ایڈمن کے چونچلے اور ہم۔۔عارف خٹک

لوگ تین ہزار ممبران کے  گروپس کے ایڈمن ہوکر زمین پر پیر نہیں رکھتے۔ ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی آکر وال پر لکھ دیتا ہے۔
“للہ ایڈمن صاحب ہماری  پوسٹ پر نہیں آتے ،شاید ناراض ہیں”۔
کوئی خاتون ترنگ میں آکر لکھ دیتی ہیں۔
“ایڈمن جی اگر موڈ اچھا ہو تو  آج کا ناشتہ میں کروا دوں؟”۔
ایڈمن صاحب جنرل باجوہ صاحب  سوری وہ شریف بندہ ہے اپنے خان صاحب  کی طرح کسی ناپسندیدہ پوسٹ پر جو صاحب کی طبعیت پر گراں گزرے۔ احسان کرتے ہوئے لکھ مارتا ہے۔
“حضور یہاں مذہبی بحث کی اجازت قطعا ً نہیں ہے۔ آزادی اظہار رائے کا میں بھی حامی ہوں مگر خبردار اگر کسی نے مولوی ٹائپ پوسٹ لکھا”۔
اگلے دن خواتین کی موجودگی میں وہی مولوی کترینہ کیف یا میاخلیفہ کی ادھ ننگی تصویر جس میں دونوں کا منہ معلوم نہیں کیوں کھلا ہوتا ہے اور زبان باہر نکلی ہوتی ہے،ذومعنی کیپشن کیساتھ لکھ دیتا ہے۔ “پانی بچائیں کیونکہ یہ بیچاری پیاس سے مر رہی ہے”۔

وہ خواتین جو قاری حنیف ڈار صاحب کی وال پر تسبیحات اور درد سلام اور ہماری وال پر لعنتیں دیتے نہیں تھکتیں وہ بھی “شرمانے والے ایموجی” چپکا کر اسی پوسٹ پر بھنگڑے ڈالتی ہیں۔

میں نے ان گناہگار آنکھوں سے ایسی خواتین بھی دیکھی  ہیں، جو اخلاقیات اور شرافت کا مرقع نمونہ، شاید اس روئے زمین پر نہ  ہو۔ جن کی زیادہ حاضریاں روحانی اور مذہبی مضامین  پر یقینی ہے مگر گروپ میں وہ بھی آکر ہمیں باور کرواتی  ہیں۔ “بیوی اگر اجازت نہ دے اور شوہر ہمبستری کرے تو یہ ازدواجی زنا بالجبر یعنی مریٹیل ریپ کے زمرے میں آتا ہے”۔ یا “اگر شوہر اپنی بیوی کو مطمئن کرنے کا اہل نہ ہو اور روز بیوی پیاسی رہ جاتی ہو تو آپ کا “اسلام” اس بیوی کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ ۔کہ نیک بیبیوں کی طرح شوہر کو مرشد محمد موسی کی وال پر چھوڑ آئے یا بیویوں کو عارف خٹک کیساتھ منہ ماری کی اجازت ہے؟”۔

میرا دل کررہا ہے کہ بقلم خود کو، ظفر عمران کو اور صفی سرحدی کو زنگ آلود گولی سے اُڑا دوں کہ موت مانگے تو موت نہ ملے اور زندگی کی چاہ نہ رہے، اڑتالیس ہزار ممبران بمعہ پاک و ہند کے مشہور و معروف “زندہ ادیبوں” کا گروپ “عالمی افسانوی ادب” چلا رہے ہیں اور ہماری بیویاں اور مائیں رات کو آکر ہم سے کہتی ہیں۔ “ذلیلوں معیار ایسا ہوتا ہے جو “عالمی افسانوی ادب” کا ہے۔ تم لوگ نری ذلالت لکھتے ہو،جہالت کے استعارے ہو”۔

صفی کو تو چھوڑیں دو منٹ میں لبرل ازم کا باپ “جان لاک” بن جاتا ہے اور اگلے دن مولانا مہاتما بدھا بن کر گیان بانٹ رہا ہوتا ہے۔ میں تو گیارہ لاکھ ممبران پر مشتمل ایک نیوز پورٹل بھی چلا رہا ہوں۔ مجال ہے کسی خوبصورت لونڈے نے انباکس آکر بھی پوچھا ہو “حضور والا کچھ نظرکرم ادھر بھی”۔

سوچتا ہوں کہ ‘اب ہر بندہ انعام رانا تھوڑی ہوتا  ہے  کہ “مکالمہ” کی بنیاد رکھ کر اردو ادب کو انڈر ویئر پہنانے چلے تھے ،اور اب اسی پلیٹ فارم پر ہماری بیگمات اور بہنوں کو سستے زیرجامے بھی بیچ رہا ہے’۔

بھیا اپنی تو  ایک ہی خواہش ہے کہ کاش کوئی ایک نازنین ہمارے لئے بھی لکھ دے بلکہ اشارہ بھی کردے کہ
“ایڈمن صاحب!  آج موڈ ٹھیک ہو تو ناشتہ کروا دوں؟”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قسم خدا کی اپنی  جیب سے ناشتہ بھی کراؤنگا اور آپ کی میٹھی میٹھی گالیاں بھی سننا چاہونگا۔ بس ایک بار عزت دینی شرط ہے!
مگر
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے۔۔۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply