طلاق کی شرح میں اضافے کی وجہ؟۔۔رابعہ عابد

طلاق کی شرح میں اضافے کی وجہ             کیا ہے؟۔۔ یہ وہ سوال ہےجس نے نہ صرف مجھےسوچنے پر مجبورکر دیا بلکہ یہ جاننے پربھی مجبور کر دیا کہ آخر وہ کون سی وجوہات ہیں کہ جس کی بناء پر میاں بیوی جیسا پاک اور مقدس رشتہ اس مرحلے پر آکھڑا ہو جاتا ہے جو ربِ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ عمل ہے۔ نفرتوں اور خودغرضیوں کے اس دور میں جہاں ہر انسان دوسرے انسان سے آگے نکلنا چاہتا ہے۔ ایسے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا رشتہ میاں بیوی کا ہوتا ہے۔  کوئی بھی رشتہ  بےشک وہ ماں باپ کا ہو، اولاد کا ہو، بہن بھائی کا ہو یا رشتےداروں کا ہو کسی کے لیے بھی اتنی آیتیں نہیں اتاری گئی جتنی خاوند اور بیوی کے تعلق پرنازل فرمائی گئی ۔ جس کی وجہ میاں بیوی کے رشتے کی اہمیت کواجاگر کرناتھا۔ چونکہ یہ رشتہ اپنی نزاکت اور کمزوری کی وجہ سے ایک بول پر ہی ٹوٹ جاتا ہے۔  اِسی لیےاِس کو بچانے کے لیے قرآنِ پاک میں پوری پوری سورتیں نازل فرمادی گئیں۔

اس رشتے کے ٹوٹنے کی وجوہات کو اکٹھا کرکے ایک لفظ میں بیان کیا جائے تویقیناً وہ ایک لفظ  “بداخلاق” ہوگا۔ جہاں ہم زندگی کی مصروفیات میں کھوکر بہت کچھ بھلاچکے ہیں۔ وہاں ہی ہم محبت کے دو بول بولنے کے بجائے تنقید اور طنزکو اپنا اندازِگفتگو بناچکے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نفرتوں میں اس قدر اُلجھ چکے ہیں کہ محبت کے بول بولنے والوں کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ حضورؐ نے فرمایا کہ: ‘کامل مؤمن وہ ہےجوخوش اخلاق اور گھروالوں سے نرم سلوک کرنے والا ہو۔'(ترمذی)

ازدواجی زندگی پیسے سے نہیں چلتی بلکہ زندگی تو اخلاق سے چلتی ہے، محبت سے چلتی ہے۔  آپؐ کی سیرتِ مبارکہ پڑھو اور دیکھو کہ خوبصورت زندگی کیسے گزارتے ہیں۔  حضورؐ کے گھر کئی مرتبہ دو دو ہفتے کھانا نہیں بنتا تھا لیکن زندگی خوبصورت تھی بیویاں خوش تھیں،صرف اخلاق کی وجہ سے۔

جب حضرت عائشہ رضی تعالی ٰعنہا کی شادی ہوئی تو اُن کو آٹا گوند ھنا نہیں آتا تھا تو آپؐ خود ان کوآٹا گوندھ  کر دیا کرتے تھے۔ یہ ہیں ہمارے نبی حضرت محمدؐ کے اخلاق اور تعلیمات جو ہمیں سبق دیتے ہیں کہ ہاں زندگی ایسے گزاری جاتی ہے، محبت ایسے قائم رکھی جاتی ہے۔  آج ہمارے پاس سب کچھ ہونے کے باوجود بھی طلاق کی شرح میں روزبہ روز اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ اسکی روک تھام کےلیےاگر تمام اخلاق کو اکٹھا کیا جائے تو صرف ایک لفظ بنتا ہے یعنی ‘برداشت ‘  اور شریعت میں ‘صبر ‘۔  اگر ہم صبر کرنا سیکھ لیں تو زندگی خود بہ خود خوبصورت بن جائے۔

دراصل ہمارے معاشرے میں ہوتا یہ ہے کہ اگر شوہر کے رشتےدار تنقيد کریں تو بیوی برداشت نہیں کرتی اور اگر بیوی کے رشتےدار تنقید کریں تو شوہر برداشت نہیں کرتا۔۔۔۔ جبکہ اکثر چھوٹی سی بات پر معا ملات بگڑتے ہیں اور نوبت طلاق تک آجاتی ہے۔  حالانکہ شریعت میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیاگیا ہے کہ جیسے لباس ہمیں سردی، گرمی، آندھی، طوفان اور گندگی سے بچاتا ہے۔ اِسی طرح شوہر کو چاہیے کہ جب اُس کے رشتےدار اُس کی بیوی پر تنقید کریں تووہ بیوی کا محافظ بن جائے اور جب بیوی کے رشتےدار اُس کے شوہر پر تنقید کریں تو وہ شوہر کی محافظ بن جائے۔ دنیا میں ۵ فیصد طلاق یافتہ لوگ اس فیصلے کے بعد یہ کہتے نظرآتے ہیں کہ ‘ Life    is a     Compromise ‘ اب اگرہم سب اس جملے کا نچوڑ نکالیں تو یقیناً آخری لفظ ‘صبر’ ہی آئےگا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخر میں صرف اتناہی کہوں گی کہ جس معاشرے میں بڑے  اپنا کردارنبھانے سے غافل ہوجائیں تو وہاں پھرایسے ہی فیصلے جنم لیتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ  ہمارے گھروں کوخوشیوں سےآبادرکھے اور ہمیں سیرتِ محمدیﷺ   پر عمل کرکےاس کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرما ئے۔ (آمین)

Facebook Comments

رابعہ عابد
...Studing