بیوی۔۔عارف خٹک

ہماری شادی کو پانچ سال ہوگئے تھے مگر مجال ہے ان پانچ سالوں میں ایک دفعہ بھی خوشی کا ایک پل نصیب ہوا ہو۔ ہر وقت اس کے جسم سے لہسن کے بھپکے اٹھتے تھے۔ جب بھی موڈ بنا کر گھر آتا۔ دوپٹہ سر پر باندھے دھوبنوں کی طرح کپڑے دھوتی رہتی۔ میں رومانٹک ہوکر کبھی اس کو اپنے قریب کرنے کی کوشش کرتا تو آگے سے مچل کر اٹھ جاتی “اس کام کے علاوہ تجھے کوئی اور بھی کام ہے؟” کہہ کر میرے جذبات کا بلتکار کرڈالتی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہر ہفتہ بیگم کا رشتہ داروں کی میتوں میں، خاندان بھر کی روٹھی بیویوں کو منانے میں گزر جاتا۔ پچھلے دنوں تو حد ہوگئی تھی میرا بھائی پشاور سے دو دن کیلئے آیا تھا۔ اس نے مجھے کمرے سے باہر پھینکا کہ “اچھا نہیں لگ رہا کہ دیور کی موجودگی میں،میں تیرے ساتھ سوؤں”۔
اماں ہمارے گھر دس دن کیلئے تھی اور وہ دس دن مجھے اکیلے کمرے میں گزارنے پڑے تھے کیونکہ میری نیک پروین بی بی کو ساس کے سامنے میرے ساتھ لیٹنا گوارا نہیں تھا۔۔
میرے دوست روز اپنی بیویوں اور گرل فرینڈز کی ہیجان انگیز کہانیاں سناکر مجھے نفسیاتی مریض ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ اس دن میں نے فیصلہ کیا تھا کہ یا تو اس عورت سے جان چھڑالوں گا یا اس کو ایسا سبق سکھاؤنگا کہ تاحیات یاد رکھ سکے۔۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی میں نے قمیض اُتارتے ہوئے کہا
” تم جیسی نفسیاتی بیوی کے ہوتے ہوئے میں ہمیشہ ناکام ترین ہی کہلاؤں گا”۔
وہ حیرت زدہ میرا منہ دیکھنے لگی۔
“خیر تو ہے آج گھر آتے ہی گولہ باری شروع کردی۔ مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے؟”۔ وہ لاچارگی سے مجھے گھورنے لگی۔
“تیرے جیسی نفسیاتی اور بے غیرت بیوی جس کی بھی ہو وہ میری طرح پاگل ہی کہلائے گا”۔ میں نے اعلان جنگ کردیا۔
اس نے بھی بچی کو بستر پر پٹختے ہوئے اعلان جنگ کردیا۔ اور چنگھاڑتی ہوئی بولی۔۔
“کیا کہا؟میں نفسیاتی ہوں؟”
تُرکی بہ تُرکی جواب دیتے ہوئے میں بولا۔ “تیری اماں نے اگر اپنے شوہر کی عزت کی ہوتی۔تو آج تم نے بھی میری عزت کرنے کا ڈھنگ سیکھا ہوتا”۔
اُس نے دوپٹہ دُور پھینکا اور میری نظریں وہاں گئیں۔ جہاں میری شیر خوار بچی کی جاتی ہیں۔ میں نے آنکھیں میچ لیں۔
“کون سی تیری دُم پر پاؤں رکھ دیا ہے، جو اب بات میری ماں کے کردار پر آگئی؟”۔ وہ جیسے ٹرانس میں تھی۔ وہ باقاعدہ پُھنکارنے لگی۔
“تیری ماں کی تربیت ٹھیک ہوتی تو آج مجھے دوستوں کے سامنے  شرمندہ نہیں ہونا پڑتا”۔
میں مسلسل اسے  کچوکے لگا رہا تھا۔
“تیرا پورا خاندان نفسیاتی ہے”۔ میں نے دوبارہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر غراتے ہوئے جواب دیا۔
وہ ہل سی گئی۔ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے ناگن کی طرح پھنکارنے لگی۔
“میں مزید تیرے جیسے مرد کیساتھ نہیں رہ سکتی۔”۔ اس نے گویا اپنا آخری فیصلہ سنا دیا۔
“مجھے خوشی ہوگی کہ تم مجھ سے خلع لو کم از کم حق مہر کے چالیس لاکھ جو تیرے لالچی باپ نے نکاح کے وقت ہنگامہ مچاکر لکھوائے تھے  ،وہ تو بچ جائیں گے”۔ میں نے خوشی سے نسوار سنگ مرمر کے فرش پر تھوکتے ہوئے گویا اس کے منہ پر تھوکا۔۔۔
“ٹھیک ہے اب عدالت میں بات ہوگی۔ اپنی بچی سنبھالو میں تھوکتی بھی نہیں اس کتی زندگی پر۔ کیا ملا تیرے ساتھ ان پانچ سالوں میں سوائے ذلالت اور گالیوں کے؟”۔ اس نے بچی پر آخری نظر ڈالی اور سامنے الماری کی طرف بڑھ گئی جہاں اس کے کپڑے ٹنگے ہوئے تھے۔۔
“کیا ملا میرے ساتھ تجھے؟۔ مہینے کا دو لاکھ تیرے ہاتھ پر رکھتا ہوں۔ عیاشیاں کررہی ہو۔ گاڑی میں گھومتی ہو۔ تیرا خاندان پل رہا ہے۔ پھر بھی پوچھتی ہو کیا ملا تجھے؟”۔ میں نے گویا آج اپنا دل سامنے رکھ کر اس کا دل چیرنے کی ٹھانی تھی۔ “مجھے کیا ملا تیرے ساتھ؟۔ مہینے کے تیس دنوں میں چار بار لیٹتی ہو میرے ساتھ۔ وہ بھی پیاز کی گندی  بو سمیت اگر مہینے کے دو لاکھ کو چار بار ہمبستری سے تقسیم کروں تو تیرا دس منٹ کا ایک بار لیٹنا مجھے پچاس ہزار میں پڑتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر دو مہینے تجھے پیسے نہ دوں تو چار لاکھ میں ٹک ٹاک کی سائلنٹ گرل کیساتھ  پورے پاکستان میں مشہور ہوسکتا ہوں۔ لوگ کہیں گے وہ دیکھو بابا سیالکوٹ کا شکاری”۔ میں غصے سے باقاعدہ چیخنے لگا۔ گھبرا کر میرا منہ دیکھنے لگی۔ اس کو یقین نہیں آرہا تھا کہ میں ایسا بھی بول سکتا ہوں۔
میری آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں۔ “دفع ہوجاؤ میرے گھر سے میری زندگی سے”۔ میں کرسی پر گویا ڈھے سا گیا۔
کمرے میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ وہ چلی گئی تھی۔ بچی بھی شاید سو گئی تھی۔کیونکہ۔کمرے میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ بچی کا سوچ کر میرے دل کو کچھ ہونے لگا۔ میں نے بے تابی سے مڑ کر بچی کو دیکھنا چاہا۔۔۔۔۔ تو وہ بچی کے پاس سرجھکائے بیٹھی خاموش آنسو بہا رہی تھی۔ میرا دل بالکل بھی نہیں پسیجا۔ میں نے اپنا چہرہ موڑ  لیا اور سامنے ٹیبل پر دھرا اپنا بٹوہ دیکھنے  لگا۔
تھوڑی دیر بعد مجھے اپنے کندھے پر اس کا ہاتھ محسوس ہوا۔ میں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ بالآخر وہ میرے پیروں میں بیٹھ گئی۔ آنسو بھری آنکھیں اٹھا کر کہنے لگیں۔ “آجاو ۔۔۔۔۔”۔ اس نے دوپٹہ پھینک دیا اور تن کر کھڑی ہوئی۔ اس کی آنکھوں میں تیرتے سرخ ڈورے گہرے ہوتے جارہے تھے۔ میں بے اختیار اس کی انکھوں میں ڈوبنے لگا۔ مجھے پہلی بار اس کی آنکھیں خوبصورت لگنے لگیں۔ میں نے بے اختیار اس کا کومل چہرہ دونوں ہاتھوں سے تھاما کہ اس نے میرے دونوں ہاتھ جھٹک دیئے۔ “میں ایک سیشن کا دس ہزار لیتی ہوں۔ ہیپی اینڈنگ کا پانچ ہزار اور مکمل پیکج کا پندرہ ہزار چارج کرتی ہوں”۔ اس نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں مٹکاتے ہوئےخالص پیشہ وارانہ لہجے میں مطالبہ کیا۔
“جانو میرے بٹوے میں اس وقت دس ہزار ہے۔ کیا پانچ ہزار ادھار ہوسکتا ہے؟”۔ میں ذلالت کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہوتے ہوئے گویا ہوا۔
“ایسی عورتیں  ادھار نہیں کرتیں۔ کیش ہے تو بات کر نہیں تو ہیپی اینڈنگ پر اکتفا کرو۔” اس نے فیصلہ کن لہجے میں اپنا فیصلہ سنا دیا۔
“ٹھیک ہے ہیپی اینڈنگ میں خود کرلونگا مگر پہلے اپنا حلیہ درست کرو “۔ میں نے تلملاتے ہوئے اس کو حال میں کھینچنا چاہا۔
“ٹھیک ہے کل فرید بھائی کی فیملی کی دعوت کرنی ہے۔ ان کی بہو کے انتقال پر آپ گئے بھی نہیں کم از کم میری شرمندگی کم ہوجائیگی۔ اجازت دوگے؟”۔ وہ واپس بیوی کے روپ  میں آتے ہوئے بولی۔۔
میں نے اس کو قریب کرتے ہوئے بے بسی سے کہا “جو کرنا ہے کرو”۔اور اس کے نرم ہونٹوں میں  اپنے ہونٹ پیوست کردیے۔

Facebook Comments