ہیلتھ سسٹم پہ حملہ ریاست پہ حملہ ہے۔۔لائبہ زینب

کرونا وائرس کے دوران جو طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے وہ طبقہ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل  سٹاف کا ہے۔اس کے علاوہ وہ لوگ بھی اس میں شامل ہیں جو سرکاری سطح پر ایمر جنسی خدمات سرانجام دینے پر متعین ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں صحت کے شعبے پر جو شکوک و شبہات پہلے سے ہی عام ہیں وہ یہ ہیں کہ ڈاکٹر حضرات صرف اور صرف پیسہ بنانے کے لیے کام کرتے ہیں یا یہ لوگ طب کے شعبے میں اس لئے آتے ہیں وہ پیسے کما سکیں۔ ایک صحافی کی حیثیت سے میں ایسی کسی صورت حال سے یکسر انکار نہیں کر سکتی کہ ڈاکٹروں نے یا میڈیکل  سٹاف نے پیسوں کے لیے کوئی غلط بیماری یا غلط علاج تشخیص نہیں کیا ہوگا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کے ایسے کیسوں کی تعداد بہت کم ہے جبکہ زیادہ تر ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل  سٹاف اپنے فرائض مکمل ذمہ داری سے ادا کر رہے ہیں ۔

میرا یہی مشاہدہ ہے کہ جب بھی کوئی مریض ہسپتال میں آتا ہے تو ڈاکٹروں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ مکمل صحت یاب ہوکر اپنے گھر جائے ۔میرے اپنے خاندان میں اکثر لوگ طب کے شعبے سے وابستہ ہیں ۔ میں نے یہ بھی دیکھا ہے اگر کسی ڈاکٹر کا مریض خطرے کی حالت میں ہوں اور اس کی طبیعت بہت خراب ہو تو ڈاکٹر کی اپنی جان پہ بن جاتی ہے وہ اپنے مریض کی صحت کا بہت دھیان رکھتے ہیں لہذا یہ رویہ اور روش، کہ اگر کسی کے مریض کی طبیعت خراب ہوگئی یا خدانخواستہ اس کی وفات ہوگئی تو ایسی صورتحال میں اکثر لوگ طبی عملے اور ڈاکٹر پر الزام دھر دیتے ہیں اور یہ الزامات لگاتے ہیں کہ ہمارے مریض کی موت کی وجہ ڈاکٹروں اور طبی عملے کی غیر ذمہ داری ہے ۔اس وجہ سے طبی عملے اور ڈاکٹروں کو مارپیٹ کی جاتی ہے اور ہسپتالوں میں توڑ پھوڑ کی جاتی ہے۔ میں یہ سمجھتی ہوں کہ ہسپتال ہمارے ریاستی ادارے اور سرمایہ ہیں۔ ہسپتال اور صحت کی دیگر سہولیات پر حملہ کرنا یا انہیں نقصان پہنچانا عوامی سہولیات پر براہ راست حملہ کرنے کے برابر ہے اور ایسا کرنے والے لوگ ریاست اور سماج کے دشمن ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمارا ہیلتھ کیئر سسٹم پہلے ہی بہت کمزور ہے اور اگر ایسے حملے اور وار ہمارے ہیلتھ سسٹم پر ہوتے رہے تو ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کے لئے بہت مشکل ہو جائے گا کہ وہ کسی بھی مریض کا علاج کر سکیں ۔جہاں ہم مریضوں کی صحت اور سلامتی کی بات کرتے ہیں وہاں ہمارے لئے یہ بھی بہت ضروری ہے کہ ہم ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی عزت احترام اور حرمت کے لیے بھی آواز بلند کریں۔

 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply