۔
مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا قول ہے “اُس انسان کی تعریف نہ کرو جس کی عاقبت اپنے لیے پسند نہیں کرتے” کسی بے دین معاشرے کوخوش حال اور مالا مال دیکھ کر اُن لوگوں کو حیرت توہو سکتی ہے جو دین کو صرف ایک نظام اور سسٹم کے طور پر مانتے ہیں، لیکن روحِ دین کے عارفوں کو اس پر قطعاً حیرت نہیں ہوتی۔ اولی الالباب (دل کے ہمراہی میں تفکر کرنے والے صاحبان) یہ قرآنی نصیحت یاد رکھتے ہیں ــ لا یغرنک تقلب الذین کفرو فی البلاد ( کافروں کی شہروں میں چلت پھرت تمہیں فریب میں نہ ڈالے) ۔ صاحبانِ ذی فہم جانتے ہیں کہ معاشرتی اخلاقیات اگر زیادہ دیر تک دینی اخلاقیات سے جدا رہے تو قوموں کاصفحۂ ہستی سے مٹ جانا مقدر ہو جاتا ہے۔ وہ جانتے ہیں ‘ دین کا بنیادی مقصد بندے کا اپنے رب سے تعلق استوار کرنے کا اہتمام کرناہے ‘ اور اس کا ذریعہ عبادات بھی ہیں اور اخلاقیات بھی۔ بیرونِ خانہ نظام کی بہتری دین کا ایک اضافی پہلو ہے۔ گلیوں بازاروں میں نظام کی بہتری کے باوجود ایک شخص اپنے انفرادی عمل کی تاریکی سے اپنی قبر کو تاریک کر سکتا ہےــــ اور نظام کے لاکھ بگاڑ کے باوجود ایک کلمہ گو اپنی روح کو جِلادینے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

صدام کو توقع تھی کہ انھیں پھانسی نہیں دی جائے گی۔۔گل بخشالوی
کُل عالمین کے لیے رحمت اور باعث ِ رحمت ختم النّبیّین رحمت اللّعالمین ﷺکے پیغام ِ رشد و ہدایت میں کلّیت بدیہی طور پر موجود ہے۔ اِس پیغام کو ماننے اور پھراِس کی روح یعنی (letter and spirit) کے مطابق عمل کر نے سے زندگی کے انفرادی اور اجتماعی دونوں پہلو روشن ہوجاتے ہیں۔ ہم اپنے دل کا چراغ روشن تو کریں۔ دِل کا چراغ جلے گا تو چراغ سے چراغ جلے گا ــــ اور چراغ سے چراغ جلنے سے چراغاں ہو گا۔ اپنا چراغ جلائے بغیر دل جلانے کا کچھ فائدہ نہیں!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔