تھپکی۔۔محمد اسد شاہ

گزشتہ کئی سالوں سے محمد خان شیرانی صاحب کا نام جمعیت علمائے اسلام (مولانا فضل الرحمٰن گروپ) کے حوالے سے ہی سننے میں آتا رہا ہے – جمعیت سے ہٹ کر انھیں کوئٹہ سے باہر شاید ہی کوئی جانتا ہو ، کیوں کہ ان کی پہچان جمعیت علمائے اسلام (ف) ہی تھی – ان کی تصویر دیکھی تو دل میں احترام پیدا ہوا کہ سرخ و سفید بزرگانہ چہرے پر سفید بالوں والی خوب صورت ڈاڑھی تھی – اس وجہ سے ان کے حوالے سے ہمیشہ محبت اور احترام کے جذبات دل میں آتے ہیں – ابتدائی غائبانہ تعارف کے بعد ان کے حوالے سے جو کچھ منظر عام پر آتا رہا ہے ، آئیے ، اس کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں – جمعیت علمائے اسلام (مولانا فضل الرحمٰن) سے تعلق کے باوجود آمر جنرل پرویز مشرف نے اچانک انھیں اسلامی نظریاتی کونسل کا چیئرمین بنا دیا – یاد رہے کہ علماء کے حوالے سے جنرل پرویز کے خیالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ، اور یہ بھی ہم سب جانتے ہیں کہ جنرل پرویز کو کس قسم کے “علماء” پسند تھے – دوسری بات یہ کہ بطور چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ، محمد خان شیرانی کے بعض بیانات بہت متنازعہ ، اور بعض معاملات بہت افسوس ناک لگے – ان کے ماتحت کام کرنے والے ایک موقر عالم دین اور نظریاتی کونسل کے رکن نے اس حوالے سے بہت ہوش ربا انکشافات بھی کیے – ایسی مبینہ باتوں/معاملات کا کسی “عالم دین” سے سرزد ہونا ممکن نظر نہیں آتا تھا ، اس لیے میرے جیسے طالب علم کو یقین ہی نہ آیا – لیکن افسوس اس بات پر ہؤا کہ شیرانی صاحب کی طرف سے ان باتوں کی ٹھوس انداز میں تردید سامنے نہ آئی ، یا اگر آئی ہو تو کم از کم اس ناچیز کی نظروں سے اوجھل رہی – پھر یہ خبر آئی کہ وہ ایران تشریف لے گئے اور انقلاب ایران کے قائد خمینی صاحب کی قبر پر حاضری دی ، فاتحہ پڑھی اور دعا کی تو شیرانی صاحب کی اپنی جماعت (جمعیت علمائے اسلام) اور ان کے اپنے ہم مسلک علماء کی طرف سے اس پر بہت اعتراضات اٹھے – کیوں خمینی صاحب کے متعلق علمائے دیوبند اور علمائے اہل حدیث کی رائے سے پوری دنیا اگاہ ہے – اگر شیرانی صاحب کی رائے ان سے مختلف تھی تو وہ دیوبندی علماء کی جماعت میں کیا کرتے پھر رہے تھے؟ دو صریحاً مختلف ، بل کہ مخالف راستوں پر بیک وقت سفر کرنا شیرانی صاحب کا حیرت انگیز کارنامہ ہے – گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک سوال گردش کر رہا تھا کہ اگر عمران خان اسرائیل کو تسلیم کرنے سے پہلے رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے بعض “علماء” کو استعمال کرنا چاہیں ، تو سب سے پہلے کون اس مقصد کے لیے اپنی خدمات پیش کرے گا – رائے دہندگان بھی سوشل میڈیا کے صارفین ہی تھے – جس کے دل میں جو آیا ، لکھ دیا – کوئی ٹھوس وجہ تو کسی نے نہ بتائی – چناں چہ غالب اکثریت نے علامہ طارق جمیل اور طاہر اشرفی صاحب کے نام لکھے – ان کے علاوہ صارفین کی طرف سے لکھے ہوئے جو نام نظر سے گزرے ان میں ڈاکٹر طاہر القادری ، حافظ سعید ، خادم حسین رضوی (تب وہ بقید حیات تھے) علامہ نورالحق قادری ، علامہ سمیع الحق کے صاحب زادے حامد الحق ، مولانا محمد اعظم طارق کے صاحب زادے محمد معاویہ ایم پی اے ، علامہ احمد لدھیانوی ، علامہ زاہد الراشدی اور سراج الحق صاحب جیسی عظیم ہستیوں کے نام بھی شامل تھے – ایک عام پاکستانی طالب علم کی حیثیت سے میں ان سب کا دل سے احترام کرتا ہوں اور ان کے علمی مرتبے اور خدمات کے پیشِ نظر ان سب کے متعلق حسن ظن رکھتا ہوں – مجھے نہیں معلوم کہ سوشل میڈیا پر ان بزرگ ہستیوں کے اسمائے گرامی اس متوقع کردار کے لیے صارفین کے اذہان میں کیوں آئے – کیا ان علمائے کرام کے رویئے یا سیاسی کردار کا تاثر ایسا ہے کہ بعض لوگ ان کے متعلق اس قسم کا خیال رکھتے ہیں ، نہیں معلوم ! فیس بک پر جن صاحب نے یہ سوال اٹھایا تھا ، مجھے ان کا نام نوٹ کرنے کا خیال نہ آیا – لیکن گزشتہ دنوں جب اچانک محمد خان شیرانی صاحب نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کر دیا تو فیس بک کی وہی پوسٹ یاد آئی – لیکن بہت تلاش کرنے کے باوجود وہ دوبارہ مل نہ سکی – ہاں ایک بات مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وہاں جواب دینے والے صارفین میں سے کسی کا بھی دھیان شیرانی صاحب جیسی نابغہ روزگار شخصیت کی طرف نہیں گیا تھا – کس کو معلوم تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کروانے کا بیڑہ اٹھانے کے لیے کون سا “چھپا رستم” سامنے آئے گا – مقتدر حلقوں کی جیب میں ایسے ایسے کئی چھپے رستم موجود ہیں کہ ہم جیسے عام پاکستانیوں کا خیال بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتا – یہ بیان جاری فرما کر شیرانی صاحب نے میرے سمیت بے شمار پاکستانیوں کے دل و دماغ میں کوئی اچھا تاثر تو قطعاً نہیں چھوڑا ، البتہ ان کے حوالے سے جو سابقہ تاثر تھا ، وہ مزید مضبوط اور گہرا ہوتا چلا گیا – بہت عرصے سے یہ خیال دل میں آتا تھا کہ موصوف کس مزاج اور نظم کے تحت کام کرتے ہیں – لیکن اسرائیل کے حوالے سے ان کے مطالبے کو دیکھتے ہوئے بعض لوگوں نے اندازے لگانا شروع کر دیئے ہیں – بل کہ بعض جلد باز قسم کے لوگ تو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ جان ہی چکے ہیں کہ شیرانی صاحب کے پیچھے کون بولتا ہے – ہم تو ٹھہرے کم فہم اور ادنیٰ قسم کے ایسے طالب علم جس کے دل میں سوالات تو پیدا ہوتے ہیں ، لیکن جواب پوچھنے کی ہمت نہیں ہوتی ، اور جو تحقیق کرنے میں بعض اوقات سستی دکھاتا ہے – خیر سوال تو دل میں تھا ، لیکن ہم جواب معلوم کرنے کی کوشش نہ کر پائے – دو دن پہلے اچانک شیرانی صاحب خبروں کی شہ سرخیوں میں آ گئے – ایک وجہ تو ظاہر ہے وہ ہی ہے کہ شاید انھوں نے عوام کو اسرائیل کے تسلیم کیے جانے کے لیے راستہ ہموار کرنے کا ذمہ لے لیا ہے – اور دوسری وجہ یہ ہے کہ جس طرح نیب نے اچانک مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا ہے ، عین اسی طرح شیرانی صاحب نے بھی اچانک اپنی ہی جماعت کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف غیر اعلانیہ لفظی بمباری کا آغاز کر دیا ہے –
شیرانی صاحب نے مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف باقاعدہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے ذاتی عناد کا اظہار اور توہین آمیز گفتگو کے لیے عین وہ وقت چنا ہے (یا کسی نے انھیں اشارہ کیا ہے) ، اور نیب نے بھی مولانا کے خلاف کارروائیوں کا آغاز عین اس وقت کیا ہے کہ جب مولانا پی ڈی ایم کے سربراہ کی حیثیت سے موجودہ حکومت کی قانونی حیثیت ، اور سیاسی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کی دخل اندازی کو بہت زور و شور سے چیلنج کر رہے ہیں – ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ شیرانی صاحب اور چیئرمین نیب “مل جل” کر کام کر رہے ہیں – البتہ نیب کی کارروائیوں کے حوالے سے مختلف عدالتیں ، حتیٰ کہ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ بھی بہت سے اعتراضات اور سوالات اٹھا چکی ہیں –
شیرانی صاحب نے اپنی جماعت کے سربراہ کو سلیکٹڈ کہا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انھیں آج کیسے علم ہوا کہ وہ سلیکٹڈ ہیں جب کہ انھیں جمعیت کے اندرونی انتخابات میں بار بار سربراہ منتخب ہوتے ہوئے شاید پندرہ سالوں سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے – اگر ان کے انتخاب پر شیرانی صاحب کو کوئی واقعی اعتراض یا شک تھا تو اس پر اسی وقت کیوں نہ آواز اٹھائی ، اور اس کی بجائے وہ وقت کیوں چنا گیا جب مولانا ایک تاریخ ساز سیاسی اتحاد کی سربراہی کرتے ہوئے ایک بڑی احتجاجی تحریک کے ہراول دستے کی قیادت کر رہے ہیں – دوسری طرف عمران خان صاحب کے متعلق سلیکٹڈ کا لفظ تو پاکستان کی تقریباً تمام بڑی جماعتوں نے عین اسی دن استعمال کرنا شروع کر دیا تھا جب انھوں وزارت عظمیٰ کی نشست سنبھالی – مثلاً پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے عین اسی دن جب وزیراعظم کا انتخاب ہوا، قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر عمران خان کی موجودگی میں انھیں سلیکٹڈ کہہ کر مبارک باد دی – اور نہایت حیرت انگیز طور پر خود عمران خان نے باقاعدہ تائیدی انداز میں سر ہلا ہلا کر اس بات پر مسکراتے ہوئے تالیاں بھی بجائیں – پھر دیگر اپوزیشن جماعتوں نے بھی اسمبلی کے فلور پر ہی سلیکٹڈ کا لفظ سینکڑوں بار استعمال کیا – اسمبلی سے باہر محترمہ مریم نواز اور مولانا فضل الرحمٰن نے پریس کانفرنسز اور جلسہ ہائے عام میں اس لفظ کو تواتر کے ساتھ استعمال کیا – شیرانی صاحب چوں کہ ایک عالم ہیں ، اس لیے امید واثق ہے کہ انھیں “تواتر” کی اہمیت کا اندازہ ہو گا ، کہ مدارس کی تعلیم میں تواتر کو صحت و سںند کی ایک بنیاد سمجھا جاتا ہے – حیرت کی بات ہے کہ اس سب کے باوجود انھیں مولانا فضل الرحمٰن کو سلیکٹڈ کہنے کا خیال ڈیڑھ دہائی گزرنے کے بعد کیسے آ گیا ؟
شیرانی صاحب نے میڈیا کی موجودگی کا “مکمل انتظام” کر کے خاں صاحب کے نہ صرف پانچ سال تک وزیر اعظم رہنے ، بل کہ 23 کا انتخاب جیتنے کی بھی پیشین گوئی فرمائی ہے – حال آں کہ “مستقبل بینی” کا یہ کام شیخ رشید احمد ، شبلی فراز ، فیاض چوہان ، زرتاج گل ، مراد سعید اور فردوس عاشق اعوان بھی نہایت چابک دستی کے ساتھ سر انجام دے رہے ہیں – اتنے ڈھیر سارے کہنہ مشق نجومیوں کی موجودگی میں “انھیں” شیرانی صاحب کی ضرورت کیوں پیش آ گئی؟ کیا مذکورہ بالا نجومیوں کی بات پر عوام کو یقین نہیں آ رہا تھا؟
اس وقت پاکستانی نیوز چینلز کے متعلق تو ہم سب کو اندازہ ہے کہ کتنے آزاد ہیں ، انھی چینلز نے اچانک ایک مرتبہ پھر شیرانی صاحب کو تقریباً وہی اہمیت اور کوریج دینا شروع کر دی ہے جو جنرل پرویز مشرف کے دور میں انھیں ملا کرتی تھی – چناں چہ عام انسانی فہم (Common Sense) کا ہلکا سا استعمال بھی اس گتھی کو سلجھا سکتا ہے کہ شیرانی صاحب کی پشت پہ کس کی تھپکی ہے اور وہ کس کی زبان بول رہے ہیں –

Facebook Comments