کشمکش سے تنظیم (25)۔۔وہاراامباکر

کسی شہر میں منشیات فروش ڈیلر اپنے علاقے کی حدود کا تعین کیسے طے کرتے ہیں؟ دو باتیں ممکن ہیں۔
شہر کی پلاننگ کرنے والے ایک اجلاس بلائیں جس میں تمام منشیات فروش شرکت کریں اور علاقوں کو بانٹ لیں۔ یہ مرکزی پلاننگ کا طریقہ ہے۔ اس کا ایک متبادل طریقہ ہے۔
یہ ڈیلر ایک مقابلے کی فضا میں ہیں جو طے کرتا ہے کہ کون کتنے حصے کو کنٹرول کر پائے گا۔ ہر کوئی اپنا اپنا کام کر رہا ہے لیکن اپنے حریف کے ساتھ ایک سرحد بن گئی ہے۔ اور یوں شہر ان میں تقسیم ہو گیا ہے۔
اس غیرمرکزی طریقے کے اثرات کیا ہوں گے؟ فرض کیجئے کہ شہر میں ایک قدرتی آفت نے ایک حصہ تباہ کر دیا ہے۔ منشیات فروشوں کے علاقوں کی سرحدیں تبدیل ہو جائیں گی۔ تھوڑی سی سکڑ جائیں گی۔ کسی نے ان کو یہ کرنے کی ہدایات نہیں دیں۔ کم علاقہ دستیاب تھا اور یہ تقسیم ہو گیا۔ اسی طرح اگر بالفرض شہر یکایک پھیل جائے تو ڈیلروں کے علاقے بھی بڑھ جائیں گے کیونکہ مقابلہ کم ہو جائے گا۔ ان تبدیلیوں کے لئے کسی مرکزی منصوبہ بندی کی ضرورت نہیں پڑی۔
شہر میں یہ پیٹرن انفرادی مقابلوں کا نتیجہ ہیں۔ منشیات فروشوں میں سے ہر فرد کو اس بزنس کی ضرورت ہے۔ ہر ایک نے اپنے خرچے چلانے ہیں، بچوں کے سکول کی فیس دینی ہے، گھر کا کرایہ ادا کرنا ہے، راشن خریدنا ہے۔ علاقے پر کنٹرول کی جدوجہد ان مقاصد کے حصول لئے ہے۔ اور ان کے مسلسل اپنی اپنی جگہ کے دفاع کرتے رہنے اور پھیلنے کی کوشش کرنے کی یہ وجہ ہے۔ علاقوں کی تقسیم مخالف قوتوں کی تنظیم ہے جو مختلف حالات میں خود کو آسانی سے ڈھال لیتی ہے۔
لچکدار ڈیزائن حریفوں کی کشمکش سے ابھرا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اس تصور کے ساتھ ہم واپس دماغ کی طرف آتے ہیں۔ نیوروسائنس کی کوئی بھی کتاب دیکھ لیں تو نیوروٹرانسمیشن کا ذکر ہو گا۔ یہ نیورون سے (بہت معمولی مقدار میں) خارج ہونے والا کیمیائی پیغام رساں ہے۔ یہ کیمیکل دوسرے خلیے کے ریسپٹرز کے ساتھ چپک جاتا ہے اور اس سے چھوٹی سی برقی یا کیمیائی ایکٹیویٹی ہوتی ہے۔ اس طریقہ سے نیورونز آپس میں رابطہ رکھتے ہیں۔
اس روایتی وضاحت کو ہم نئی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ ہمارے گرد موجودہ خوردبینی کاسموس میں یک خلوی جاندار موجود ہیں جو کیمیکل خارج کرتے ہیں۔ یہ کیمیکل دوستانہ پیغامات نہیں، دفاعی مکینزم ہیں۔ کمان سے نکلے ہوئے تیر ہیں۔ اب ہم دماغ کو اربوں یک خلوی جانداروں کے طور پر تصور کرتے ہیں۔ عام طور پر ہم خوشی خوشی یہ سمجھتے ہیں کہ نیورون ایک دوسرے سے تعاون کر کے عضو بنتے ہیں لیکن اس کے سسٹم کو دیکھنے کا ایک دوسرا زاویہ ایک جنگ کے میدان کا ہے۔ پیغامات انفارمیشن پہنچانے کے بجائے ایک دوسرے پر تھوکنے کے لئے ہیں۔ اس عدسے سے دماغ کے زندہ ٹشوز میں اربوں انفرادی ایجنٹ دیکھ سکتے ہیں جو زندہ رہنے کی کشمکش میں الجھے ہوئے ہیں۔ منشیات فروشوں کی طرح ہر ایک کا اپنا ایجنڈا ہے۔
لچکدار ڈیزائن حریفوں کی کشمکش سے ابھرا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ نئی روشنی ہمیں کئی تجرباتی دریافتوں کی آسان وضاحت دے دیتی ہے۔ ڈیوڈ ہبل اور ٹورسٹن ویزل نے تجربات سے معلوم کیا تھا کہ ویژویل کورٹیکس میں سگنل دائیں اور بائیں آنکھ سے آتا ہے۔ ان دونوں ذرائع سے آنے والے سگنل کو برابر کی جگہ مل جاتی ہے لیکن اگر عمر کے ابتدائی حصے میں ایک آنکھ کو ڈھک دیا جائے تو دوسری طرف سے آنے والی اِن پُٹ کے نتیجے میں اس کو زیادہ علاقہ ملنے لگتا ہے۔ ماحول سے حاصل ہونے والا تجربہ دماغ کی تشکیل کرتا ہے۔ بند آنکھ کی کمزور اِن پُٹ کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ یہ علاقہ کھنڈر بن جاتا ہے اور اس پر قبضہ ہونے لگتا ہے۔ یہ ہمیں دو اصولوں کے بارے میں آگاہی دیتا ہے۔ دماغ کے نقشے جبلی طور پر سیٹ نہیں ہوئے اور دوسرا یہ کہ علاقہ برقرار رکھنے کا انحصار ایکٹیویٹی پر ہے۔ اپنا علاقہ قائم رکھنا ایک مستقل ہونے والی کشمکش ہے۔ جب اِن پُٹ کم ہو گئی تو نیورون اپنے کنکشن تبدیل کر لیتے ہیں۔ جہاں ایکشن ہو گا، وہاں کنکشن ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دریافت پر ہبل اور ویزل کو نوبل پرائز ملا اور یہ بھینگے پن کا ایک علاج بھی بتاتا ہے۔ ایک بچہ کم استعمال ہونے والی آنکھ سے بصارت کھو بیٹھتا ہے۔ مسئلہ آنکھ کا نہیں، ویژوئل کورٹیکس کا ہے۔ غالب آ جانے والی آنکھ کا حصہ دوسرے کو مغلوب کر کے ہڑپ کر جاتا ہے۔ آنکھ کا علاج کرنے کے بعد بھی اس سے بصارت ٹھیک نہیں ہوتی۔ اگر ایسے بچے کا آپریشن سے اس کو ٹھیک کرنے کے بعد اچھی والی آنکھ کو ڈھک دیا جائے تو یہ کمزور آنکھ کو ٹھیک ہو جانے کا موقع دیتا ہے۔ ایک بار توازن واپس آ جائے تو پھر آنکھ کو کھول دیا جائے۔ دونوں آنکھیں ٹھیک کام کرنے لگیں گی۔
اس سسٹم کو سمجھنے کا ٹھیک طریقہ یہ ہے کہ چھوٹے لیول پر مقابلے سے بڑی لیول پر خاصیتیں ابھرتی ہیں۔ مقامی جنگیں تمام عمر جاری رہتی ہیں، دماغ کا نقشہ بدلتا رہتا ہے۔ نیورونز وسائل کی جنگ میں مصروف رہتے ہیں۔ اب اگلا سوال یہ کہ یہ مقابلہ کس کے لئے ہو رہا ہے؟ منشیات فروش کے لئے یہ کیش کی خاطر ہے۔ نیورون کے لئے اس میں کیا ترغیب ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریٹا لیوی مونٹالسینی کو چوزوں کی اعصابی گروتھ پر 1986 میں نوبل انعام ملا تھا۔ انہوں نے جو دریافت کیا تھا وہ زندگی بچانے والے کیمیکل نیوٹروفِن تھے۔ یہ پروٹین ہیں جو کہ نیورون اور سائنیپس کی کرنسی ہیں جن کے لئے ان کا مقابلہ ہوتا ہے۔ جو نیورون ان کو حاصل کر لیتے ہیں، وہ پھلتے پھولتے ہیں، جو ناکام رہتے ہیں، وہ اپنی شاخیں کہیں اور لے جاتے ہیں۔ کچھ مر جاتے ہیں۔
اس انعام کے ساتھ نیورون کو ایک خطرہ ہے جو زہریلے فیکٹر ہیں۔ سائنیسو ٹوکسین سائنیپس کو ختم کر دیتے ہیں اور ایگزون اس سزا سے صرف اسی وقت بچ پاتے ہیں اگر ایکٹو رہیں۔
مطلوب اور غیرمطلوب مالیکیولز کی فیڈبیک جاری رہتی ہے۔ کس نے چوکی پر حفاظت کرنی ہے، پھلنا پھولنا ہے، سکڑ جانا ہے، کہیں دبک جانا ہے یا ختم ہو جانا ہے۔ اس کالونی میں یہ عمل جاری رہتا ہے۔ انعام اور سزا، کامیابی اور ناکامی، ترغیب اور تنبیہہ ۔۔۔ ہمہ وقت یہ کھیل جاری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انفرادی نیورونز کے ساتھ بڑے پیمانے کے معاملات بھی ہیں۔ دو اقسام کے نیورون ہیں ایک وہ جو پڑوسیوں کو excite کرتے ہیں، دوسرے وہ جو inhibit کرتے ہیں۔ یہ دونوں نیٹورک میں ہی پیوستہ ہیں۔ اگر روکنا زیادہ ہو جائے تو صحت مند مقابلہ بھی جاری نہیں رہتا۔ اگر روکنا کم ہو جائے تو مقابلہ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ کوئی فاتح نہیں بن پاتا۔ ایک اچھا سسٹم وہ ہے جس میں توازن ہو۔
اس کی مثال کے لئے شمالی کوریا اور وینیزویلا کو دیکھا جا سکتا ہے۔ شمالی کوریا میں اتنی سختی ہے کہ لوگ حکومت کی منظوری کے بغیر کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ وینیزویلا میں حکومت اتنی کمزور ہے کہ مافیا، مجرم، ڈرگ کارٹیل کھلے عام پھرتے ہیں۔ دونوں ممالک ترقی نہیں کر سکتے۔ ایک اپنی سختی کی وجہ سے، ایک اپنی آزادی کی وجہ سے۔ اچھی اقوام ان میں اچھا توازن رکھتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہی وجہ ہے کہ ملک میں مخالف پارٹیوں کا نظام اتنا کارآمد رہتا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن، کنزرویٹو اور لبرل، قدامت پسند اور ترقی پسند ۔۔۔ ان کو نیوروٹرانسمشن میں مقابلہ کرنے والی اقسام کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اچھی ریاست میں عام طور پر ایک پارٹی غالب ہو گی، لیکن بمشکل۔ ایک پارٹی کی حکومت مرکز میں بن گئی، مخالف کی صوبے میں۔ اگرچہ لوگ لڑتے جھگڑتے مخالف سیاستدانوں کو دیکھ کر افسوس میں سر ہلاتے نظر آتے ہیں لیکن اچھے نظام بالکل اسی طریقے سے چلتے ہیں۔ اگر ایک شخص، ایک ادارہ، ایک پارٹی یا ایک نظریہ مکمل غلبہ حاصل کر لے تو تاریخ بتاتی ہے کہ یہ کسی قوم کے لئے سب سے زیادہ تباہ کن صورتحال ہے۔ حکومت ہو یا دماغ، مخالفین کی کشمکش کا توازن وہ جادو ہے جس سے وہ نظام ابھرتا ہے جو مستحکم رہتا ہے، قابو میں ہوتا ہے اور ساتھ ہی تبدیلی کے لئے بھی تیار ہوتا ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments