• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • علی گڑھ یونیورسٹی کا صد سالہ جشن، وسوسے اور اندیشے۔۔افتخار گیلانی

علی گڑھ یونیورسٹی کا صد سالہ جشن، وسوسے اور اندیشے۔۔افتخار گیلانی

بھارت میں جہاں مسلمان ہر شعبے میں اس قدر پیچھے ہیں کہ بنیادی ضرورتوں کے فقدان کی وجہ سے ان کی بستیاں دور سے ہی پہچانی جاتی ہیں، علی گڑھ ریلوے اسٹیشن کے مشرق میں جس میں سول لائنز، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور اس کی وجہ سے وجود میں آئی لاتعدادمسلم اشرافیہ کی بستیاںغالباً واحد ایسی جگہیںہیں، جہاں مسلمانوں کا عظیم ماضی اور شان و شوکت جھلکتی ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نہ صرف اس وقت بھارت کے مسلمانوں کے لیے تعلیم کی کھڑکی کا کام کر رہی ہے، بلکہ ان کی ثقافت اور شناخت کی ایک اہم علامت بھی ہے۔ پچھلی ایک صدی کے دوران اس ادارے نے جنوبی ایشیا کو آٹھ سربراہان مملکت دیے ہیں، جن میں سے پانچ پاکستان کے حکمران رہے ہیں۔ بقیہ بھارت، مالدیپ اور بنگلہ دیش کے صدور کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ جموں و کشمیر کے چار وزراء اعلیٰ اسی یونیورسٹی کے طالب علم رہ چکے ہیں۔
پچھلے ہفتے یونیورسٹی کی صد سال تقریب کے موقع پر بھارتی وزیرا عظم نریندر مود ی نے بھی اس ادارہ کے خوب گن گائے، مگر اس کی ترقی یا مالی مشکلات کے ازالہ کیلئے کوئی وعدہ نہیں کیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ جنوبی ا یشیاکے سربراہان مملکت ایک ساتھ مل کر علی گڑھ کے جشن میں شامل ہوکر اسکے تابناک ماضی کو یاد کرتے۔ بھارت میں ماضی کی حکومتیں اسے ایک اقلیتی تعلیمی ادارہ تسلیم کرتی آئی ہیں۔ مودی حکومت پہلی ایسی حکومت ہے جس نے عدالت میں حلفیہ بیان دیکر یونیورسٹی کو مسلمانوں کا اقلیتی ادارہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے یہ ادارہ ہندو فرقہ پرستوں کے نشانہ پر رہا ہے۔ اسلئے سوال ہے کہ آخر مودی نے صدر سالہ تقریب میں مہمان خصوصی کی حثیت سے شرکت کرنے پر کیوں اصرار کیا؟ بتایا جاتا ہے کہ یونیورسٹی کی طرف سے صدر رام ناتھ کووند کو مدعو کیا گیا تھا۔ کیونکہ صدر تمام مرکزی یونیورسٹیوں کا وزیٹر ہوتا ہے اور ان کی مجلس عاملہ اور انتظامیہ کا اسی کے دستخط سے تقرر ہوتا ہے اور شاید انکو گمان تھا کہ مودی تقریب میں شرکت نہیں کرینگے۔ معروف صحافی سید فاضل پرویز کے مطابق جس طرح سے امریکی صدر بارک اوباما نے عالم اسلام کو مخاطب کرنے کیلئے مصر کی جامعہ ازہر کو منتخب کیا تھا، اسی طرح مودی نے مسلم دنیا کو پیغام دینے کیلئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی صد سالہ تقریب کا انتخاب کرکے موقعہ کا فائد ہ اٹھایا۔ پرویز کے مطابق عرب حکمرانوں کے ساتھ بہتر ہوتے تعلقات کے پیش نظر مودی حکومت کے لئے ضروری تھا کہ وہ او آئی سی اور اقوام متحدہ میں بھارتی مسلمانوں کی حالت زار ان کے ساتھ کئے جانے والے امتیازی سلوک اور مختلف قوانین کے بہانے انہیں دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی کوششوں کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو خاموش کیا جائے۔ اس کے لئے خیالات اور لب و لہجہ کی حد تک ہی سہی‘ تبدیلی ضروری تھی۔
گو کہ سرسید احمد خان نے 1877ء میں ہی اینگلو محمڈن کالج کی داغ بیل ڈالی تھی، مگر ایک طویل جدوجہد کے بعددسمبر 1920ء میں ہی برطانوی حکومت نے اسکو یونیورسٹی کا درجہ دے دیا۔ 1857 ء کی ناکام جنگ آزادی اور مغلیہ سلطنت کے خاتمہ کے بعد جب مسلمان بے کسی اور کسمپرسی کے دور سے گزر رہے تھے، تو دہلی کے اجمیری گیٹ پر واقع دہلی مدرسہ (حال اینگلو عربک اسکول) کے استاد مولوی مملوک علی کے دو شاگردوں نے قوم کو اعتماد لوٹانے کی نیت سے دہلی کو خیر باد کہہ کر دو الگ سمتوں میں دو شہرہ آفاق اداروںکی بنیاد رکھی۔ گو کہ مسلمانوں کو دوبارہ با اختیار بنانے کیلئے تعلیم کو ذریعہ بنانے پر وہ متفق تھے، مگر اسکے نظام اور طریقہ کار پر ان میں اختلاف رائے تھا۔ مغربی اترپردیش کے قصبہ شاملی میں علما ء کے قتل عام سے پریشان مولانا قاسم نانوتوی نے 1866ء میں سہارنپور کی طرف کوچ کرکے دیوبند کے مقام پر ایک انار کے پیڑ کے نیچے دارالعلوم قائم کیا۔ جو آج اپنی آن ،بان اور شان کے ساتھ قائم ہے او ر جنوبی ایشیا میں ام المدارس کا درجہ رکھتا ہے۔ اس کے دس سال بعد مولوی مملوک کے دوسرے شاگرد سر سید احمد خان نے دہلی کے جنوب مشرق میں 250کلومیٹر دور آکسفورڈ اور کیمبرج کی طرز پر ایک کالج کی بنیاد رکھی جس پر انہیں کفر کے فتوے سے بھی نوازا گیا۔
سرسیدمذہبی شناخت کوبرقرار رکھتے ہوئے مسلمانوں میں تعلیمی بیداری اورسائنسی مزاج پیدا کرکے انکو موجودہ دور کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرکے ان کو مغرب کے ساتھ مکالمہ کرنے کے قابل اور قیادت کا اہل بنانا چاہتے تھے۔ اپنے قیام سے لیکر آج تک مسلمانوں کو درپیش سیاسی اور سماجی چلینجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے دونوں کا لائحہ عمل متضاد رہا ہے۔ سیاسی بیدار ی اور ملًی تقاضوں کا ادراک کرنے کی وجہ سے اس ادارے کے طالب علموں نے ہر محاذ پر سرگرمی دکھائی ہے۔
ٹیکساس یونیورسٹی کے ایک ترک پروفیسر گیل مینالٹ کے مطابق 1912-13کی جنگ بلقان کے موقع پر ترک سلطنت کی مدد کیلئے علی گڑھ کے طالب علموں نے ڈنر اور لنچ پر خرچے کم کرکے اور کئی نے روزے رکھ کر ترک ریلف فنڈ کیلئے ایک خطیر 13,800عثمانی لیرا کے برابر رقم جمع کرکے استنبول روانہ کی تھی۔ آج کے حساب سے یہ رقم 42ملین ترک لیرا یعنی پانچ ملین ڈالر بنتی ہے۔ ڈاکٹر احمد مختار انصاری ، جنہوں نے بعد میں کانگریس اور مسلم لیگ کے صدر کے عہدے سنبھالے، نے اسی ادارے کو مرکز بنا کر ترک حکومت کی مدد کیلئے ایک میڈیکل مشن تشکیل دیکر رضا کار منتخب کئے، جن میں پاکستان کے نامور سیاستدان چودھری خلیق الزمان بھی شامل تھے۔
خلیق الزمان لکھتے ہیں کہ جب وہ ایک دن کالج کے ٹینس کورٹ میں پریکٹس کر رہے تھے ، کہ انصاری ان سے ملنے آئے اور ان کو ترکوں کی مدد کرنے کی ترغیب دی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس ملاقات کے چند گھنٹوں کے بعد ہی وہ استنبول جانے کیلئے بوریہ بستر باندھ رہے تھے۔ اس یونیورسٹی کے دیگر طالب علموں میں ، جو ڈاکٹر انصاری کے میڈیکل مشن کا حصہ بنے ، کشمیر کے بارہمولہ قصبہ کے عبدالرحمان پشاوری (صمدانی) بھی تھے، جن کے دادا پشاور میں جا بسے تھے۔ جنگ بلقان کے بعد جب میڈیکل مشن کے دیگر افراد واپس ہندوستان لوٹ آئے، پشاوری ترکی میں ہی مقیم رہے اور بعد میں مصطفیٗ کمال اتا ترک نے ان کو افغانستان کا سفیر مقرر کیا۔ وہ ترک نیوز سروس انادولو ایجنسی کے پہلے رپورٹر بھی تھے، جو 1920میں ہی قائم ہو گئی تھی۔ جب برطانوی حکومت ایک عرصہ تک علی گڑھ کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دینے میں لیت و لعل سے کام لے رہی تھی، تو کسی نے مسلم اکابرین کو مشورہ دیا تھا کہ فی الحال یونیورسٹی کو متحدہ ہندوستان کے باہر قائم کرکے آزادی کے بعد اسکو واپس منتقل کیا جائے۔
ڈاکٹر انصاری کی نظر انتخاب ترکی پر پڑی اور اس سلسلے میں انہوں نے سلطان اور اس وقت ان کے وقف کے وزیر سے ملاقاتیں کی۔ ترکی کے سینیئر سفارت کار براک اکبر کے مطابق انقرہ کے ریلوے اسٹیشن کے پاس 65,000ایکڑ کی زمین بھی منتخب کی گئی اور دیگر کیمپس کیلئے اڈانا اور کونیا میں بھی 25,000ایکڑ کی زمین کی نشاندہی کی گئی تھی۔ مولانا محمد علی جوہر کو لکھے خطوط میں انصاری نے یونیورسٹی کے پلان کو مسلم نشا ۃ ثانیہ سے تشبیہ دیکر اسکے نصاب کیلئے شبلی نعمانی اور علامہ اقبال سے مشورہ کرکے ایک کمیٹی تشکیل دینے کا مشورہ دیا تھا۔ مگر جلد ہی پہلی عالمی جنگ کی شروعات نے اس منصوبہ کو کھٹائی میں ڈال دیا اور میڈیکل مشن کے اکثر افراد بھی ہندوستان واپس لوٹ گئے۔
مغرب کے مشہور علمی اداروں کی طرز پر 1000 ایکڑ پر محیط علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں فی الوقت 30ہزار طالب علم زیر تعلیم ہیں۔ 11ہزار کے قریب اکیڈمک اور نان اکیڈیمک اسٹاف 350مختلف کورسز پڑھانے میں معاونت کرتے ہیں۔ علی گڑھ ریلوے اسٹیشن کے مغرب میں سول لائنز کے بعد پورا علاقہ ہی یونیورسٹی کے نام سے موسوم ہے۔ جہاں سابق پروفیسرز کی کالونیوں کے ساتھ ساتھ دیگر علاقوں کے متمول مسلمان بھی بس گئے ہیں۔ یہ شاید واحد جگہ ہے، جہاں مسلمانوں کی عظمت رفتہ اور ان کا عظیم الشان ماضی ایک فلم کی طرح چلتا پھرتا نظر آتا ہے۔ یہاں کا اسکالر اپنی مسلم شناخت کے ساتھ ساتھ عصری علوم میں بھی خاصی دسترس رکھتا ہے۔
بھارت کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں معیار کے حوالے سے اسکی رینکنگ چھٹے نمبر پر ہے، اس کا میڈیکل کالج نویں مقام پر ہے۔بس اسی وجہ سے یہ ادارہ فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں شہتیر کی طرح کھٹکتا ہے۔ کبھی اس ادارہ کی مسلم شناخت کو ختم کرنے کی سازش کی جاتی ہے اور کبھی کسی معمولی واقعہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرکے ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ یونیورسٹی ملکی سلامتی کیلئے خطرہ ہے۔ حکمران بی جے پی اور اسکی مربی تنظیم آرایس ایس کے لیڈروں کو اعتراض ہے کہ ایک سیکولر اور جمہوری ملک میں کسی تعلیمی ادارے کا نام کسی ایک مذہب کے نام پر نہیں ہوسکتاجس کے اخراجات حکومت اداکرتی ہو۔
2015 میں ہی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ بھارت میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کا تناسب ویسے بھی سب سے نیچے ہے۔ سکولوں میں داخل ہونے والے 100بچوں میں سے صرف 11 اعلیٰ تعلیم تک پہنچ پاتے ہیں جبکہ ہندوئوں میں یہ تعداد 20 فیصد اور عیسائیوں میں31 فیصد ہے۔ اس صورت حال میں اگر اس کااقلیتی کردار چھن جاتا ہے تو مسلمانوں کی تعداد اور بھی کم ہوجائے گی۔ اٹارنی جنرل نے عدالت عظمی میں کہا : ”ایک سیکولر ریاست میں مرکزی حکومت کیسے ایک اقلیتی ادارہ قائم کرسکتی ہے‘‘۔ گویا جو سیکولرزم بی جے پی اور آر ایس ایس کے نزدیک ناپسندیدہ شے ہے، اقلیتوں کے آئینی حقوق سلب کرنے کے لیے اسی اصطلاح کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ حکومت اور بی جے پی کے لیڈروں کی دلیل یہ ہے کہ علی گڑھ اور جامعہ ملیہ مسلمانوں نے قائم نہیں کیے، بلکہ پارلیمنٹ کے ایکٹ سے معرض وجود میں آئے۔ ایک کالج کو یونیورسٹی میں اپ گریڈ کرنے کا آخر اورکون سا طریقہ ہے؟ پارلیمنٹ کے ایکٹ سے ہی یونیورسٹی کا قیام عمل میں آتا ہے۔
بہرحال، علی گڑھ مسلم یوینورسٹی کی تاریخی حیثیت ختم کرنے کی کوشش کا یہ پہلا موقع نہیں ہے۔60کی دہائی میںاسوقت کے وزیر تعلیم ایم سی چھاگلہ نے کیمپس کے ایک معمولی واقعہ کو بہانہ بنا کر پارلیمنٹ میں ایک قانون لاکر اس کا اقلیتی کردار ختم کروایا تھا، جس کو 1967ء میں سپریم کورٹ کی تائید حاصل ہوئی۔ بڑی جد وجہد کے بعد 1981ء میں وزیراعظم اندرا گاندھی کی حکومت نے قانون سازی کے ذریعے اقلیتی کردار کو بحال کیا۔ اسی پارلیمانی ایکٹ میں خامی‘ نکالتے ہوئے 20 اکتوبر 2005ء کو الہ آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ یہ اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ لیکن یونیورسٹی اور اسوقت کی من موہن سنگھ حکومت نے اسکو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا اور ابھی تک یہ کیس زیر سماعت ہے۔
علیگڑھ نے یقینا مسلمانوں کی قیادت اور تعلیم کے سلسلے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ سرسید نے جو خواب سجاکر اس کی بنیاد ڈالی تھی، خاصی حد تک اس کے طالب علموں نے اسکو پورا کیا ہے۔یونیورسٹی کے سابق نائب وائس چانسلر پروفیسر حنیف بیگ کو میڈیسن (طب) کے میدان میں بھارت کے ‘Outstanding Scientist Award سے حال ہی میں سرفراز کیا گیا۔ وہ امراض قلب کے نامورسرجن ہیں ۔ ایک دوسرے سائنسداں ڈاکٹر حفظ الرحمن صدیق ہیں۔ جنہوں نے شراب نوشی سے ہونے والے جگر کے کینسر کے کلیدی سبب کو دریافت کیا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر سید رفعت اللہ کو طب یونانی میں بھارتیحکومت کے سب سے بڑے ایوارڈ ’’لائف ایچومنٹ ایوراڈ برائے بیسٹ ریسرچر‘‘ کا دیا گیا۔ ڈاکٹر رفعت نے 250 جڑی بوٹیوں کے مضر و مفید اثرات کا مطالعہ کیا ہے جو سعودی عرب کی 395 دیسی ادوایات میں استعمال ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر بشریٰ عتیق کو طبی علوم میں نمایاں کارنامہ انجام دینے کا اعتراف کرتے ہوئے بھارت کے سب سے بڑے انعام ’شانتی سروپ بھٹناگر پرائز برائے 2020‘ سے سرفراز کیا گیا۔ حال میں بھارت کے سب سے بڑے سرکاری طبی ادارہ انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ نے کوویڈ 19 کے ویکسن تیسرے مرحلہ کے ٹرائل یا تجربات کا ذمہ مسلم یونیورسٹی کے میڈیکل کالج کو تفویض کیا ہے۔
تمام تر وسوسوں اور اندیشوں کے باوجود علی گڈھ کی شان و شوکت اور جاہ جلال کو اس ادارے کے طالب علموں اور اساتذہ نے برقرار رکھا ہے۔علی گڑھ کا ہر گلی کوچہ یونیورسٹی کے طالب علم اور شاعر اسرارالحق مجاز کی مادر درسگاہ کی نذر کی ہوئی مشہور نظم کی عملی تصویر ہے:
ہر شام ہے شام مصر یہاں
ہر شب ہے شب شیراز یہاں ہے
سارے جہاں کا سوز یہاں اور سارے جہاں کا ساز یہاں
فطرت نے سکھائی ہے ہم کو افتاد یہاں پرواز یہاں
گائے ہیں وفا کے گیت یہاں چھیڑا ہے جنوں کا ساز یہاں
ذرات کا بوسہ لینے کو سو بار جھکا آکاش یہاں
خود آنکھ سے ہم نے دیکھی ہے باطل کی شکست فاش یہاں

Facebook Comments