وائرس سے مکالمہ۔۔حبیب شیخ

ہائے! تم نے مجھے کیوں بیمار کردیا؟ اب تَو مجھے کھانسی کے ختم نہ ہونے والے دورے پڑ رہے ہیں۔‘ انسان نے کراہتے ہوئےکہا۔
میں تَو اپنے لیے صرف ایک خلیہ ڈھونڈ رہا تھا۔
اوہ! تم بول پڑے۔ میں کب سے تم سے بات کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ انسان اب سیدھا لیٹ گیا۔ تم ایک خلیہ ڈھونڈنے کے لئے آئے ہو یا مجھے مارنے کے لئے ؟۔۔
نہیں، میرا مقصد تمہیں مارنا نہیں ہے۔ تم تَو خود ہی بغیر ماسک لگائے اُس سے مل رہے تھے جس کے اندر میں چھپا بیٹھا تھا۔ میں تمہاری سانس کی نالی میں جا کر ایک خلیے سے چپک گیا اپنی بقاء کے لئے۔ اگر کہیں میں تمہاری معدے کی نالی میں چلا جاتا تو مجھے اپنے معدے میں دھکیل کر میرا نام و نشان مٹا دیتے۔

انسان نے سانس پر قابو پاتے ہوئے کہا،اگر تم ایک ہی رہتے تو مجھے تمہاری موجودگی پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا لیکن تم تو لاکھوں کی تعداد میں ہو گئے۔
اے انسان، تمہیں پتا ہے کہ افزائشِ نسل ہر جاندار کی جبلّت میں ہے۔
انسان نے ایک اکھڑتا ہوا چھوٹا سانس لیا۔ہوں! لیکن آخر کار تم انسانوں کے پیچھے کیوں  پڑے ہوئے ہو؟ ہم نے تو تمہارا کچھ نہیں بگاڑا۔
میں تو انسانوں سے دور ہی تھا بیابانوں میں۔ لیکن تم لوگ مجھے اپنی آبادی میں لے آئے۔ اب میں مجبور ہوں کہ اپنی بقاء کے لئے چمگادڑوں کے بجائے انسانوں سے چمٹ جاؤں۔
انسان نے بخار سے تپتے ہوئے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔ ٹھیک ہے! ہم سے ایک چھوٹی سی غلطی ہو گئی۔ اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ تم انسانوں کے بنائے ہوئے پورے نظام کو تہس نہس کر دو، کروڑوں انسانوں کو بیمار کردو، لاکھوں کی جان لے لو، بے شمارانسانوں کو غربت میں دھکیل دو۔ انسان کھانسنے کے لئے چند سیکنڈ رُکا۔ فیکٹریاں اور دکانیں بند کرا کے لوگوں کو بےروزگار کردو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

’لیکن تم اپنی طرف بھی تو دیکھو کہ تم اس دنیا میں کیا کر رہے ہو۔ وائرس نے فوراً پلٹ کر جواب دیا۔
کیا مطلب؟ ہم نے کیا غلط کیا؟ ہم کائنات کی تسخیر کرتے ہیں اور یہ ہمارا حق بھی ہے اور شوق بھی۔
تسخیر! ہا ہا! ہا ہا! وائرس اب بے اختیار ہنس رہا تھا۔
انسان نے جواب دینے کے لئے اپنی پوری طاقت کو اکٹھا کیا۔ ہاں، ہم خدا کے نائب ہیں اور اشرف المخلوقات ہیں۔ تمہیں یہ سمجھ میں نہیں آئے گا کیوں کہ تم تو ایک خلیے سے بھی کم تر نسل ہو۔
’کبھی سوچا تم نے کہ تم آئے کہاں سے! تم خلیوں کے ارتقا کی وجہ سے وجود میں آئے ہو اور تم مجھے حقیر کہتے ہو!
انسان کو دھچکا لگا کہ یہ وائرس اسے بات چیت میں بھی چِت کررہا ہے۔ ’پھر بھی تمہیں شرم آنی چاہیے  کہ تم ساری دنیا کے انسانوں کو اتنا نقصان پہنچا رہے ہو۔
وائرس مسکرایا، ایک طنزیہ مسکراہٹ۔  ہماری وجہ سے تم لوگوں کا کچھ جانی اور مالی نقصان ہو گیا تو کون سی بڑی بات ہے! تم لوگ اپنے لالچ اور طاقت کے لئے کیا کچھ نہیں کرتے! ایک ایک جنگ میں لاکھوں اور بعض دفعہ تو کروڑوں لوگ مار دیتے ہو، شہر کے شہر جلا کر راکھ کر دیتے ہو، جنگلات پر کیمیائی مواد پھینک کر اس کی زمین کو صدیوں تک ناقابلِ استعمال بنا دیتے ہو، تم خود کو خدا کا نائب اور اشرف المخلوقات کہتے ہو لیکن در حقیقت تم سے حقیر ۔۔۔
انسان کو کھانسی کا شدید دورہ پڑا اور وائرس کی آواز دب کے رہ گئی۔

Facebook Comments