• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اہلِ مغرب کے لیے جوتعمیر ہے،ہمارے لیے تخریب ہے۔۔اسد مفتی

اہلِ مغرب کے لیے جوتعمیر ہے،ہمارے لیے تخریب ہے۔۔اسد مفتی

برطانہ کے وزیراعظم اور حکمران پارٹی کے بورس جانسن  نے اپنی ایک تقریر میں کہا ہے کہ حکومت کسی بھی سطح پر نسلی تعصب برداشت نہیں کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت برطانیہ اور دوسرے مذاہب کے ساتھ مذہبی اور نسلی تعصب سے بخوبی آگاہ ہوچکی ہوگی۔تاہم قانون سازی کے لیے مفروضوں کے بجائے ٹھوس حقائق اور شواہدمدِ نظر ہوتے ہیں،اور انہی حقائق کو بنیاد بنا کر نئے قوانین بنائے جاتے ہیں،جس سے قانون سازی کا کام آسان اور مستقل بنیادوں پر ہوتا ہے،انہوں نے اقلیتوں کو یقین دلایا کہ ڈری سہمی حکومت معاشرے کو ہر طرح کے تعصب سے پاک کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ مغرب کے “حقائق”ہم سے لگا نہیں رکھتے،اور ہماری معاشرتی اقدار اور مذۃب کو سوٹ نہیں کرتے۔جو کام اہل مغرب کے لیے تعمیر ہے،وہ زیادہ تر ہمارے لیے تخریب سمجھا جاتا ہے۔یہاں بات نقطہ نظر کی آجاتی ہے۔ایک عمل جسے ہم اپنے لیے تعمیری سمجھتے ہیں،کسی دوسرے معاشرے یا گروہ کے لیے وہ تریبی کارروائی ہوسکتا ہے۔نقطہ نظر ہی ایک ایسی شئے ہے جو عمل کثیف کو عملِ لطیف میں بدل دیتا ہے۔گالزوردی نے ایک ڈرامہ “جدوجہد”لکھا تھا،جس کے شائع ہونے پر برطانیہ میں اتنی ہلچل مچی کہ پارلیمنٹ کو اپنے مختلف محکموں اور اداروں میں اپنے قوانین کو جانچ کرنئے سِرے سے قوانین وضح کرنے پڑے یاپرانے قوانین ہی میں تبدیلی کرنی پڑی۔۔
میں سمجھتا ہوں اگر ایسا کوئی ڈرامہ لکھا بھی گیا ہے تو اس نے بھی ظالموں کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں اور ان کو یہ بتایا ہے ککہ ان کے ظلم کی دیوار میں شگاف نہیں،تاکہوہ اسے پُرکرسکیں۔۔اس طرح اس نے ان کا ساتھ دیا ہے۔
اب دوسرا نقطہ نظر دیکھیے۔۔تقسیمِ ملک سے پہلے کا واقعہ ہے،ایک ہندوستانی عدالت میں ایک مقدمہ پیش ہوا،یہ ایک قتل کا مقدمہ تھا،قاتل کی طرف سے اُس وقت کے چوٹی کے وکیل محمد علی جناح تھے،وارداتِ قتل بہت واضح تھی۔۔مقدمے کی تمام کارروائی اس طرح چل رہی تھی۔۔گویا قاتل کو سزا ہوکر رہے گی۔گواہوں کے بیانات صاف بتارہے تھے،کہ قاتل مجرم ہے مگر قائد اعظم محمد علی جناح نہایت مطمئن تھے،وہ عدالت کی کارروائیوں میں بظاہر دلچسپی نہیں لے رہے تھے۔قاتل اور اس کے ساتھیوں کو محمد علی جناح کے اوپر شبہ ہوا کہ وہ کسی وجہ سے مقدمے کی طرف سے غافل ہوگئے ہیں،اور ان کے اس رویے کی وجہ سے اُسے سزا ہوجائے گی۔اور یہ کہ وہ قاتل کوسزا دلوا کر رہیں گے۔مگر قائد اعظم محمد علی جناح ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ اطمینان رکھو،کچھ نہیں ہوگا۔۔دن گزرتے رہی،پیشیاں ہوتی ہیں،یہاں تک کہ پھانسی کی سزا کا فیصلہ ہوگیا۔مگر محمد علی جناح اب بھی مطمئن تھے،قاتل کے چیخنے چلانے پر بھی ان کے اوپر کچھ اثر نہ ہوا۔۔وہ اطمینان سے بولے،”بھروسہ رکھو،میں جو کہتا ہوں کہ کچھ نہیں ہوگا”۔۔
اس کے بعد اعلان ہوا کہ فلاں تاریخ کو اتنے بجے قاتل کو پھانسی دی جائے گی،محمد علی جناح بدستور مطمئن رہے،یہاں تک کہ پھانسی کا وقت آگیا۔پھانسی کے وقت محمد علی جناح اپنے پورے وکیلانہ طمطراق اور لباس کے ساتھ پھانسی گھاٹ پہنچے،اور نہایت خاموشی کیساتھ پوری کارروائی دیکھتے رہے،تب آخری لمحہ آیا اور ہینگ مین نے پھانسی پر لٹکانے والی رسی کا حلقہ قاتل کی گردن میں ڈالا تو محمد علی جناح فوراً بولے کہ بس۔۔اس سے آگے اگر کچھ اور کیا تو تم سب لوگوں کو پھانسی پر چڑھا دوں گا،
اب سارے لوگ حیران ہوگئے۔
محمد علی جناح نے کہا جج نے اپنے فیصلے میں جو الفاظ لکھے ہیں وہ یہ ہیں،کہ اس کی گردن میں پھانسی دی جائے
He shall be hanged, by the neck.
اور ملزم یا مجرم کی گردن میں پھانسی کا پھندا ڈالنے کے بعد اس حکم کی تعمیر ہوگئی،اب اس سے آگے آپ اور کچھ نہیں کرسکتے،اُس وقت تک پورے ہندوستان میں پھانسی کے ہندوستانی قانون میں اتنے ہی الفاظ تھے
قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی ذہانت اور قانون کے علم میں دسترس سے ایک مجرم کو پھانسی کے تختے پر بھی بچا لیا۔
اس واقعے کے بعد نیا قانون پاس کیا گیا،جو آج تک رائج ہے۔
جس میں یہ الفاظ لکھے جاتے ہیں،کہ مجرم کی گردن میں پھانسی دی جائے،تاوقتیکہ وہ مر جائے!
He shall be hanged by the neck,till he is dead.
میرے پیارے قارئین حکومت برطانیہ کی نظر میں ٹھوس حقائق اور شواہد لفظی موشگافیوں کے سوا کچھ اور نہیں،انہوں نے اپنے معاشرے اور سوسائٹی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے قوانین وضح کرنے ہیں،اس قسم کی لفظی موشگافیاں دنیا میں اکثر لوگوں کے لیے بہت مدد گار ثابت ہوتی ہیں،اس کے ذریعے آدمی عدالت کی پکڑ سے بچ جاتا ہے،اور سرخرو بی ہوجاتا ہے،اور ہم جہاں ہوتے ہیں وہیں کے وہیں رہتے ہیں۔
یہ ہمیں ہیں کہ تیرا درد چھپا کر دل میں
کام دنیا کے بدستور کیے جاتے ہیں!

Facebook Comments