مسئلہ فلسطین اور اسرائیل کا ناجائز وجود۔۔ محمد احمد

کچھ درویشوں نے اپنی فراست کے پیش نظر پہلے ہی آگاہ کردیا تھا، اس وقت کا نووارد سیاست دان یہودی ایجنڈے پر کار فرما ہے۔ لیکن کوئی نہیں مانا، پھر ایک مردِ مؤمن ببانگ دہل ان کو یہودی ایجنٹ کہنے لگا اور ہر جگہ اس کا برملا اظہار کیا لیکن سادہ لوح لوگ ماننے پر آمادہ نہیں ہوئے، مجھے تو آج بھی وہ صاحبِ دستار وجبہ یاد ہیں، جنہوں نے مولانا فضل الرحمن صاحب کی اس بات کا اعلانیہ رد کیا لیکن آج وطن عزیز پاکستان میں حکمران جس طرح اسرائیل کے لیے لابنگ کررہے ہیں اور خفیہ وفد اور ملاقاتوں کا چرچا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں۔
مسئلہ فلسطین اور قیام اسرائیل کا اگر ہم مختصر جائزہ لیں تو حقیقت آشکار ہوجائے گی۔
فلسطین کا وجود کرہ ارض پر بہت قدیم ہے، یہ سرزمین بیک وقت مسلمانوں کے لیے قبلہ اول، یہودیوں کے لیے مبینہ ہیکل سلیمانی اور صیہونیوں کے بیت اللحم ہونے کی وجہ سے مقدس ہے۔
یہودی جب صیہونی یلغار کے بعد بےدخل کیے گئے، تو دنیا میں ذلیل ورسوا ہوتے رہے، کوئی مستقل ریاست اور وطن نہیں تھا،1981 میں “احباء صیہون” کے نام سے الگ ریاست کی تنظیم کا قیام عمل میں لایا، اس مطالبے میں تیزی اس وقت آئی جب صحافی تھیوڈور نے “یہودی ریاست” نامی کتاب لی۔ ادھر جرمنی میں سرکاری سرپرستی holocaust
(ہولوکاسٹ) کے نام پر کاروائیاں جاری رہیں تو یہودیوں نے سلطنت عثمانیہ سے پناہ طلب کی ،جو سلطان عبدالحميد ثانی نے اپنی فہم و فراست سے رد کردی۔ جنگ عظیم اول کے موقع پر فلسطین ترکوں کے ہاتھ سے نکل کر برطانیہ اور فرانس کے تسلط میں آیا، جنہوں نے یہودی بستیوں کے قیام کی اجازت دی، ادھر جنگ عظیم دوم کے بعد یہودی اپنے الگ وطن اور ریاست کا مطالبہ شدت سے دہرانے لگے، 3 ستمبر 1947 کو اقوام متحدہ نے برطانوی تسلط کو ختم کرکے عرب ریاست، یہودی ریاست اور یروشلم کی منظوری دے دی، پھر یہودی آپس میں اس بات میں منقسم رہے کہ ہمیں الگ ملک بنانا چاہیے یا مسلمانوں کی حکمرانی میں رہنا چاہیے بالآخر 1948 میں اسرائیل نے مستقل طور پر الگ آزاد ریاست کے طور پر اعلان کیا۔
یہ تھا مختصر پس منظر جو لوگ پناہ گزین بن کر آئے تھے، وہ ملک پر قبضہ کر بیٹھے، ان یہودیوں کو شروع میں برطانیہ کی اور بعد میں امریکہ کی مکمل حمایت اور سرپرستی حاصل رہی۔ اسرائیل کا قیام ناجائز تھا، اقلیت کس بنیاد پر ملک کی اکثریت پر قبضہ کرسکتی ہے؟ 70 سال سے زیادہ عرصے سے فلسطینی مظلوم مسلمان بے سرو سامان اپنی آزادی اور بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، ان پر مظالم کی انتہا کی گئی ہے، ان کی نسل کشی کی جارہی ہے لیکن مسلم اُمہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، اس میں سب سے زیادہ مایوس کُن اور افسوس ناک رویہ عرب حکمرانوں کا ہے۔ وقتا فوقتا 1948،1967 اور 1973 میں بڑی خونخوار جنگیں بھی ہوئی ہیں، پہلی جنگ میں اسرائیلی فوجوں نے صحرائے سینا، شام کی گولان پہاڑیوں اور بیت المقدس پر قبضہ کیا تھا، بعد میں مصر صحرائے سینا واپس لینے میں کامیاب ہوا لیکن دوسری جگہیں بدستور اسرائیل کے قبضے میں ہیں۔ جب اقوام متحده جس کی حیثیت امریکی لونڈی سے کچھ زیادہ نہیں وہ بھی مخالف رہا، ان کی قرارداد کے پس پردہ یہ یہودی مسلسل اپنی بستیوں کی تعمیر اور نہتے فلسطینیوں پر اپنے مظالم ڈھاتے رہے، اسرائیل یہاں رکنا نہیں چاہتا بلکہ ان کا منصوبہ “گریٹر اسرائیل” کا ہے، جس میں مصر، شام اور آدھا سعودی عرب، عراق اور سوڈان شامل ہے۔ دوسری طرف مسلمان حکمرانوں کی غیرت کا جنازہ نکلا ہوا ہے، اب شاہانِ عرب میں سے بڑی تیزی دینی غیرت و حمیت رخصت ہورہی ہے اور اسرائیل کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔
پاکستان میں جان بوجھ کر اس مسئلے کو چھیڑا جارہا ہے، کیونکہ ہمارا دعوی ہے کہ اس حکومت کو مکمل یہودی آشیرباد حاصل ہے، اس لیے یہ مخلتف حیلوں بہانوں سے کبھی ریٹائرڈ جرنیل تو کبھی بڈھے مولویوں کو ٹاسک دیا جارہا ہے اور میڈیا میں ایک مختص لابی کو پابند کیا گیا ہے وہ رائے عامہ ہموار کریں۔
ہم بحیثیت مسلمان اور پاکستانی کبھی اس قاتل اور قابض ریاست کو تسلیم نہیں کرسکتے کیونکہ یہودیوں کا فلسطین پر نہ کوئی “تاریخی وقومی حق” ہے نہ ہی “مذہبی حق ” بلکہ یہ مسئلہ ایک حساس مذہبی، نسلی اور لسانی ہے۔
کوئی مسلمان کیسے اس قاتل، قابض ریاست کو تسلیم کرسکتا ہے؟ جس کے اندر ذرہ برابر بھی غیرت ایمانی اور جذبہ اخوت ہوگا وہ ایک لمحے کے لیے بھی اس کے ناجائز وجود کو کبھی اس کو تسلیم نہیں کرے گا۔
بحیثیت پاکستانی اسرائیل کو ہم اس لیے تسلیم نہیں کرتے کہ کل پھر ہم کس منہ سے کشمیر کا مقدمہ لڑیں گے؟
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا یہ فرمان کہ اسرائیل کا وجود ناجائز ہے اور اس کو تسلیم کرنا مسلمانوں کے دل میں خنجر گھونپنے کے مترادف ہے۔
جو لوگ بانی پاکستان کا حوالہ دیتے نہیں تھکتے وہ اب کیوں قائد کے فرمان کو جھٹلارہے ہیں؟ ہمیں چاہیے کہ ہم مل کر یہودیوں کے ان سارے منصوبوں کو ناکام بنائیں اور فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کریں، ان کے حقوق کا مقدمہ لڑیں اور دنیا کو فلسطین کو تسلیم کرنے پر آمادہ کریں۔ یہ بیت المقدس امت مسلمہ کے لیے رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کا تحفہ، حضرت امیر عمر رضہ کی امانت ہے۔
مسلمانو!
کل ہم روزِ قیامت اپنے آقا علیہ السلام کو کیا منہ دکھائیں گے؟ اس لیے وقت ہے کہ ہم یہود وہنود کی سازشوں کو سمجھیں۔ قاتل، قابض اور ظالم اسرائیل کے خلاف مظلوم فلسطینیوں کی صف میں کھڑے ہوں۔

Facebook Comments