• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • زرد موسموں کا عذاب/ نعیم آروی اور انکے افسانوی فن پر چند باتیں۔۔احمد سہیل

زرد موسموں کا عذاب/ نعیم آروی اور انکے افسانوی فن پر چند باتیں۔۔احمد سہیل

کہانیوں  کا یہ گل دستہ نو افسانوں سے سجا ہوا ہے۔ نعیم آروی نے مختر نویسی کے تحت خوب صورت افسانے لکھے ہیں۔جو ان کی روح کی خود نوشت ہے۔ ان کے افسانوں کی  جامعیت کم الفاظ میں مافی الضمیر کی ترسیل ہے۔ جو جدید تر اردو افسانوی آفاق میں شاز ہی نظر آتا ہے۔ وہ زندگی کے ہر پہلو پر لکھنے  کا فن اور ہنر جانتے ہیں۔ تنہائی، غم عشق، غم روزگار، تشدد، سفاکی، خوفناک موسم ، موت کے درمیاں لٹکی ہوئی زندگی، جرم اور قانوں کی غیر منطقی اور پھیلی ہوئی مہمل ہوئی دنیا ہی ان کے افسانوں کی اساس ہے۔ جس میں مغائرت اوررشتوں کی بیگانگی نمایاں ہے۔ نعیم آروی ترقی پسند افسانہ نگار تھے۔ شوکت صدیقی نے لکھا ہے۔۔” نعیم آروی کا تعلق بنیادی طور  پر سماجی حقیقت پسندی کے دبستان سے ہے”۔ نعیم آراوی اپنے افسانوں میں رواں  حال میں مستقبل کی تصویر دیکھتے ہیں ۔ جس میں ان کے آس پاس پھیلا ہوا پُرسرار معاشرہ اور اس کی حرکیات ہیں۔ اس افسانے کے مجموعے میں محمود واجد، ادیب سہیل ، منظرامکانی کے مضامین کے علاوہ نعیم آروی کا ایک مضمون “اپنی تلاش میں ” بھی پڑھنے کے لائق ہے۔ اپنے اس مضمون میں افسانہ نگار نے زندگی کے فلسفے، محرمیوں، افسانوی جمالیات، عشق اور انسانی رشتوں کو واضح طور پر بیان کیا ہے۔ یہ مضمون ان کی مختصر خود نوشت بھی لگتی ہے۔ نعیم آردی نے لکھا ہے ” اجنبیت اور بیگانگی کا یہ احساس ساری عمر میرے تعاقب میں رہا۔ آج بھی اپنے دوستوں کو شک بھری نگاہوں سے دیکھتا ہوں اور اپنے ذہن میں شکوک و شبہات اور وسوسوں کو پالتا رہتا ہوں” ( صفحہ۔25) ۔اس کتاب میں حسن عابدی نے ” نعیم آروی سے خطاب سے” کے نام سی ایک نظم بھی لکھی ہے نعیم آروی کو اردو کے نقادوں نے نظر انداز کیا،مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ ایک بڑے افسانہ نگار تھے۔ عشق اور  مشک چھپائے نہیں چھپتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

“نعیم آروی کا زندگی کے ساتھ معاہدہ  ہے،انسانیت کا رشتہ ہے،دکھ سکھ کا رشتہ ہےاور اسی رشتے اور معاہدے کو وہ ادب میں بروئے کار لارہے ہیں۔اُن کے افسانوں کے بہت سےکرداروں اور مقامات و واقعات سے میں ذاتی طور پر واقف ہوں۔“ مٹی“ کے تراب علی ہمارےپڑوسی تھے، انفرنو تو خود نعیم بھائی کی اپنی رودادِ غم ہے۔وہ اس عہد کے سچے اور اچھےافسانہ نگار ہیں۔وہ ایک آئیڈیل معاشرے کا خواب دیکھتے رہے اور ساغر صدیقی کی طرح فقیرانہ روش پر گامزن ہیں کہ رزق،رہائش اور بنیادی ضروریات سے آگے انہوں نے کبھی اپنے لیے کچھ حاصل نہ کیا۔معاشرتی ناانصافیوں کی عکاسی اپنے افسانوں میں کرتے کرتے وہ ذاتی زندگی کےتلخ تجربات بھی سموتے رہے ہیں۔راجندرسنگھ بیدی،قراۃالعین حیدر،شوکت صدیقی اور مشرف احمدان کے پسندیدہ افسانہ لکھنے والے فن کار ہیں۔ مشرف ذوقی نے نعیم آروی کے افسانوی مزاج ، کمال اور جمال کے متعلق لکھا ہے” ”میں منی بس سے اُتر کر بڑے قریب سے محب وطن بہاریوں کے پہلے لٹے پٹے قافلے کا جائزہ لے رہا تھا۔ پولیس اور فوج کا پہرہ نہ تھا۔ بس اتنا ہی یہاں سے جانے والے بنگالیوں اور وہاں سے آنے والے بہاریوں میں فرق تھا۔ باقی سب کچھ ایک جیسا تھا_ انسان کے ہاتھوں انسان کے قتل ہونے کا ہولناک منظر۔“ (گودھرا کیمپ: نعیم آروی) {‘جدیدحقیقت نگاری بنام آج کی اردو کہانیاں’۔ روزنامہ “آگ”۔ 23 ستمبر 2013}۔
ان تمام تر کہانیوں کا ہیرو ’وقت‘ ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ساری کہانیاں حادثوں کی کوکھ سے جنمی ہیں۔ گودھرا کے حادثے پہلے بھی کہانی کا منظر نامہ بنتے رہے ہیں۔ نعیم آروی 1948 کے آس پاس پاکستان چلے گئے۔ اسی کے آس پاس گودھرا کیمپ کے خونی مناظر انہوں نے دیکھے ہوں گے، جو بعد میں اُن کی کہانی کا موضوع بنے۔
(نعیم آروی کی زندگی میں لکھا اور ایک نشست میں پڑھا گیا)
{حوالہ:کاغذ کا رزق ازانورجاویدہاشمی}
تعیم آروی کی کتابوں کی فہرست یوں بنتی ہے :
سوا نیزے پر سورج
ہجرتوں کی مسافت
بستی کا آخری آدمی
گرد آلود شام
زرد موسموں کا غذاب
 افسانہ نگار ؛ نعیم آروی۔( آمد: 1946، آرا، ، بہار، بھارت – رخصت: 2002 کراچی پاکستان)
* ناشر: آروی پبلشنگ ۔ 11 سی ۔ایل 29 سرسید ٹاؤن، کراچی۔
* سال اشاعت: 1997۔
* صفحات : 112

Facebook Comments