اسلامی خارجہ پالیسی کے اصول(حصّہ اوّل)۔۔مشرف اسد

خارجہ  پالیسی کا تعارف اور مفہوم:

انسان اس دنیا میں اکیلا نہیں رہ  سکتا۔انسان گروہی شکل میں رہنے کو زیادہ پسند کرتا ہے۔ اس کو لوگوں کے ساتھ تعلق قائم کرنے کی ضرورت رہتی ہے۔اسی لئے انسان کی بقاء  کے لئے معاشرے کا قیام ضروری ہے۔ اسی طرح ایک ملک بھی دوسرے ملک کے ساتھ تعلق قائم کیے بغیر نہیں  رہ  سکتا، کیونکہ افراد کے مسائل اور معاشرے کے مسائل مختلف نہیں ہوتے، اب یہی تعلق قائم کرنے کے لئے جب ایک ملک یا ریاست کسی دوسرے  ملک یاریاست  کے ساتھ جن باتوں  کا خیال رکھتی ہے یا جو  طریقہ کار اختیارکیا جائے یا جو اصول اورقوائد و  ضوابط  کا انتخاب کرتی ہے اسے ہم خارجہ پالیسی کہتے ہیں۔

ایک ماہر سیاست خارجہ پالیسی کے مفہوم کے بارے میں لکھتے ہیں  کہ:

“ھو مجموعۃ القوائد التی تنظم العلاقات بین الدول”۔(1)

” یعنی ان منظم قوائد کے مجموعے کا نام ہے جو ممالک کے درمیان تعلقات قائم کرتے ہیں”۔

پروفیسر Joseph Francel    نے خارجہ پالیسی کی وضاحت یوں کی ہے کہ:

“Foreign policy consists of decision and actions which involve to some appreciable extent relation between one state and others”. (2)

“خارجہ پالیسی ان فیصلوں اور کارووائیوں پر مشتمل ہے جو کافی حد تک ایک ریاست کے دوسری ریاست کے ساتھ تعلقات سے متعلق ہوتے ہیں”۔

اسلامی خارجہ پولیسی کی تعریف و مفہومَ:

اسلامی خارجہ پالیسی کی آسان الفاظ میں تعریف کچھ یوں کرسکتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات و تعلیمات کی حدود میں رہتے ہوئے جو خارجہ پالیسی مرتب کی جائے یا تشکیل دی جائے اسے ہم اسلامی خارجہ پالیسی کا نام دیں گے۔

اسلامی خارجہ پالیسی کی بنیاد اسی مقصد پر قائم ہوتی ہے کہ اس دنیا کے ہر ملک وقوم و ریاست میں دین اسلام کی دعوت و تبلیغ کو عام کیا جائے اور اسلامی خارجہ پالیسی کی یہ ینیاد کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔نبیﷺ دین فطرت لے کر آئے ہیں اور اس کی بنیاد وحی الٰہی پر ہے اور تمام  ادیان  میں سب سے آخری دین ہے۔اسی لئے پوری انسانیت کو وحی کی طرف لانا بھی آپﷺ کےمقاصد نبوت میں سے تھا جس کے لیے اسلام کا غلبہ ہونا لازمی تھا۔ یہی وجہ ہے  کہ آپﷺ نے اہل زمین کو دین کی دعوت دی کہ وہ اسلام کی دعوت قبول کریں اور اگر وہ نہیں کرتے تو اسلام کو پورے عالم میں  پھیلانے میں   رکاوٹ نہ بنیں۔ارشاد باری تعالی ہے:

“ہم نے آپﷺ کو تمام لوگوں کے لیے خوشخبریاں اور دھمکا دینے والا بنا کر بھیجا ہے”۔(سورۃ سبا:آیت 68)

“آپ کہہ دیجیے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا بھیجا ہوا ہوں”۔(سورۃاعراف: آیت 158)

خارجہ پولیسی کے بنیادی قرآنی اصول:

ہر نظام کی بنیاد اصولوں پر مبنی ہوتی ہے۔ اصولوں کے بغیر ادارے کی  حدود کا تعین کرنا بہت مشکل کام ہے۔یہ اصول اور ادارے ہی وہ شئے ہیں ، جن  کے  ذریعے سے کسی ادارے یا نظام کو چار چاند لگتے ہیں۔

قرآن مجید اس روح زمین پر اللہ تعالی کی آخری اور جامع کتاب ہے  ،یہ  نظام بلکہ زندگی کے ہر پہلو کے حوالے سے بہترین اصول اور، قوائد و  ضوابط فراہم کرتا ہے۔اسی طرح قرآن ہمیں غیر مسلم ممالک کے ساتھ بین الاقوامی تعلقات قائم کرنے کے لئے اصول و  ضوابط  کے ذریعے بہترین رہنمائی  فراہم کرتا ہے ۔

اسلام پورے نظام کی تعمیر ہی اخلاقی اصولوں پر کرتا ہے۔ اسی لئے اسلام ہمیں درس دیتا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات کی بنیاد قرآنی اصولوں پر مشتمل ہو نہ کہ دوستی اور شمنی دیکھ کر۔ آپﷺ نے ریاست مدینہ کی بنیاد بھی انہی مبارک اصولوں پر رکھی۔(3)

عہد و پیمان کا احترام

“وہ جو اپنی اپنی امانتوں اور عہد کا پاس ملحوظ رکھتے ہیں”(القرآن 8:23)

“اور اللہ کا نام لےکر جب تم آپس میں ایک دوسرے سے اقرار کرو تو اس کو پورا کرو”۔(القرآن:9116)

عدل و انصاف

“اللہ حکم کرتا ہے انصاف کرنے کا اور بھلائی  کرنے کا”۔(القرآن 8:23)

“جب تم بات کرو تو انصاف سے کرو خواہ وہ تمہارے رشتہ دار کے خلاف ہی کیوں نہ ہو”۔(القرآن 152:6)

صلح پسندی

“اور اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوجائیں، تو تم بھی مائل ہو جاؤ”۔(القرآن 61:8)

“اور صلح بہر حال بہتر ہے”۔القرآن 128:4)

نظریہ حق کی شہادت

“اس طرح خدا حق اور باطل کی مثال بیان فرماتا ہے سو جھاگ تو سوکھ کر زائل ہو جاتا ہے اور پانی جو لوگوں کوفائدہ پہنچاتا ہے و ہ زمین مین ٹھہرا رہتا ہے”۔(القرآن 17:13)

باہمی تعاون کا فروغ

“(خدائی  قوانین کے سامنے) جھکنےوالوں کے ساتھ تم بھی جھکو”۔(القرآن 43:2)

“یعنی نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے سے تعاون کرو”۔(القرآن 2:5)

مساوات

“اور اگر بدلہ لو تو اتنا لو جتنا تمہیں ستایا گیا ہو اور اگر تم صبر کرو تو وہ بہتر ہے صبر کرنے والوں کے لیے”۔(القرآن 126:16)

“پس جو تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اسی پر اتنی ہی  زیادتی کرلو جتنی  اس نے کی تھی اور اللہ سے ڈرو اور جان رکھو کہ  بے شک اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے”۔(القرآن  94:2)

عہد نبوی ﷺ  اور بین الاقوامی خارجہ معاہدات

عہد کی تعریف

لفظ عہد کے اندر بہت جامعیت ہے اور اس کے کئی  معنی ہیں اس سے مراد کبھی حکم کے بھی ہیں کبھی وصیت کبھی دوستی کبھی میثاق کبھی قسم اور اسکی جمع عمہود ہے۔(4)

امام راغب اصفہانی عہد کے معنی و مفہوم کے بارے میں تحریرکرتے ہیں کہ:

“(عھد)العھد: حفظ الشئ و مراعاتہ حالا بعد حال وسمی الموثق الذی یلزم مراعتہ عھدا”۔(5)

“العہد کسی چیز کی پیہم نگہداشت اور خبر گیری کرنا اور اس بنا پر اس پختہ وعدہ کو بھی عہد کہا جاتا ہے جس کی نگہداشت ضروری ہو۔”

ہجرت کے فورا ً بعد ہی آپﷺ کا  دوسری اقوام اور عرب کے دیگر قبائل کے ساتھ معاہدات کے سلسلے کا باقائدہ آغاز ہوا جس کی بنیاد بین الاقوامی اتحاد اور امن کا  فروغ تھا۔

معاہدہ صلح حدیبیہ

یہ معاہدہ 6 ہجری میں مسلمانوں اور مشرکین کے مابین حدیبیہ کے مقام پرطے پایا، اس معاہدے کے طے پانے کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ  آپﷺ کو مکہ سے ہجرت کیے کئی سال گزر چکے تھے اور مکہ کی یاد نے آپﷺ کو بےچین کردیا تھا اسی بے چینی چاہت و لگن کی وجہ سے آپﷺ کو ایک مرتبہ خواب میں زیارت ہوئی  کہ آپﷺ اپنے اصحاب کے ہمراہ مکہ تشریف لے گئے اور عمرہ ادا فرمایا۔(6)

ذوالعقد 6 ہجری میں آپﷺ صحابہ کرام کے ساتھ احرام باندھ کر 70 اونٹوں  کو  لے کر ،    مکہ کی جانب حج کی نیت سے روانہ ہوئے۔ مشرکین مکہ کو جب آپﷺ کی آمد کی خبر ملی تو مشرکین گھبرا گئے کہ کہیں آپﷺ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ جنگ تو کرنے نہیں آئے لیکن جب مشرکین نے اپنا جاسوس بھیجا تو معلوم ہوا کہ آپﷺ تو اپنے اصحاب کے ہمراہ خالصتاًحج کی نیت سے آئے  ہیں۔ یہ حقیقت جاننے کے باوجود بھی قریش نے مسلمانوں کو حج کرنے سے روکے رکھا کیونکہ اب وہ ایک کشمکش میں پھنس چکے تھے کہ اگر وہ مسلمانوں پر حملہ کردیں اور مسلمانوں کو حج کرنے سے روک لیں تو پورے ملک میں شور سا مچ جائے گا کہ کیا اب حج کا فیصلہ قریش کی مرضی سے ہوگا اور کیا قریش ہی خانہ کعبہ کا مالک ہے یہ تو سراسر زیادتی ہوگی۔

دوسری بات جو قریش کے لئے پریشانی کا سبب بنی وہ یہ تھی کہ کیسے رسولﷺ  اتنے بڑے قافلے کے ساتھ حج کرنے آئیں  اور صحیح و سالم  واپس مدینہ بھی لوٹ جائیں اور اگر ایسا ہوا تو یہ بات عرب قبائل کی جانب سے قریشیوں کو طعنہ ہوگا کہ کیسے آپﷺ اپنے ساتھیوں کے ساتھ حج کرکے چلے بھی گئے اور تم لوگ دیکھتے رہ  گئے۔ لہذا انہوں نے مسلمانوں کو حج سے روکنا ہی بہترین  طریقہ جانا جس سے انکی ناک بھی بچ سکے۔(7)

بہر حال آپﷺ نے قریش کی جانب سے کی جانے والے سازشوں کو ناکام کردیا اور اپنا راستہ بدل کر حدیبیہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالا اور حضرت عثمان کو مکہ کی جانب اپنا سفیر بنا کر بھیجا۔ آپ نے بھرپور سفارت کاری کی اور اسلام کی بھرپور تبلیغ کی۔۔ اسی دوران قریش نے آپ کو طواف کعبہ کی پیشکش کی ،لیکن آپ نے پیشکش رد کرتے ہوئے فرمایا کہ جب تک آپﷺ طواف نہیں کرتے میں بھی نہیں کرسکتا۔ اس جرم میں قریش نے آپ کو قید کرلیا۔  لیکن یہ خبر مسلمانوں میں کچھ یوں عام ہوئی  کہ حضرت عثمان کو شہید کردیا گیا ہے، جب آپﷺ کو یہ خبر ملی تو آپﷺ نے اپنے اصحاب کے ساتھ وعدہ کیا کہ اب وہ بدلہ لے کر رہیں گے۔ اس معاہدے  کو تاریخ اسلام میں بیعت رضوان کہا جاتا ہے۔

اس بیعت کی جب قریش کو خبر ملی تو وہ گھبرا گئے اور مذاکرات پر  آمادہ ہوگئے اور حضرت عثمان کو رہا کرکے واپس بھیج دیا۔ قریش نے  سہیل بن عمر کو سفیر بنا کر بھیجا اور بالآخر طویل مذاکرات کے بعد معاہدہ طے پایا جو کچھ اس طرح سے ہے

“یہ وہ صلح نامہ ہے جو محمد بن عبداللہ اور سہیل بن  عمر کے مابین طے ہو ا،کہ دس سال تک جنگ نہیں ہوگی۔اور قریش سے جو مرد اپنے ولی کی اجازت کے بغیر مدینہ آئے گا تو اسے آپﷺ واپس کریں گے اور اگر آپﷺ کی طرف سے کوئی  مرد قریش کے پاس آتا ہے تو قریش اسے واپس نہیں کریں گے۔ اور عہد ہوا کہ  اس سال مدینہ واپس لوٹ جائیں  اور اگلے سال مسلمانوں کو حج کی اجازت ہے  اور جب آئیں تو بنا ہتھیار کے اور صرف تین روز مکہ میں قیام کرنے کی اجازت دی جائے گی”۔

معاہدہ حدیبیہ کے سیاسی و خارجی اثرات:

مسلمان ہر طرف سے خطرات اور دشمنوں سے گھرے ہوئے تھے کیونکہ صرف قریش ہی مسلمانوں  کے واحد دشمن نہ تھے۔ کسی ایک طرف حملہ کرنا اپنی طاقت کو منتشر کرنا تھا۔۔ اس لئے ضروری تھا کہ ایک رفیق سے معاہدہ کرکے دوسرے رفیق سے نمٹا جائے۔

صلح حدیبیہ کے سیاسی و خارجیاثات  بڑے دورس ثابت ہوئے۔ مولانہ مودودی نے سورہ فاتحہ کے مقدمے میں صلح حدیبیہ کے سیاسی و خارجی اثرات پر بڑا زبردست تبصرہ کیا ہے کہ صلح حدیبیہ کی وجہ سے پہلی دفعہ عرب میں اسلامی معاشرے کا وجود تسلیم کیا گیا۔ اس سے پہلے عربوں کی نظر میں آپﷺ اور ان کے اصحاب ان کی نظر میں قریش کے خلاف خروج کرنے والے ایک معمولی سے گروہ کی تھی لیکن اب خود قریش نے ہی آپﷺ سے معاہدہ کرکے اسلامی مقبوضات پر آپ ﷺ کا اقتدار مان لیا اور عرب کے لئے یہ راستہ بھی کھول دیا کہ وہ ان دونوں(مسلمان اور مشرکین) سیاسی طاقتوں کے ساتھ جس کے ساتھ چاہیں حلفیہ  معاہدہ کرلیں۔(8)

معاہدہ سینٹ کیتھرائن

یہ معاہدہ رسولﷺ کی سیاسی بصیرت کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی تعلقات کا ایک بہترین نمونہ ہے۔اس معاہدے کا ایک ایک لفظ اہمیت کا حامل ہے۔ یہ معاہدہ کوہ سینا کے راہبوں کے ساتھ ہوا تھا۔

اس معاہ ے میں آپﷺ نے کوہ سینا کے پادریوں کو اور راہبوں  کوپورے حقوق اور آزادی دی اور مسلمانوں کو تاکید فرمائی  کہ:

1۔ وہ عیسائیوں کی عبادت گاہوں اور مکانوں کو ان کے دشمنوں سے بچائیں

2۔  ضرر رساں چیزوں سے ان کی حفاظت کی جائے۔

3۔ ان پر حد سے زیادہ ٹیکس نہ لگایا جائے

4۔ کسی عیسائی  کو اپنا مذہب چھوڑنے پر  مجبور نہ  کیا جائے۔

5۔ مسلمان اپنے مکان اور مسجدیں تعمیر کرنے کے لئے عیسائیوں کے گرجے مسمار  نہ کریں۔(9)

سفارت کاری

`لفظ سفیر کا مادہ س-ف- ر  ہے جس سے کشف اور وضاحت کے معنی پائے جاتے ہیں سفر کو بھی سفر اسی لئے کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں انسان کے اخلاق کھل جاتے ہیں جیسے”الصبھ یسفر” صبح روشن ہوگئی ۔

لسان العرب میں مولانا ابن منظور افریقی لفظ سفیر کے معنی کھولنے کے بیان کرتے ہیں جیسے جب عورت اپنے چہرے سے نقاب ہٹا کر کھول دے تو کہا جاتا ہے:

“سفرت المراۃ وجھھااذا کشفت نقاب عن وجھھا اذا کشفت النقاب عن و جھھا”(10)

عورت نے اپنا چہرہ کھول دیا جب اس نے اپنے چہرے سے نقاب اٹھایا۔

علامہ فیروزآبادی نے سفیر کا معنی بھیجنا بیان کیا ہے لکھتے ہیں کہ: “سفرہ تسفر ای ارسلہ” یعنی اس کو بھیجا۔(11)

علامہ الزبیدی تاج العروس میں سفیر کی اصطلاحی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“امام السفیر فھو الرسول المصلح القوم”۔(12)

سفیر قوم کے درمیان صلح کروانے والا فرستادہ ہے”۔

سفیر کو انگریزی زبان میں Ambassador  کہا جاتا ہے اس کی تعریف کچھ یوں ہے کہ :

“Ambassador is a minister sent by one sovereign or state on mission to another.” (13)

“سفیر ایسا وزیر ہوتا ہے جو کسی بادشاہ یا ریاست کی طرف سے مشن کی تکمیل کے لیے بھیجاجاتا ہے۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

Musharaf asad
جامعہ کراچی,شعبہ علوم اسلامیہ کا ایک طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply