• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • تحریکِ بحالی جمہوریت۔۔جسٹس( ر) سید افضل حیدر/تبصرہ۔ لیاقت علی

تحریکِ بحالی جمہوریت۔۔جسٹس( ر) سید افضل حیدر/تبصرہ۔ لیاقت علی

مختلف سیاسی نظریات کی حامل سیاسی جماعتوں کا کم از کم مشترکہ مطالبات اور اہداف کے حصول کے لئے متحدہ محاذ قائم کرنے کی روایت کافی پرانی ہے۔موجودہ پاکستاان ڈیموکریٹک موومنٹ سے قبل متعدد سیاسی اتحاد بن اور بکھر چکے ہیں۔ سیاسی اتحادوں نے آمریت کے خلاف جدوجہد تو بھرپور کی لیکن  وہ اپنے مقاصد اوراہداف، ایک جمہوری سیاسی حکومت کے قیام اور قانون و آئین کی حکمرانی کے حصول میں قائم ناکام رہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سیاسی جماعتوں پرمشتمل دواتحادوں کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ ایک نو سیاسی جماعتوں کا پاکستان قومی اتحاد، جو بھٹو کی آمریت کو ختم کرنے کے لئے قائم ہوا تھا،لیکن ملک کو 11 سال کے لئے ضیا آمریت کی بھٹی میں جھونک کر چلتا بنا۔ دوسرا اہم ترین سیاسی اتحاد ایم۔ آر۔ڈی کے نام سے بنا تھا ،اس اتحاد میں وہ جماعتیں بھی شامل تھیں جنہوں نے بھٹو حکومت کے خلاف قومی اتحاد میں شرکت کی تھی۔

معروف قانون دان اور دانشور سید افضل حیدر نے ایم آرڈی کی تاریخ مرتب کی ہے۔ سید افضل حیدر کاکسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں رہا۔لیکن انھوں نے پاکستان میں آئین کی حکمرانی قانون کی بالادستی اور جمہوریت کی بحالی اور استحکام کے لئے گران قدر خدمات انجام دی ہیں۔ سید افضل حیدر چونکہ بطور قانون دان اور بار لیڈر اس تحریک کا حصہ تھے، جس کی وجہ سے ان کا بیانیہ براہ راست مشاہدات اور تجربات پر مشتمل ہے۔ ایم آرڈی نے اپنے قیام سے جنرل ضیا کی فضائی حادثہ میں موت تک مارشل لا کے خلاف بھرپور جدوجہد کی تھی اور اس میں شامل سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے بے پناہ کارکنوں قربانیاں دیں۔طویل جیلیں،کوڑے، تشدد اوربعض صورتوں میں جلاوطنی کو اس اتحاد کے کارکنوں نے ثابت قدمی سے برداشت کیا اور اپنی جدوجہد سےمنہ نہیں موڑا تھا۔

پاکستان کے سیاسی منظرنامے کی یہ اہم تحریک کا محرک وہ اعلان نامہ تھاجس پر 5 فروری 1981 کو  ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے دسخط کئے تھے۔جمہوریت کی بحالی اورسیاسی عمل کااحیا وہ عوامل تھے جنھوں نے ایک وقت میں باہم متحارب سیاسی پارٹیوں کو ایک مشترکہ سیاسی پلیٹ فارم پراکٹھا کیا تھا۔ایم آرڈی پاکستان کی سیاسی تاریخ کا واحد سیاسی اتحاد تھا جس میں مذہب کو استعمال نہیں کیا گیا تھااورنہ ہی مذہب کے نام پر عوام سے وعدے وعیدنہیں کئے گئے تھے۔مذہبی سیاسی جماعتوں کے ایم آرڈی میں شمولیت کے باوجود ایم آرڈی کی تحریک باحیثیت مجموعی جمہوری اور سیکولر رہی۔
ایم آرڈی کی تشکیل کے دوران اوراس کے بعد بھی سردارعبدالقیوم اورنواب نصراللہ خان بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو اس کی رکنیت دینے کے حق میں نہیں تھے۔ایم آرڈی کے قیام کے وقت سوشلسٹ پارٹی کی طرف سے ایم آرڈی میں شمولیت کی درخواست تحریری طورپر جمع کرائی تھی لیکن اس درخواست پرکبھی فیصلہ نہ ہوسکا۔

ایم آرڈی کا المیہ یہ تھا کہ جنرل ضیا کی موت کے فوری بعد یہ اتحاد برقرار نہ رہ سکا اور جلد ہی تاریخ کے ڈسٹ بن کی نذر ہوگیا۔
سید افضل حیدر نے ایم آرڈی کی تحریک کا بھرپور جائزہ لیا ہے اور اس کی کمزوریوں اور پیش قدمی کا تجزیہ غیر جانبداری اور معروضی انداز میں کیا ہے

Advertisements
julia rana solicitors

پبلشر: جمہوری پبلیکیشنز لاہور

Facebook Comments