ڈارک ائیر(Dark Year)۔۔۔عذرا بتول

سال 2020 شروع ہوا تو باقی تمام  برسوں  کی طرح اسے بھی خوش آمدید کہا گیا، اس کے اچھا گزرنے کی دعائیں اور نیک تمنائیں کی گئیں ۔
پر ہمارے لوگ یہ نہیں جانتے تھے کہ زمین پر یہ سال کچھ نئے طریقے سے گزرنے والا ہے ۔ 2020 کی  شروعات میں دنیا کو علم ہوتا ہے کہ وہ ایک خطرناک وائرس کی میزبانی کرنے جا رہی ہے، جو کہ ہلاکو خان اور چنگیز خان سے بھی زیادہ سناٹا  طاری  کردے گا ۔لوگ اس بار یوں گھروں کو لوٹ آئے جیسے سارا دن رزق کی تلاش میں گھومتا  پرندہ شام کو گھر لوٹ آئے ۔ انسانوں نے بالکل نئے طرزِ کی زندگی کا تجربہ کیا ۔۔۔ خیر انسانوں نے تو پہلے بھی کر رکھا ہے ایسے حادثات کا سامنا ،کیونکہ ماضی میں بھی ایسی وباؤں کا ثبوت ملتا ہے ،پر اس دور کے انسانوں کے لئے یہ بات بالکل نئی تھی ۔۔
ایک ایسا وقت جب ٹیکنالوجی اپنے عروج پر تھی، اور دنیا ستاروں سے آگے کے جہان سے نہ صرف واقف تھی بلکہ عازم سفر ہوا چاہتی تھی ۔۔ انسان اپنے جیسے انسان مصنوعی طریقے سے پیدا کرنے پر قدرت پا رہا تھا، اور دنیا کو جنت بنانے جارہا تھا ۔ وہیں ایک ایسی وبا جنم لیتی ہے جو بیک وقت انسان کو عالم و جاہل ثابت کر دیتی ہے ۔لوگ گھروں تک محدود ہو جاتے ہیں ۔ ایک ایسی بیماری جو سیلف آویئر حملہ آوروں سے لیس تھی ۔ جسے اپنا دفاع کرنا بھی آتا تھا ۔ اور میزبان جسم ( ہوسٹ ) کے ماحول کے مطابق خود کو ڈھالنا اور پھلنا پھولنا بھی ۔

میں نے جب نینو ٹیکنالوجی پڑھی تو مجھے لگتا تھا کہ انسانیت اب سب چیزوں پر قدرت رکھتی ہے، ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنا جانتی ہے ۔لیکن یہ میری خام خیالی تھی۔۔

کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ کسی انسان ہی کا پیدا کردہ وائرس تھا جو زمین پر آبادی کو کم کرنا چاہتا تھا، اور ساتھ ساتھ سوپر پاور کی بادشاہت کو ختم کرنا چاہتا تھا ۔ اگر ایسا ہوا بھی ہے تو انسانیت ابھی تک وحشت کی خصلت کو اپنے ساتھ لئے گھوم رہی  ہے ۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے ۔

ہمنئے  سال کی ابتدا پر  گزرے  سال کو مڑ کر دیکھ رہے ہیں کہ کیسے گیا اور کدھر گیا ۔۔۔ اُس سال ہم نے بے شمار انسانی جانوں کا ضیاع دیکھا ۔ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والا شخص اس سے متاثر ہوا ۔ لوگوں کو گھروں میں قید رہنا پڑا ۔ آن لائن ہوتا رہا سب ۔ پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں کئی عظیم شخصیات گزر گئیں ۔  معیشت کو نقصان پہنچا ۔

ایس او پیز ،ایس او پیز کی رٹ لگی رہی ۔۔ حکومت ناکام ہے ،ناکام ہے کے راگ الاپے جاتے رہے۔۔ اور حلیمہ بی بی دلوں پر راج کرتی رہی ۔ گلی گلی شہر شہر بچے اپنی  بغل میں ڈنڈے اور تلوار نما سوٹے دبائے گھومتے رہے کہ کہیں سلجوقی حملہ نہ کر دیں ۔ نومولود ،ماؤں کو حیرت سے دیکھتے یہ جمعہ جمعہ آنیوالا شخص روز گھر پر کیا کر رہا ہوتا ہے ۔

پنجاب نہیں جاؤں گی کو ری نیم کیا گیا ” باہر نہیں جاؤں گی” ۔۔۔۔اور سکول پہلی بار گھر آگئے ۔

عوام کو فینائل پلانے کے بدلے لوگوں نے ٹرمپ کو چنے چبوائے ۔۔ ویرات  کوہلی چوکے کی جگہ پوچا مارتے دکھائی دیے ۔۔مس ورلڈ برتن مانجھتے جبکہ سپائیڈر مین جالے صاف کرتا دیکھا گیا ۔ کوئی منی بدنام نہ ہوئی کیونکہ اس سال ماسک کا راج رہا ۔۔  دبنگ نے اس سال بھنگ پر گزارا کیا ۔ انمول رتن ایک ماسک دوجا صابن رہے ۔
جگجیت جی نے گیت امر کرنے کے لئے اس بار ریاض سے ہی کام چلایا۔۔

معصوموں کے سروں پر شفقت کا ہاتھ سینیٹائز کر کے رکھا گیا ۔ کسی سازش میں کسی کا ہاتھ نہیں تھا اس بار کیونکہ ہاتھ صرف “دھونا”تھا ۔۔۔ بابو لوہار کا ڈھائی کلو کا ہاتھ دھو دھو کر ایک پاؤ کا رہ گیا۔۔۔۔ بیٹی کا ہاتھ مانگنے سے پہلے سو بار سوچا اور دھویا گیا ۔
آؤٹنگ بھی گھر کے اندر کی گئی۔

گیمز کھیلنے سے صحت اچھی رہتی ہے اس بات پر نوجوانوں نے خوب عمل کیا ساراسال لاک ڈاؤن پب جی کھیل کر گزارا ۔

پورا سال کسی شخص کو کسی چیز کا بخار نہیں چڑھا ۔ سب سے زیادہ وائرل ہونے والی چیز وائرس خود رہا ۔ اپنے نام کی لاج رکھی اور کاپی رائیٹ پر سب کے گلے گھونٹے۔۔۔
سانس دبایا اور ہاتھ دھلوا دھلوا کر نانی (مریم نواز )دکھاتا اور یاد کراتا رہا ۔

سب سے زیادہ ہٹ گانا ” پردے میں رہنے دو” رہا ۔۔۔ دنیا میں پہلی بار پازیٹیو یعنی مثبت کے لفظ نے لوگوں کو ڈرا کر رکھا ۔ لاک اپ سے زیادہ لوگ لاک ڈاؤن سے دور بھاگتے رہے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ تھا سال دو ہزار بیس کھٹی میٹھی یادوں کے ساتھ ۔۔۔اللہ سے دعا ہے کہ 2021 انتہائی خوش گوار اور ہر طرح سے پاک صاف رہے ۔۔لوگوں سے درخواست رہے گی کہ ہر طرح کی وبا کے خاتمے کے باوجود ماسک پہننا جاری رکھیے گا ۔ اس سے بہت سی اخلاقی برائیوں سے بھی انسان بچا رہتا ہے ۔ سب مساوی درجے پر آجاتے ہیں ۔۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو سیدھی راہ چلنے کی توفیق دے ۔۔ آمین!

Facebook Comments