محبت ایک کیمیائی عمل ہے۔۔ڈاکٹر امجد طفیل

محبت ازلی اور ابدی حقیقت ہے۔ تمام انسان اس بنیادی انسانی جذبے کو محسوس کرتے اور زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں اِسے اپنی ذات کے نہاں خانوں میں محسوس کرتے ہیں۔ دنیا کی ہر تہذیب و ثقافت میں انسانی محبت کی داستانیں ہمیں اس حقیقت کا پتہ دیتی ہیں کہ قدرت نے یہ انسانی جذبہ سب انسانوں کے مابین مساوی انداز میں تقسیم کیا ہے۔ صدیوں سے شاعر محبت کے گیت گاتے رہے ہیں۔ داستان گو محبت کے قصے بیان کرتے رہے ہیں۔ فلسفی، محبت کے جذبے کی عقلی توجیہات کرتے ہیں اور اب سائنس دان محبت کے جذبے کے زیرِ اثر انسانی دماغ میں وقوع پذیر ہونے والی عصبی اور کیمیائی تبدیلیوں کو اپنی تحقیقات کا موضوع بنا رہے ہیں تاکہ اس بات کی وضاحت کی جا سکے کہ محبت واقعی کیا ہے۔

ہیلن فیشر (Helen Fisher) ہمارے عہد کی ایک نامور سماجی ماہر انسانی ثقافت ہے۔ اُس نے اپنی عمر کا ایک حصہ اس نکتے پر غوروفکر میں صرف کیا ہے کہ محبت کے جذبے کے زیرِ اثر انسان کے اندر کون کون سی حیاتی کیمیائی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ ’’محبت‘‘ کو مختلف حوالوں اور سطح پر بیان کیا جاتا ہے۔ مثلاً محبت بطور خاص جنسی جذبے کا اظہار جسے بعض اوقات ہوس سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ محبت بطور رومان، محبت بطور وابستگی اور مرد اور عورت کے درمیان وقتی کشش و ملاپ۔

فیشر نے تقریباً دس سال اس بات پر صرف کیے ہیں کہ وہ ایم۔آر۔آئی مشین کے ذریعے محبت کے جذبے کے زیرِ اثر انسانی دماغ میں ہونے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ کرے۔ فیشر نے دریافت کیا ہے کہ جب محبت کرنے والے ایک دوسرے کی جانب دیکھتے ہیں تو اُن کے دماغ کے وہ حصے متحرک ہو جاتے ہیں جن کا تعلق لذت اور جزا کے ساتھ ہے۔ ان کے نام Ventral Segmental Area اور Caudate nucleus ہے۔ اِس میں جو بات زیادہ چونکاتی ہے وہ یہ ہے کہ Caudate nucleus میں ایک کیمیائی مادہ پایا جاتا ہے جس کا کام دماغ میں عصبی ترسیلات کو بحال رکھنے میں مدد دینا ہے۔ اس عصبی ترسیلی مادے (Neuro transmitter) کا نام ڈوپاماین (Dopamine) ہے۔

ڈوپاماین وہ عصبی ترسیلی مادہ ہے جو دماغ میں بہت زیادہ توانائی پیدا کرتا ہے۔ یہ ہمیں توجہ کو مرتکز کرنے میں مدد دیتا ہے اور زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے اکساتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی فرد نیا نیا محبت میں گرفتار ہوتا ہے تو اُس کا جوش و جذبہ دیدنی ہوتا ہے۔ وہ اِس جذبے کے زیرِ اثر آسمان کی بلندیوں کو چھو لینا چاہتا ہے۔ اُس کی چلنے پھرنے کی رفتار تیز ہو جاتی ہے۔ ایک ترنگ، ایک سرخوشی اُس کے ہر فعل و عمل میں دوڑتی محسوس ہوتی ہے۔ محبت کا جذبہ آپ کو طاقتور بناتا ہے۔ آپ کو تروتازگی بخشتا ہے۔ آپ کو خطرناک کام کرنے پر اکساتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں کیسے ایک سیدھی سادی لڑکی، اپنی محبت کو پانے کے لیے اپنے خاندان کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے۔ معاشرتی رسوم کو توڑنے کی جرأت اُس میں پیدا ہو جاتی ہے۔ اس بات کا جواب ہمیں محبت کی مندرجہ بالا سائنسی وضاحت میں ملتا ہے۔

محبت کے جذبے کو ایک اور زاویہ سے بھی سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ جذبہ جنون کی کیفیت کیوں اختیار کرتا ہے۔ اس حوالے سے ایک دماغی امراض کے پروفیسر ڈونیٹیلا مارا زیٹی Donatella Maraziti کی تحقیقات نے کافی دل چسپ نتائج پیدا کیے ہیں۔ پروفیسر مارا زیٹی اور اُن کے ساتھیوں نے تحقیق کی کہ محبت کے جذبے اور دماغ میں ایک عصبی ترسیلی مادے سیرو ٹونین (Serotonin) کا کیا تعلق ہے۔ اس تحقیق میں انھوں نے 24 ایسے افراد کو شامل کیا جو گذشتہ چھ ماہ سے محبت کے جذبے میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اور وہ ہر روز چار سے چھ گھنٹے محبت کے جذبے سے وابستہ کسی نہ کسی سرگرمی میں شریک ہوتے تھے۔ عصبی ترسیلی مادہ سیروٹونین ہمارے دماغ کی سرگرمی کے لیے بہت کم ہے۔
اپنی تحقیقات میں پروفیسر مارا زیٹی نے لوگوں کے تین گروپ لیے۔ پہلا گروپ اُن لوگوں پر مشتمل تھا جو محبت کے تجربے سے گزر رہے تھے۔ دوسرا گروپ اُن لوگوں کا تھا جن میں ایک خاص ذہنی مرض خبط اجباری Obsessive compulsive Disorder پایا جاتا تھا۔ جب کہ تیسرے گروہ میں نارمل افراد شامل تھے۔ جب ان تینوں گروہوں کے افراد کے دماغ میں سیروٹونین کی سطح کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ نارمل لوگوں کے مقابل میں پہلے بیان کیے گئے دونوں گروہوں کے افراد میں 40 فیصد تک کم سیروٹونین عصبی ترسیلی مادہ پایا گیا۔ اس بات کے معنی یہ ہوئے کہ محبت اور خبطِ اجباری کا مرض، دونوں میں ایک جیسی کیمیائی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ بھی نکالا جا سکتا ہے کہ محبت ایک طرح کا ذہنی مرض ہے۔ محبت کرنے والے اس سے ہوشیار رہیں۔

ماہرین تحصیل نفسی نے محبت کے بارے میں بہت سے نظریات بنائے ہیں۔ یہ نظریات اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ کوئی سے دو افراد ایک دوسرے کی محبت میں کیوں مبتلا ہوتے ہیں۔ سگمنڈ فرائیڈ کا موقف یہ ہے کہ لڑکی اپنے والد کی محبت میں گرفتار ہوتی ہے اور لڑکا اپنی والدہ کی محبت میں۔ فرائیڈ محبت کے جذبے کو انسانی لاشعور میں موجود تشنہ خواہشات سے جوڑتا ہے۔ وہ محبت جس سے بچہ اپنی زندگی کے اوّلین سالوں میں محروم رہتا ہے وہ نوجوانی میں اپنے اردگرد موجود خواتین میں تلاش کرتا ہے۔

سگمنڈ فرائیڈ کے برعکس کارل یونگ محبت کے حوالے سے انسان کے اجتماعی لاشعور میں اُن عوامل کو اہمیت دیتا ہے جن کا تعلق نسل انسانی کی اجتماعی نفسیات سے ہے۔ ان دونو ں کے برعکس ہمارے عہد کا ایک ماہر امراض و دماغ تھامس لوئس (Thomas Lewis) کا نظریہ یہ ہے کہ روحانی محبت (Romantic Love) کی جڑیں فرد کے بچپن کے تجربات میں ہوتی ہیں۔ ہم جب اپنی ماں کا دودھ پیتے تھے تو کیا محسوس کرتے تھے۔ جب ہم اپنی ماں کے چہرے کو دیکھتے تھے تو ہمیں کیسا لگتا تھا۔ یہ نقوش ہمارے دماغ میں محفوظ ہو جاتے ہیں اور پھر ہم بڑے ہو کر اُن لمحات کو واپس لانا چاہتے ہیں۔ اس نظریے کے مطابق محبت کا تعلق اِس بات سے نہیں ہوتا کہ ہم محبت میں کیا حاصل کریں گے۔ بلکہ اس بات سے ہوتا ہے کہ جو کچھ ماضی میں ہمیں حاصل تھا ہم اُسے دوبارہ پانا چاہتے ہیں۔ یعنی محبت ایک ردعملی (Reactive) جذبہ ہے نا کہ کسی عمل کا آغاز کرنے والا (Proactive)۔ یہ ہمیں ماضی کی طرف لے جاتا ہے۔ ہمیں صنف مخالف کے کسی فرد میں ماضی میں اپنی کسی قریبی ہستی کی جھلک دکھائی دیتی ہے یاآواز سنائی دیتی ہے یا مہک آتی ہے یا کسی کا لمس ہمیں مانوس معلوم ہوتا ہے اور ماضی کی یادیں ہمارے ذہن میں تازہ ہو جاتی ہیں۔

محبت کے موضوع نے ارتقائی نفسیات کے ماہرین کو بھی اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔ ان ماہرین کے مطابق محبت کا جذبہ انسانی بقا سے جڑا ہے۔ اس نقطۂ نظر کے مطابق ہم اُن افراد سے قربت پسند کرتے ہیں جو ہمیں صحت مند دکھائی دیتے ہیں۔ ارتقائی نفسیات کے ماہرین کے مطابق صحت کا 70 فیصد تعلق عورت کی کمر اور کولہوں کے تناسب میں ہے اور مردوں میں مضبوط کاٹھی سے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مرد میں مردانہ ہارمون کافی مقدار میں خارج ہوتا ہے۔ عورت میں کمر اور کولہوں کے درمیان تناسب صحت مند پیدائشِ بچہ کے لیے ضروری ہے اور مطالعات نے اس جانب اشارہ کیا ہے کہ عورت کا یہ حصہ اُس کی زرخیزی کے حوالے سے بھی اہم ہے۔
بعض ماہرین اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ ساتھی کے انتخاب میں انسان کا ناک سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ سوئیزلینڈ کی ایک یونیورسٹی میں ایک بہت دل چسپ تجربہ کیا گیا۔ اس میں 49 فیصد خواتین کو مردوں کی اتاری ہوئی بنیانیں سونگھنے کے لیے کہا گیا۔ یہ بنیانیں مختلف مردوں نے استعمال کی تھیں۔ ان مردوں کا جینوٹائپ (Geno Types) مختلف تھا۔ جینو ٹائپ مرد کے جسم کی بو اور مدافعتی نظام میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جب عورتیں نے بنیانوں کو سونگھ لیا تو تحقیق کرنے والوں نے اُن سے دریافت کیا کہ وہ بتائیں کہ سب سے اچھی بنیان کون سی ہے اور سب سے بُری کون سی۔ اُس نے یہ دریافت کیا کہ زیادہ تر خواتین اُن مردوں کی پہنی ہوئی بنیان کے بارے میں پسندیدگی کا اظہار کیا، جن مردوں کا جینو ٹائپ اُن کے اپنے جینو ٹائپ سے بالکل مختلف تھا۔ اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ عورتوں کے پسندیدہ مردوں کے مدافعتی نظام، اُن کے اپنے مدافعتی نظام سے بالکل مختلف تھا۔ یوں وہ اس امکان میں اضافہ کر رہی تھیں کہ اُن کے بچے زیادہ صحت مند اور طاقتور ہوں۔

محبت کے جذبے کے حوالے سے یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اس کی شدت سدا ایک سی نہیں رہتی۔ ایک وقت میں ایک شخص آپ کو بہت پیارا ہوتا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ کے جذبات بدلنے لگتے ہیں۔ محبت کی شادی کرنے والے کئی جوڑے چند ماہ یا چند سال بعد ایک دوسرے سے جد اہو کر نئی زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔ سائنسی تحقیقات بھی اس بات کو پسند کرتی ہیں کہ جذبات مردہ ہو جاتے ہیں۔ بعض ماہرین نفسیات نے اُس دورانیے کا تعین بھی کرنے کی کوشش کی ہے جس میں اوسطاً محبت تعلق شروع ہو کر اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔ اِس حوالے سے ہونے والی بعض تحقیقات اِس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ اوسطاً ایک روحانی تعلق چار سال تک جاری رہتا ہے۔ حیاتیاتی سطح پر اس کی وضاحت ہمارے دماغ کی کارکردگی کے حوالے سے بھی کی جا سکتی ہے کہ ڈوپا ماین میں تبدیلی ہمارے جذبات کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

محبت کے موضوع پر تحقیق کرنے والے ماہرین محبت کو مختلف سطحوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ محبت میں پہلی سطح کشش (Attraction) کی ہے۔ لاشعوری طور پر جسم کی زبان ہماری آمادگی کا اظہار کرتی ہے۔ ایک پُرجوش مسکراہٹ، آنکھوں میں جھانکنا، محبت کے سچے جذبے کی تلاش بھی ہو سکتا ہے اور وقتی جنسی تعلق کی خواہش بھی۔ کشش کے بعد روحانی محبت کی منزل آتی ہے۔ فرد اپنے محبوب کے کانوں میں کہتا ہے ’’میں تمھارے لیے آسمان سے ستارے بھی توڑ کر لا سکتا ہوں۔‘‘ میٹھی میٹھی باتیں تحفہ عام طورپر رومانی محبت کے جذبے میں شدت پیدا کرتے ہیں۔ لیکن حیاتیاتی کیمیا دان یہ بتاتے ہیں کہ روحانی محبت کا یہ جذبہ بھی چند سال بعد اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔

محبت کی اگلی سطح وہ ہوتی ہے جس میں محبت کرنے والے ایک مضبوط بندھن میں بندھ جاتے ہیں۔ شادی محبت کرنے والوں کو ایک دوسرے کی انتہائی قربت مہیا کرتی ہے۔ اس سے ہمیں اپنی جبلتوں کی تسکین کا موقع ملتا ہے جن کا تعلق ہمارے قدیم دماغ سے ہے۔ جبلت کی تسکین کے ساتھ ساتھ شادی ہمیں اپنی نسل کو آگے بڑھانے میں بھی مدد دیتی ہے۔ ہماری ذات کے تسلسل کا ذریعہ بنتی ہے۔ محبت میں آخری سطح شاید وہ آتی ہے جسے ہم وابستگی (Attachment) کا نام دیتے ہیں۔ جسمانی تعلق سے آگے نسلی بقا کے تصور سے دُور صرف ایک دوسرے کے وجود سے وابستگی، محبت کی یہ وہ سطح ہے جو یقیناًچار سال کے بعد ختم نہیں ہوتی۔

محبت ایک ایسا موضوع ہے جس کے بارے میں حرف آخر کہنا تو ممکن نہیں ہے البتہ اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ محبت ایک ازلی و ابدی جذبہ سے جو پورے کرہ ارض پر بسنے والے انسانوں میں پایا جاتا ہے۔ محبت کے جذبے نے ناصرف انسانی زندگی کو رنگا رنگی سے آراستہ کیا ہے بلکہ اس نے نسل انسانی کو برقرار رکھنے اور آگے بڑھانے میں بھی مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ محبت ایسا انسانی جذبہ ہے جو زندگی کے ہر حصے میں ہمارے ساتھ چلتا ہے اور جس کے بغیر انسانی زندگی ناممکن ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

تجزیات آن لائن

Facebook Comments