• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • بانی پاکستان، سیکولر ازم اور دین۔۔حسان عالمگیر عباسی

بانی پاکستان، سیکولر ازم اور دین۔۔حسان عالمگیر عباسی

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مومنانہ فراست رکھتے تھے۔ اگر لبرلز اور سیکولرز کے کہے کے مطابق ان کی ایک تقریر کو بنیاد بنا کر مان لیا جائے کہ وہ واقعتاً ایک سیکولر ریاست کے حامی تھے  تو یہ سراسر اسلامی ریاست کے ،ان کے خواب کا ایک حصہ تصور میں لایا جا سکتا ہے۔ جہاں تک تمام مذاہب کی آزادی کا سوال ہے، دونوں ادیان یعنی سیکولرازم اور اسلام ایک پیج پہ نظر آتے ہیں۔ جہاں تک بنیادی انسانی حقوق کی بات ہے, دونوں ہی حقوق دہی کے قائل ہیں۔ قائد اعظم نے اگر یہ کہا تھا کہ پاکستان میں ہندو کو مندر، عیسائی کو چرچ، مسلمان کو مسجد اور دیگر اصحابِ مذاہب کو اپنی اپنی عبادت گاہوں میں جانے میں آزادی ہو گی تو یہ سیکولرائزڈ ورشن آف اسلام ہی تو ہے۔

سیکولر ازم سے اسلام کا بہت سی باتوں پہ باالاتفاق ہمدردانہ معاملہ نظر آتا ہے۔ بالفرض یہ محض  مفروضہ ہی سمجھ لیا جائے تو بھی کھینچ تان کے تانے بانے با آسانی ملائے جا سکتے ہیں۔ سیکولرازم لا شعوری طور پہ کسی حد تک مومنانہ پیش قدمی کرتا نظر آ رہا ہے۔ چند امور پہ یکسانیت کے پیکج سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اختلافات کے دریا میں کودنے اور محض انا کی تسکین کے لیے اسلام کی غلط تشریحات پرانہ وطیرہ اور اوچھا ہتھکنڈا ہے۔

سارا قصور لیڈرز کا ہے۔ ایک حدیث کے مفہوم کے مطابق عوام الناس اجداد کے دین پہ ہوتے ہیں۔ مولانا مودودی رح کا بھلا ہو کہ  انھوں نے جمہوریت کو اسلامک ریجنز میں کلمہ پڑھوا کے مسلمان بنوانے میں کوشش کی۔ اسلام میں سردارانِ قریش کو اور دیگر اثر ورسوخ  والے اصحاب کو فوکس کیا گیا۔ تالیف قلب کا ایک بہترین تصور بھی ہماری میراث ہے۔ جو چھائے ہوئے ہوتے ہیں ان میں ڈھل کر ڈھال دینا دینی مزاج ہے۔ ہر وقت ٹاکرے اور مار دھاڑ کی سوچ سے اتفاق آج کے دور میں ممکن نہیں رہا۔ اسلام پتے کھیلنے کا نام ہے جو ٹائمنگ پہ یقین رکھتا ہے جسے صرف غزوات تک محدود کر دیا گیا ہے۔ سیکولرازم یا سیکولرائزڈ اسلام ایسا ہی ہے جیسے مودودی رح نے اسلامی جمہوریت کی اصطلاح استعمال کی ہے۔

اسلامی جمہوریت کا یہ مطلب نہیں نکالا جا سکتا کہ وہ بعین مغربی جمہوریت ہے۔ مغربی جمہوریت چھائی ہوئی تھی لہذا تجدیدی مساعی کے بعد سرداران یا بالفرض قبیلے کے ایک حصے کو اسلام سے روشناس کروا دیا گیا۔ اگر جان مائیکل یا ڈیوڈ مسلمان ہونے کے بعد اپنا نام نہیں بدلنا چاہتے تو یہ حرام ہے اور نہ ہی مکروہات میں اس کا شمار ہے۔ اسی طرح سیکولر ازم سے بھی ‘تعاونوا علی البر و التقوی’ یا ‘تعالوا الی کلمة سواء بیننا و بینکم’ کی رو سے ہاتھ ملائے جانا ہی وقت کا تقاضا ہے۔ ہر جگہ ‘انفروا خفافا و ثقالا وجاھدوا باموالکم وانفسکم فی سبیل اللہ’ اور ‘وقاتلوھم حتی لا تکون فتنہ ویکون الدین کلہ للہ’ جیسے مقدس کلیوں کو استعمال میں لانا دین کا مزاج نہیں ہے۔ باطل کو مٹانے کے لیے اس سے ٹکرانے کی بجائے اسے اسلام سے روشناس یا اس کی اسلامی تطہیر زیادہ اہم ہے۔

قائد اعظم محمد علی جناح رح کو یا ان کے فرمودات کو بظاہر دونوں طبقات یعنی سیکولرز اور اسلامسٹس اپنے اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ سیکولرز جن امور پہ ان سے اپنائیت جتاتے ہیں وہ اسلام اور سیکولرز دونوں کے متفقہ نکات ہیں۔ اسلامسٹس اگر جھگڑنے، لڑنے، دھاڑنے اور مارنے کی اوچھی انتہا پسندانہ سوچ سے باہر تشریف لے جائیں تو ان کے سیکولرائزڈ نکات کو مخفی اسلامی عینک پہن کر اپنے حق میں استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔۔ لیکن جب اسلام پسندوں کو اسلام پہاڑوں اور غاروں، سرنگوں اور سنگلاخوں، بم اور بارود میں ہی نظر آئے گا تو یہ آیت ‘وقاتلوھم حتی لا تکون فتنہ ویکون الدین کلہ للہ’ یا ‘ان الباطل کان زھوقا’ انا کو تسکین پہنچانے کا بہتریں سامان ہیں۔

سیکولرز قائد اعظم کی مذہبی آزادی کی سوچ کو اگر سیکولر ازم کا نام دیتے ہیں تو اس میں کونسی برائی ہے۔ اسلام کی حدود تب پامال ہوتی ہیں جب وہ قائد اعظم سے   منسوب یہ بات ثابت کر پائیں کہ وہ خدا نخواستہ پاکستان کے قیام کا اعلان اس لیے کر رہے تھے تاکہ باطل جگمگانے لگے۔ یہ اکیلے جناح نہیں تھے بلکہ وہ فیس (face) تھے۔ اس کے پیچھے اقبال رح، مودودی رح اور دیگر صائب الرائے حضرات کی سوچ کار فرما تھی۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آنکھیں جناح کی تھیں لیکن آنکھوں کے پیچھے دماغ اقبال رح اور ان کی ہم عصر و فکر حضرات کا تھا۔ ایک مشترکہ کاوش کو ایک فرد کے ساتھ جوڑنا خود جناح رح کے شایان شان نہیں ہے۔

سیکولرز سے چند امور پہ ہاتھ ملائے رکھنے سے مذہبی پنڈتوں کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا لیکن ان کی روح کی تسکین کی ہر وہ شے اسلام ہے جو اسلام کے قرب و جوار بلکہ دور دور تک بھی نہیں ہے۔ قائد اعظم کے فرمودات اور آئین صرف اسلام کو بحیثیت نظام تسلیم کرتے ہیں۔ اقامت دین کی جدوجہد کے نام پہ انا کو تسکین پہنچائے جانے کا سلسلہ اب ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھنے کا متقاضی ہے۔ ان مگر مچھوں کو غریبوں کے ہزاروں بچے دے کر اور ان کی شہادت کا اب تک اگر حساب نہیں ہوا تو اس میں مذہب پسندوں کے  رویے سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔

مومن جب ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جا سکتا تو ماضی سے آج کی تاریخ تک مذہب پسندوں کو بارودی جمہوریت کیوں درکار ہے کا سوال بہت مہنگا ہے۔ چند مقاصد اور مفادات کے لیے اصولوں کی قربانیاں قائد اعظم محمد علی جناح رح کے کاز کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ وہ جس نے پاکستان بنایا تھا یا مشترکہ کاوشوں کو جلا بخشی تھی، اس ملک میں صرف جمہوری اسلامی فلاحی پاکستان کا خواب سجائے بیٹھا تھا۔ان کی جیب بھلے کھوٹے سکوں سے بھری رہی لیکن وہ اسلام کو بحیثیت دین تصور میں لاتے تھے۔

جناح رح سے جب پوچھا گیا کہ کونسا اسلام ہوگا تو آپ نے وضاحت و صراحت پیش کر دی۔ آپ رح نے کہا کہ قانون چودہ سو سال پرانہ ہی لاگو ہو گا۔ یقیناً یا شاید وہ ‘الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا’ پڑھ بھی نہ سکتے ہوں لیکن ان قاریوں، مولویوں اور مذہب فروشوں سےکہیں زیادہ بڑھ کر یہ آیت سمجھ گئے تھے کہ اسلام سچا و آخری واحد قابل عمل دین ہے۔ مذہب کی گنجائش ہر کوئی دیتا ہے۔ نماز دہلی و لکھنؤ میں اب بھی جماعت سے ہوتی ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کا دماغ فالج زدہ نہیں تھا کہ وہ مذہبی ریاست کے لیے نوجوانوں کی قربانیاں مانگتے۔ اگر قربانی دی ہے تو یقیناً چودہ سو سال پرانے نظام کے قیام کی  خاطر دی ہے۔ آپ رح سے جب پوچھا گیا کہ وہ کیسا پاکستان چاہتے ہیں تو آپ نے کہا کہ ہم (وہ) ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے ہیں جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔

اس عظیم مقصد میں سب سے بڑی رکاوٹ سیکولرازم نہیں ہے بلکہ وہ حضرات ہیں جنھوں نے اقبال رح کے اسباق پہ غور نہیں کیا۔ جو بد دیانت ہیں، کرپٹ ہیں، بے ایمان ہیں اور حرام خور ہیں دراصل اس ملک کی اسلامی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ چینی و دیگر مافیاز دراصل ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ بلا شبہ یہ اپنے آپ کو سیکولر ازم یا اسلام سے ہی نتھی کرتے ہیں لیکن وہ اصلا اپنی افزائش و بڑھوتری کے لیے اڑتی پنچھی سے سہارا یا چلتی گاڑی پہ سوار ہونے کے خواہاں ہیں۔

سیکولرز سے ان نکات پہ اتفاق ضروری ہے جو اسلام کو بحیثیت دین حیثیت کے خلاف نہیں ہیں۔ بظاہر سیکولرازڈ گیٹ اپ و لیکن اسلامی دماغوں کی افزائش ہی نسل پہ احسان عظیم ہو گا وگرنہ ایک بڑی تعداد شیطان کی پوجا کرتے ہوئے بھٹکنے لگے گی۔ دراصل وہ چند فیصد اشرافیہ ہے جو ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے۔ یہ مافیاز ہیں اور ہماری آپسی لڑائی سے صرف ان کا فائدہ ہے۔ اقبال رح نے شاہین کی طرح اونچا اڑنے کا سبق دیا ہے۔ خودی کا سبق دیا ہے۔ قائد اعظم رح اقبال رح کے اسباق کی عملی تشریح تھے۔ اقبال نے کہا تھا:

Advertisements
julia rana solicitors

اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply