پی ڈی ایم بیانیہ اور مولانا۔۔شہزاد سلیم عباسی

جولوگ اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی مخالفت کے چکرمیں نواز اور زرداری کا ساتھ دے رہے ہیں،انہیں اس اہم زاویے کا سرے سے ادراک ہی نہیں ہے کہ مولانا فضل الرحمان اور پی ڈی ایم کے حتمی بیانیے میں فرق ہے۔پی ڈی ایم تحریک میں مولانا واحد سیاستدان ہیں جو سخت ترین موقف رکھتے ہیں اور کسی بھی طرح نواز شریف سے مل کر اسٹیبلشمنٹ کے رول کو سیاسی محاذ سے بے دخل کردینا چاہتے ہیں۔حقیقت احوال یہ ہے کہ پی ڈی ایم دراصل ن لیگ، پی پی پی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) ہیں جو موجودہ حکومت کو چلتا کرکے ساز باز کے نتیجے میں حکومتی ایوانوں میں بیٹھنا چاہتے ہیں۔پی ڈی ایم حقیقتاََبازی گروں سے ڈیل اور نیب سے ڈھیل چاہتی ہے۔ پی ڈی ایم کے لیے سب سے بڑا مسئلہ نیب ہے اور پھر اپنی بقا ہے۔ پی ڈی ایم نہیں چاہتی کہ 2023 ء کے الیکشن میں ان کے خلاف کوئی ایڈونچر ہو۔ نواز، زرداری اور مولانا اپنا پورا پورا حصہ چاہتے ہیں۔ اس ضمن میں پی پی پی قربانی دے کر نواز لیگ کو وفاق اور پنجاب دینا چاہتی ہے جبکہ خود سندھ اور کچھ بلوچستان اور ایک دو بڑی وزارتوں پر آمادہ نظر آتی ہے۔ اور مولانا فضل الرحمان کے پی اور کچھ بلوچستان اور کشمیر کی چیئرمین شپ کیساتھ وزارت مذہبی امور وغیرہ پر رضامند نظر آتی ہے۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس آزمودہ سیاسی فارمولے پر راضی ہوتی ہے یا نہیں۔ یہ بات تو طے  ہے کہ اب جو بھی ہوگا وہ انڈر دی ٹیبل ہوگا۔

سائنس کا نظام دنیا گول ہے اور قدرت کا نظام مکافات عمل عجیب و غریب فلسفے ہیں۔پی ڈی ایم کا مروجہ جمہوری حق ہے کہ و ہ جلسے، ریلیاں، لانگ مارچ یا دھرنے دیں، مگر اس ضمن میں مخاصمت اور منافرت سے پرہیز کرنا چاہیے۔اب پی ڈی ایم کے اہم پارٹنر اور سربراہ مولانا فضل الرحمان کے حوالے سے کافی عرصے سے تنازعات نے جنم لے رکھا ہے جو کہ اب کافی شدت اختیار کرچکے ہیں۔ سینئر پارٹی رہنما ؤں حافظ حسین احمد، مولانا محمد خان شیرانی، مولانا شجاع الملک اور مولانا گل نصیب جیسے تگڑے پارٹی کے رہنما کافی عرصے سے مولانا فضل الرحمان کی پارٹی پالیسیوں سے نالاں نظر آتے ہیں۔ناراض پارٹی رہنماؤں کے مطابق مولانا ذاتی فوائد اور مفاد پرستی کے حصول کے لیے غیر جمہوری رویے اختیار کرنے پر اتر آئے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ مولانا پارٹی کو موروثی پارٹی بنا کر دروغ گوئی اورمعاشرتی انتشار کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں۔

مذکورہ بالا صاحبان کا واضح موقف ہے کہ پاسداران شرعیت و اطاعت کو زیبا نہیں کہ وہ کبھی عارضی فائدے کے لیے جمعیت علمائے اسلام جیسے پاکیزہ مسند کو استعمال کرے۔ ناراض رہنما انہیں موجودہ سیاسی تحریک میں شمولیت کی وجہ سے ”غدار“ تک کہہ رہے ہیں۔خیر یہ بہتان تراشیا ں سیاسی لوگوں پر جاری رہتی ہیں جس سے کسی معروف سیاسی پارٹی کوکوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جب بھی کسی کو اقتدار یا کرسی نہیں ملی وہ بگڑ گیا اور شاید یہاں بھی ایسا ہی ہے۔ کہ جن لوگوں کو مولانا نے بوجوہ(اگر حافظ حسین اور مولانا شیرانی کو نظر انداز نہ کیا ہوتا توآج مولانا کی پارٹی سربراہی خطرے میں ہوتی) نظرانداز کیا وہ آج ان کے مخالف ہیں۔

اگر ہم مولانا شیرانی کی بات کریں تو پھر یہ حوالہ دینا مناسب ہو گا کہ بڑے حضرات جو جماعتوں میں سینئر ترین ہوجاتے ہیں تو وہ بسا اوقات خود کو ناگزیر سمجھنے لگتے ہیں،حالانکہ جماعتوں میں ناگزیر کوئی نہیں ہوتا۔ مگر یہاں تصحیح کرنا ہوگی کہ موروثی جماعتوں میں ”ناگزیر“ ہوتا ہے اور وہ جماعت جو خالصتا َنظریات اور فکری محنت کی نتیجے میں وجود میں آتی ہیں وہاں وراثت کا چکر نہیں رہتا اور نہ ہی کسی کو دھونس دھاندلی یاموروثی پارٹی ہونے کا طعنہ سننا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ کی رحلت کے بعد تنظیم اسلامی کی بھاگ دوڑ حافظ عاکف سعید نے سنبھالی جن پر اب موروثیت اوردیگر کوتاہیوں کی بدولت تنظیم کے دیرینہ ذمہ دار خالد عباسی نے طبل جنگ بجایا اور”شُبان المسلمین کے نام سے نئی جماعت بنائی۔اب اگر مولانا شیرانی نے الزام لگاہی دیا ہے تو مولانا کو انٹرا پارٹی انتخابات کروانے چاہئیں جس میں جمعیت کی سربراہی کیلئے کم از کم تین لوگوں کا انتخاب کریں تاکہ دودھ کا ددوھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔خیر مولانا شیرانی یا کسی دوسرے کے الگ ہونے سے مولانا کی پوزیشن کوکوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ اس وقت دادا پوتا سیاست عروج پر ہے۔سیاست کے بڑے اس وقت عباس شریف کی پوتی مریم نواز، حاکم زرداری کے پوتے بلاول اور مولانا فضل الرحمان کے بیٹے مولانا اسدکو تیار کر رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستان میں دو غیر موروثی جماعتیں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف میں انٹرا پارٹی انتخابات کا سلسلہ نہیں ہے جبکہ جماعت اسلامی میں یہ سلسلہ تحصیل اور پھر یوسی سطح تک مکمل قابل عمل ہے۔ دوسرا بنیادی فرق یہ ہے کہ تحریک انصاف میں عمران خان شاید ”ناگزیر‘‘ہیں مگر جماعت اسلامی میں مولانا مودودی ؒ، میاں طفیلؒ، قاضی حسین احمدؒ، سید منور حسن اور اب سراج الحق کسی میں بھی رشتہ داری تو درکنا ر علاقے کا بھی کچھ خاص تعلق نہیں ہے۔ جماعت اسلامی میں کچھ دم خم نظر آتا ہے اگر یہ نئے دور کے سیاسی تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھال لے۔ جماعت کا ایک ہی مسئلہ ہے جس وجہ سے اسے انتخابی سیاست میں حصہ نہیں ملتا۔ جماعت اسلامی کو اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت خالصتاََ”سیاسی محاذ“ پرکرنا ہوگی۔اگر اسٹیبلشمنٹ کو جماعت اسلامی جیسی ملک واسلام دوست جماعت مل جائے تو وہ اسے کم از کم صوبو ں میں ضرور آزمائے۔

Facebook Comments