راستے (27)۔۔وہاراامباکر

آج سے پانچ ہزار سال پہلے کی دنیا کا سیاسی نقشہ بہت لچکدار تھا۔ مختلف واقعات نے اس کی سرحدوں کو مختلف سمتوں میں تشکیل دیا۔ آج یہ بڑی حد تک کسی شکل میں آ چکا ہے۔ تلواریں لہراتے اور بندوقوں سے گولیاں اگلتے ہوئے جنگجووٗں کے کارناموں کے دور کے بعد ملکی سرحدیں ضدی ہو چکی ہیں۔ گھوڑے پر سوار فاتحین یا لوٹ مار کرتے جتھوں کی جگہ عالمی قوانین اور اقوامِ متحدہ جیسے تصورات نے لے لی ہے۔ معیشت اب خزانے لوٹنے کے بجائے انفارمیشن اور مہارت کے انحصار پر چلتی ہے۔ نیوکلئیر ہتھیاروں نے بڑی جنگیں مزید مشکل بنا دی ہیں۔ تجارت، سرحدی تنازعات وغیرہ پر گرما گرم بحثوں کے باوجود سرحدیں تبدیل ہونے سے انکاری ہیں۔ لکیریں کھینچی جا چکیں۔ ہماری زمین کی سرحدیں کوئی بھی شکل اختیار کر سکتی تھیں لیکن وقت کے ساتھ ان میں تبدیلی اگرچہ ناممکن نہیں ہوئی، لیکن مشکل ہوتی گئی ہے۔
کسی شخص کی زندگی میں اس کا دماغ اسی سیاسی جغرافیے کی طرح میچور ہوا ہے۔ نیورل نقشے مضبوط ہوئے۔ ان کی لچک کم ہوئی ہے۔ یہ وہ وجہ ہے کہ سر پر چوٹ بڑی عمر میں زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ بوڑھا دماغ نئے کاموں کے لئے نئی جگہوں کا استعمال نہیں کر پاتا۔ جبکہ وہ دماغ جو ابھی اپنی تشکیل کے معرکوں کی صبح پر ہے، خود کو ڈھال لینے کا اہل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس طرح ہم نے پہلے دیکھا تھا، چھوٹا بچہ کوئی بھی بولی بول سکتا تھا۔ وہ انسانی آوازوں میں زیادہ تفریق کرنے کا اہل تھا۔ اسی طرح بچے اور بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ کلچر کی باریک تفصیلات کو سمجھنا، مذہبی یقین جذب کرنا، معاشرے کے معاملات کے اصول سیکھنا ۔۔۔ اس کے علاوہ وہ اس بات کو بھی سیکھتے ہیں کہ بڑے پیمانے پر انفارمیشن کیسے حاصل کی جائے۔ ورق پلٹا کر، کتابیں کھول کر یا پھر ایک چھوٹی مستطیل کی سکرین پر انگلیاں سرکا کر۔
جب وہ بڑے ہو جاتے ہیں تو کہانی بدل جاتی ہے۔ بے شمار ممکنہ راستوں میں سے کچھ منتخب ہوتے چلے جاتے ہیں۔ سعید ایک خاص نظریاتی گروپ سے تعلق رکھتا ہے۔ ہاباشی کو پیانو بجانا پسند ہے، وہ کبھی بھی سارنگی نہیں بجائے گا۔ سعید کو کھانا پکانا پسند ہے لیکن اس کے پکوان چودہ اجزا کی کمبی نیشن سے ہی بنے ہوں گے اور کچی مچھلی کھانے کا تو وہ تصور بھی نہیں کرے گا۔ ہاباشی اپنا وقت اربوں میں سے چند گنی چنی ویب سائٹس سے باہر نہیں گزارتا۔ سعید کو کرکٹ کا جنون ہے لیکن کسی بھی اور کھیل میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ہاباشی کو اپنی قمیض خریدنے کے لئے خاص قسم کا کالر ہی پسند ہے۔ سعید تمام عمر اپنی حجامت ویسے ہی سٹائل میں بنوائے گا جیسی آٹھ سال کی عمر میں بنواتا تھا۔ بولی سیکھنے کی طرح زندگی گزرانے کا دونوں کا طریقہ بھی الگ ہے۔ دونوں کی عادات زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ راسخ ہو چکی ہیں۔
سعید اور ہاباشی کی کہانی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ بچے بہت پلاسٹسٹی کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں جب کہ بڑے کچھ خاص چیزوں کے ماہر ہو جاتے ہیں لیکن اس کی قیمت انہیں لچک ختم ہو جانے کی صورت میں ادا کرنا ہوتی ہے۔
ہمارے پاس ایک زندگی ہے جس میں اپنا وقت جس پر صرف کر لیں، جن راہوں کا انتخاب کر لیں، وہ ہمارا حصہ بن جاتی ہیں۔ اس پر آگے بڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ دوسری راہوں پر ہم کبھی نہیں جائیں گے۔ مارٹن ہائیڈیگر نے کہا تھا، “ہر شخص بہت سے انسانوں کی طرح پیدا ہوتا ہے لیکن مرتا ایک انسان کے طور پر ہے”۔
یہاں پر سوال یہ کہ نیورل نیٹورک کے حوالے سے عادت کا کیا مطلب ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرض کیجئے کہ دو شہر آپس میں کچھ فاصلے پر ہیں۔ ان کے درمیان سفر کرنے کے بہت سے ممکنہ راستے ہیں۔ کچھ لوگ نظارے کے لئے پہاڑی کے اوپر سے سفر کرتے ہیں، کچھ کو پہاڑی کے سایے میں نیچے سفر کرنا پسند ہے۔ کچھ جنگل کے بیچ میں خطرناک راستے کا انتخاب کرتے ہیں کہ وہ چھوٹا ہے۔ کچھ دریا کے پاس پھسلنی زمین پر سے جاتے ہیں۔ وقت اور تجربے کے ساتھ ایک راستہ زیادہ پاپولر ہو جائے گا۔ زیادہ لوگوں کے اس پر چلنے سے پگڈنڈیاں بن جائیں گی اور یہ سٹینڈرڈ بننے لگے گا۔ کچھ سالوں کے بعد مقامی حکومت وہیں پر سڑک بنا دے گی۔ کچھ دہائیں میں یہ ہائی وے بن جائے گی۔ بہت سے ممکنات میں سے یہ سفر کا سٹینڈرڈ طریقہ بن جائے گا۔
اسی طرح دماغ کے بہت سے ممکنہ راستوں میں سے پریکٹس کئے جانے والی نیورل راستوں پر سڑکیں بناتا جاتا ہے۔ استعمال نہ ہونے والے راستے کمزور ہوتے جاتے ہیں۔ جن نیورونز کو کامیابی نہ ہو، وہ اپنی دکان بند کر کے خود کشی کر لیتے ہیں۔ دہائیوں کے تجربات کے ذریعے دماغ کی حالت ماحول، فیصلوں اور زندگی کی نمائندگی کرتی ہے۔ اور فیصلے ان شاہراہوں کے مطابق ہوتے ہیں۔
بڑی عمر میں ذہن جب تبدیل ہوتے ہیں تو چھوٹے مقامات پر۔ اس کے مقابلے میں بچوں میں تبدیلیاں وسیع پیمانے پر آ سکتی ہیں۔ ایسیٹائل کولین کا براڈکاسٹ سسٹم پورے عضو پر اثرانداز ہوتا ہے۔ بالغ ذہن اپنا سٹرکچر برقرار رکھتا ہے۔ اور ایسا ہونا ضروری ہے۔ ایسا نہ ہو تو جو سیکھا ہے، وہ ضائع ہو جائے۔ ٹھیک نیوروٹرانسمیٹر اس کے تالے محدود جگہوں پر کھولتے ہیں۔ جیسے ماہر مصور تصویر کو مکمل کرنے کے لئے ٹچ دے رہا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچے کی طرح کا لچکدار ذہن ہو تو کیسا محسوس ہو؟ ہم سب عمر کے اس حصے سے گزر چکے ہیں۔ ہمیں اس کا ذرا سا بھی یاد نہیں۔ لیکن اس کا ایک تجربہ کر سکتے ہیں۔ جب ہم کسی بالکل نئی جگہ پر جائیں تو ایک چوکس سیاح کی پلاسٹسٹی اور آگاہی عروج پر ہو گی۔ کسی نئے ملک کے نظارے جذب کر رہا ہو گا۔ زیادہ توجہ کا مطلب زیادہ سیکھنے کی صلاحیت بھی ہو گا۔ اپنے گھر میں یہ توجہ اس لئے نہیں ہوتی کہ سب کچھ معلوم ہے۔ اس کے مقابلے میں نامعلوم مقامات پر راہی کا شعور مکمل بیدار ہوتا ہے۔ یہ بچپنے کے دماغ کی ایک جھلک ہے۔
بالغ اور بچے کے درمیان اس حوالے سے فرق دیکھنا آسان ہے لیکن یہ تبدیلی ایک سیدھی لکیر کی صورت میں نہیں ہوتی۔ یہ ایک دروازے کی طرح ہے۔ ایک بار بند ہو جانے کے بعد بڑے سکیل کی تبدیلیوں کی راہ بند ہو جاتی ہے۔
عادتیں بن جاتی ہیں۔ پختہ ہوتی جاتی ہیں۔ لہجے بدل نہیں سکتے۔ چال ڈھال، چلنا، بولنا، دیکھنا، سماجی عادات ۔۔۔ دنیا کے ڈیٹا کی پراسسنگ کا طریقہ مضبوط ہو جاتا ہے۔ بڑھتی عمر کے ساتھ کچھ اور کرنا مشکل تر ہوتا جاتا ہے۔ جینیات سے آنے والا ابتدائی خاکہ اور عمر کے شروع کے حساس برس کسی کی شخصیت کی تصویر بنا دیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوپرا ونفری میڈیا سپرسٹار ہیں۔ ان کے اثاثے پونے تین ارب ڈالر کے ہیں۔ ان کا گہرا خوف ہے کہ وہ بے گھر نہ ہو جائیں، کوڑی کوڑی کی محتاج نہ ہو جائیں۔ یہ عجیب لگتا ہے کہ لیکن اس کی وجہ ان کی زندگی کا راستہ ہے۔ میڈیا کی ملکہ بننے سے پہلے وہ ایک اکیلی اور غریب والدہ کے گھر پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے ابتدائی برسوں میں کل کا خوف، بے گھر ہونے کا خطرہ روز کا تھا۔ یہ خوف کبھی نہیں گیا۔ جیسا کہ ارسطو نے کہا تھا، “بچپن میں بنی ہوئی عادات سے پڑنے والا فرق چھوٹا نہیں بلکہ سارا فرق ہی اسی کا ہے”۔
اس حساس وقت کا بتانے کے لئے دروازہ بند ہونے کا استعارہ بتایا تھا لیکن اس تعارف کے بعد ہم اب اس کو اگلے لیول پر لے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ اتنا سادہ نہیں۔ اور یہ ایک دروازہ نہیں، کئی دروازے ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments