• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • قائد اعظم تیری فلسطین پالیسی کی خیر ہو۔۔ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ

قائد اعظم تیری فلسطین پالیسی کی خیر ہو۔۔ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ

ہمارے قائد 25 دسمبر کو پیدا ہوئے۔ جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو طوفانوں سے نکال کر نئی عظیم الشان مملکت کو قائم کیا۔ قائد اعظم کی بصیرت ہر گذرتے دن کے ساتھ واضح ہوتی جا رہی ہے، انڈیا میں جس طرح مسلم عوام کو دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے، سینکڑوں سال سے قائم بابری مسجد کی جگہ سپریم کورٹ مندر بنانے کی اجازت دیتی ہے اور وہاں کا ہندوتوا استعمار جس طرح ریاست کے وسائل سے مندر کی تعمیر کا آغاز کرتا ہے، یہ باعث تعجب لگتا ہے۔ اس وقت بڑے بڑے نام سافٹ ہندوتوا کے سیکولرزم کے جھانسے میں آگئے تھے، قائد نے کافر اعظم کہلوانا پسند کر لیا مگر ان پر اعتبار کرنا پسند نہیں کیا۔ انڈیا میں کسانوں کا احتجاج ہو رہا ہے اور اسے سکھ لیڈ کر رہے ہیں، ایک سکھ جوان نے پلے کارڈ اٹھایا ہوا تھا، جس پر درج تھا کہ جناح نے درست کہا تھا۔ سچ پوچھیں تو دلی خوشی ہوئی کہ تاریخ کے اس اہم ترین موڑ پر ہمیں قائداعظم سا رہنماء ملا تھا، ورنہ ہم بھی آج کف افسوس مل رہے ہوتے۔

قائد نے سکھ رہنماوں سے کہا تھا اکٹھا پنجاب بڑی طاقت ہوگا، تمہارے سارے مراکز ہمارے پاس ہیں، ان ہندوتوا کے ظاہری چہروں پر اعتبار نہ کرو۔ تم نے ان کا غلامی کا دور دیکھا ہے، ان کی حکمرانی کا دور نہیں دیکھا، جب ان کا اصل چہرہ نظر آئے گا تو وقت نہ ہوگا۔ میں اکثر کہتا ہوں، لیڈر ایک سو سال آگے تک دیکھتا ہے اور صرف مسائل کی نشاندہی نہیں کرتا بلکہ ان کا حل بھی پیش کرتا ہے۔ قائد ایسے ہی تھے، انہوں نے مسائل کو جانا اور حل پیش کیا۔ پہلی جنگ عظیم میں یورپ نے بڑا نقصان اٹھایا، رہی سہی کسر دوسری جنگ عظیم نے پوری کر دی۔ ایسے میں بین الاقوامی استعمار نے کالونیوں کو آزادی دینی تھی، جاتے جاتے انگریز فلسطین میں خیانت کے مرتکب ہو رہے تھے، اس وقت ہندوستان کا مسلمان جاگ رہا تھا۔ اس وقت کی مسلم لیگ کے اجلاسوں کی کارروائی اس بات کی شاہد ہے کہ مسلم لیگ نے فلسطینی بھائیوں کے لیے بھرپور آواز بلند کی۔

دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کی جانب سے یہودیوں کو فلسطین میں بسانے کی اجازت پر قائداعظم نے شدید تنقید کی اور فرمایا: یہ نہایت ہی بے ایمانی کا فیصلہ ہے اور اس میں انصاف کا خون کیا گیا ہے۔ آج وطن عزیز کے کچھ پیشہ ور ہر چند دنوں بعد یہ ایشو اٹھا دیتے ہیں کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر رہا ہے اور کچھ تو باقاعدہ اس مہم پر ہیں۔ اسرائیل کو تسلیم کروانے کے فضائل ذکر کیے جا رہا ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ کچھ جبہ و دستار بھی اس رو میں بہہ گئے ہیں۔ اب انہیں تعلقات کی اسلامی بنیادیں نظر آرہی ہیں، ویسے ہر دور میں قلم صاحبان اقتدار کے لیے بکتا رہا ہے۔ معروف عالم کی ایک کتاب نظر سے گذری، جو ملوکیت کی اسلامی بنیادیں بتا رہی تھیں اور امت کے متفقہ موقف جو کہ ملوکیت کے خلاف تھا، اسے چیلنج کر رہی تھیں۔ افسوس ہوتا ہے، ذاتی فوائد کے لیے اسلامی نظریات کو بدل دیا جاتا ہے۔ اسرائیل سے تعلقات کے فضائل بتاتے ان بے توفیق جبہ و دستار کی زبان سے کبھی مظلوم فلسطینیوں کے لیے کوئی کلمہ خیر نہیں سنا۔

قائداعظم پر کفر کے فتوے لگانے والے بے توفیق لوگ امت کا ذرہ برابر شعور نہیں رکھتے، قائداعظم نے فرمایا تھا: اسرائیل، یہ امت کے قلب میں خنجر گھسایا گیا ہے، یہ ایک ناجائز ریاست ہے جسے پاکستان کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔ یہ لوگ آج پاکستان کی مالی مشکلات کے بدلے اسرائیل کو تسلیم کروانے کی بات کرتے ہیں۔ قائد اعظم نے اسے اس وقت تسلیم نہیں کیا تھا، جب پاکستان کے پاس لکھنے کے لیے پیپر اور انہیں اکٹھے رکھنے کے لیے پنیں تک نہیں تھیں اور نہ ہی ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے کے پیسے تھے، مگر قائد نے بڑی جرات سے اسرائیل کو ایک خنجر قرار دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر آپ اسرائیل کا نقشہ دیکھیں تو وہ سچ میں ایک خنجر کی طرح ہی دکھتا ہے۔

قائد اعظم کسی بھی عنوان سے فلسطین کی تقسیم کے خلاف تھے، انہوں نے بی بی سی کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا: برصغیر کے مسلمان تقسیم فلسطین کے متعلق اقوام متحدہ کے ظالمانہ، ناجائز اور غیر منصفانہ فیصلے کے خلاف شدید ترین لب و لہجہ میں احتجاج کرتے ہیں۔ ہماری حس انصاف ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم فلسطین میں اپنے عرب بھائیوں کی ہر ممکن طریقے سے مدد کریں۔ قائد اعظم کے یہ فرامین فقط کہنے کی باتیں ہی نہ تھیں بلکہ پہلی عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان نے چیکوسلاواکیہ میں اڑھائی لاکھ رائفلیں خرید کر عربوں کو دیں اور تین جنگی جہاز اٹلی سے خرید کر مصر کے حوالے کیے، تاکہ وہ اسرائیل سے اپنا دفاع کر سکیں، جبکہ ابھی پاکستان خود ایک نوزائیدہ ریاست تھی۔

رائٹر کے نمائندے سے باتے کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا تھا: مجھے اب بھی امید ہے کہ تقسیم فلسطین کا منصوبہ مسترد کر دیا جائے گا۔ ورنہ ایک خوفناک ترین اور بے مثال چپقلش کا سلسلہ شروع ہو جانا ناگزیر اور لازمی امر ہے۔ یہ چپقلش صرف عربوں اور منصوبہ تقسیم کو نافذ کرنے والوں کے مابین نہ ہوگی بلکہ پوری اسلامی دنیا اس فیصلے کے خلاف عملی طور پر بغاوت کرے گی، کیونکہ ایسے فیصلے کی حمایت نہ تاریخی اعتبار سے کی جا سکتی ہے اور نہ سیاسی اور اخلاقی طور پر۔ ایسی صورت حال میں پاکستان کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارۂ کار نہ ہوگا کہ عربوں کی مکمل اور غیر مشروط حمایت کرے اور خواہ مخواہ کے اشتعال اور ناجائز دست درازیوں کو روکنے کے لیے جو کچھ اس کے بس میں ہے، پورے جوش و خروش اور طاقت سے بروئے کار لائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

قائد اعظم کے فرمان کا ایک ایک لفظ درست ثابت ہوا اور پورا خطہ ستر سال سے آگ و خون میں غلطان ہے۔ ہماری بطور ریاست پالیسی کی بنیاد یہی ہے، پوری پاکستانی قوم یہی سمجھتی ہے کہ اسرائیل کا مسجد اقصیٰ پر قبضہ کسی صورت میں قبول نہیں ہے اور اس کے خلاف جدوجہد کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوا اور اس کی بنیاد اسلام ہے۔ یہ دو قومی نظریہ ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ فلسطین کے مسئلے کو عربوں اور مفادات سے ہٹ کر قائد اعظم کی نظر سے دیکھیں۔ کفن چور ریاستوں کے نمائندے پاکستان کو دباو میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں، بس دل سے دعا نکلتی ہے، اے قائد تیری فلسطین پالیسی کی خیر ہو۔ فلسطین سے دستبرداری کے مشورے دینے والے کل کشمیر سے بھی دسبرداری کو حالات کا جبر قرار دے کر دستبردار ہونے کا کہیں گے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے