بحرانوں والی سرکار۔۔ناصر منصور

ہر آنے والا دن ملک کو نئے بحران کی جانب دھکیل رہا ہے ۔ ابھی ایک بحران کے اثرات سے نبردآزما ہورہے ہوتے ہیں کہ دوسرا طوفان سر پر منڈلانا شروع کر دیتا ہے۔ ابھی آٹا ، چینی ، میڈیسن اور پیٹرولیم مافیہ کی عوام پر ڈھائی غارت گری پر نوحہ کناں تھے کہ گیس کے بحران نے آ گھیرا ہے۔ موجودہ حکومت کو اگر کوئی نام دیا جاسکتا ہے وہ ہے ” بحرانوں والی سرکار” ۔ ایک نااہل طرز حکومت نے عوام کو خون کے آنسو رلا دئے ہیں۔ موجودہ حکم رانوں کی نااہلی کی داستان ہے کہ ختم ہونے ہی کو نہیں آ رہی ۔ اب تو صورت حال اس نہج پر جا پہنچی ہے کہ وزیراعظم خود اپنی نااہلی کا برملا اظہار کر رہے ہیں اور انہیں اس پر کوئی پشیمانی یا شرمندگی بھی نہیں۔

جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
اس حادثہ وقت کو کیا نام دیا جائے
میخانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے

یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب سیاسی بحران شدت اختیار کیے جارہا ہے اور ایک بڑے آئینی بحران کے پیدا ہونے کے خدشات جنم لے رہے ہیں۔ قرائن ہیں کہ نئے سال کا دوسرا مہینہ یعنی فروری تک سیاسی ماحول فیصلہ کُن معرکہ کی سی صورت میں نمودار ہوگا ۔ حالات اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ اپوزیشن کے فروری کے اوائل میں شروع ہونے والے لانگ مارچ یا پھر دھرنے سے سیاسی صورت گری میں بڑی کیفیتی تبدیلی رونما ہونے کا قوی امکان موجود ہے ۔ یہی کیفیتی اتھل پتھل فروری کے آخر یا پھر مارچ کے آغاز میں ہونے والے سینٹ الیکشن اپوزیشن کے حصہ لینے یا بائیکاٹ کے فیصلے  کو طے کرے گا۔

حکومتی حلقے اور ان کی پشت پر موجود مقتدرہ قوتیں حالات کا ہر دو طرح سے جائزہ لے رہی ہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ ان میں پریشانی کا عنصر نمایاں ہے جس کا اظہار ان کے طرز عمل سے ہو رہا ہے ۔ وہ ایک جانب مصالحت اور سیز فائر کے لئے ” زیتون کی شاخ ” لہرا رہے ہیں تو دوسری جانب مخالف سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ کا ناکام مارشل لائی حربہ آزما رہے ہیں ۔ لیکن اس لمحہ اگر کوئی اپوزیشن جماعت مصالحت کے جانب متوجہ بھی ہوتی ہے تو عوام کی نفرت کو خریدے گی جب کہ غیر جمہوری قوتیں اگر لیگیوں میں ہی اب تک کوئی دراڑ نہیں ڈال پائی ،تو مولانا فضل الرحمٰن یا دیگر جماعتوں کو کیا نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ مصطفی جتوئی ، غلام مصطفی کھر ، پیرزادہ ،ممتاز بھٹو ، حنیف رامے اور ان کو ہلہ شیری دینے والے آج تاریخ کی دھول میں دفن ہو چکے ہیں۔ آج کا سیاسی شعور خوف ، دھونس ،دھمکی اور گرفتاریوں کو سیاسی جماعتوں ، رہنماؤں اور ان کے سیاسی بیانیہ کے لئے اکسیر قرار دے رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اپوزیشن تحریک کی نمایاں جماعتیں تمام تر مصائب کے باوجود عمومی طور پر اپنے رینک اینڈ فائل کو متحد رکھنے میں اب تک کام یاب رہی ہیں ۔ لگتا ہے کہ جے یو آئی پر ہونے والا حملہ بھی بیک فائر کرے گا۔

موجودہ حکومت کی سب سے بڑی ناکامی معاشی محاذ پر ہوئی ہے جس کے نتیجے میں کروڑوں انسانوں  کی زندگیوں میں بدحالی در آئی ہے اور ہر آنے والا دن نئے مصائب   کھڑے  کر رہا ہے۔ یوں عوام کا غصہ سیاسی اظہاریہ بن جاتا ہے جس کی ترجمانی اب اپوزیشن جماعتیں کر رہی ہیں۔ لوگوں کو اس امر پر تشویش تو تھی کہ 2018 کے انتخابات میں ان کے ووٹ کی بے حرمتی کی گئی ہے لیکن موجودہ حکومت نے جس انداز میں اپنی پالیسیوں سے عوام کو معاشی اعتبار سے بے توقیر کیا ہے وہ ان کے لئے ناقابل برداشت ہے ۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں معاشی بحران کے ساتھ ساتھ سیاسی بحران کی شدت میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔ یوں معاشی ابتری اور سیاسی بحران ایک دوسرے کو دو آتشہ کر رہے ہیں ۔ اب رہی سہی کسر صنعتوں اور گھریلو صارفین کو گیس کی عدم فراہمی نے پوری کر دی ہے ۔ ایک طرف صنعتی پیداوار کا پہیہ رک رہا ہے دوسری جانب عام شہری کا چولہا بجھ گیا ہے اور اس میں اتنی سکت نہیں کہ وہ بازار سے کھاناخرید کر کھائے ۔ صنعتی پیداواری عمل رکنے سے روزگار کے در بند ہو رہے ہیں اور ایکسپورٹ کے آرڑرز کی بروقت تکمیل نہ ہونے سے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے ۔ یہ ساری صورت حال جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے ۔ عوام کا غصہ ہے کہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے اور یہ غصہ اس وقت جھنجھلاہٹ میں بدل جاتا ہے جب حکومتی ترجمان روزانہ نہایت ڈھٹائی سے ملکی ترقی اور مثبت نتائج کا ڈھنڈورا پیٹتے نظر آتے ہیں۔ لفظوں کا گورکھ دھندہ معاشی پریشانیوں کے لئے مرہم نہیں بن سکتا۔

ایک ایسا ملک جہاں  90  فی صد سے زائد محنت کش سرکاری طور پر اعلان کردہ کم از کم 17500 ماہانہ اجرت سے محروم ہوں ، جہاں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں دوگنا اضافہ ہو چکا ہو ، ادویات سو فی صد مہنگی ہوں ، تعلیم اور صحت جیسی بنیادی انسانی ضروریات کو تجارت بنا دیا گیا ہو ، ریاست بتدریج آئین میں درج بنیادی سہولتیں بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی ایما پر عوام سے چھین رہی ہو اور اس پر کمال یہ کہ ہر اختلافی آواز پر قدغن ہو تو پھر گھٹن کے ماحول میں ایک ایسا طوفان پلنا شروع ہوتا ہے جس کے نتائج سے حکمران عموماً اس وقت تک بے بہرہ ہی رہتے ہیں جب تک کہ وہ انہیں اپنی لپیٹ میں نہیں لے لیتا۔ موجودہ صورت حال میں ایسا ہی ہونے کے قوی امکانات موجود ہیں کیوں کہ موجودہ سیاسی سیٹ اپ نے اپنی نااہلی سے ہر محاذ پر ناکامی ہی اپنے  نام کی ہے ۔ ملکی معاملات ہوں یا کہ بین الاقوامی امور اس نے ایسی ابتری مچائی ہے کہ پچھلی تمام حکومتوں کی کارکردگی کو سراہا جارہا ہے ۔

موجودہ حکومت کو لانے والے اس ساری بدتر صورت کے براہ راست ذمہ دار ہیں اور اس کی بنیادی وجہ ان قوتوں کا ماورائے آئین و قانون زندگی کےہر شعبہ خصوصا ً سیاسی جوڑ توڑ میں گہرا عمل دخل ہے جس کے خاتمہ سے ہی ملک کی ترقی کی راہیں کھلیں سکتی ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس لئے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ جمہوری نظام کے استحکام ، آئین کی عمل داری اور حقیقی معنوں میں منتخب عوامی اداروں کی بالادستی کے راستے میں رکاوٹ غیر جمہوری قوتوں کی مستقل بے دخلی کے لئے پانچ سو سے زائد ممبران اسمبلی کے استعفے کوئی گھاٹے کا سودا نہیں ۔ اگر اپوزیشن وقت پر ایسا کر گزری تو جمہوری طرز حیات کی نئی راہیں کھلیں گی اور عوام کےلئے معاشی ابتری سے نجات کے امکانات روشن ہوں گے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔