توجہ (22)۔۔وہاراامباکر

“محبت کی گہرائی کا ہمیں خود اس وقت تک معلوم نہیں ہوتا جب تک جدائی کا گھنٹہ نہ آ جائے”۔ یہ فقرہ خلیل جبران کی کتاب “پیغمبر ” سے ہے۔ کیا اس کو سائنس کی سپورٹ بھی حاصل ہے؟ اس کے لئے ایک نظر قدرت کی ایک اہم نیورل ٹیکنالوجی پر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دماغ کا کام مستقبل کی پیشگوئی ہے۔ جب دماغ کا سرکٹ تبدیل ہو رہا ہوتا ہے تو اس کی بڑی وجہ مستقبل کا اندازہ لگانا ہے۔ جو خبر ویسے ہی رہنی ہے، وہ خبر نہیں رہتی۔ آنکھ کے آگے خون کی رگیں ہمیشہ کے لئے اس لئے غائب ہیں کہ بصری سسٹم کی پیشگوئی اس میں تبدیلی کی نہیں۔ اور یہ نظرانداز ہو جاتی ہے۔ جب تک کچھ توقع کے برخلاف نہ ہو، دماغ اس ڈیٹا پر توانائی ضائع نہیں کرتا۔
دماغ نیورونز کی توانائی خرچ نہیں کرنا چاہتا اور اس لئے اس کا مقصد اپنے نیٹ ورک کو ویسے ترتیب دے لینا ہے کہ اس کی توانائی کم سے کم استعمال ہو۔ خاموش اعصابی نظام وہ ہو گا جہاں پر سب کچھ توقع کے مطابق ہو رہا ہو۔ جو اس کی پیشگوئی ہے، ویسا ہی دنیا چل رہی ہو۔ خاموشی سنہری ہے۔ کئی نیوروسائنٹٹ بتاتے ہیں کہ نیورون کی ایکٹیویٹی دنیا کی ایکٹیویٹی کی نمائندگی کرتی ہے۔ لیکن شاید یہ اس سے بالکل متضاد ہو۔ سپائیک توانائی خرچ کرنے والا مہنگا کام ہے۔ ایسی شے جس کی ٹھیک ٹھیک پیشگوئی کی جا سکے، اس کا سگنل نیورون کے جنگل میں خاموشی ہے۔
سرپرائز وہ شے ہے جس پر نظام ایڈجسٹ ہوتا ہے۔ اگر آپ کے سامنے ایک ہی جیسی اینٹیں پڑی ہیں اور آپ کا خیال ہے کہ سب کا وزن ایک ہی جتنا ہے تو دماغ اینٹ کا وزن کیلکولیٹ کرنا بند کر دے گا۔ صرف وزن کے حوالے سے چونکا دینے والی اینٹ اس طرف توجہ مبذول کروائے گی۔
کیا آپ کے ساتھ ایسا ہوا ہے کہ آپ اپنے خیالوں میں بالکل گُم چلتے جا رہے ہیں اور اسی طرح گھر پہنچ گئے۔ راستے میں کچھ پتا نہیں لگا کہ کب کہاں مڑے، راستے میں کیا آیا؟ یہ صرف اس وقت ممکن ہے اگر یہ ایسا راستہ ہے جس سے اچھی طرح واقفیت ہے اور دماغ اچھی پیشگوئی کر سکتا تھا۔ لیکن راستے میں اچانک غیرمتوقع واقعے نے ہڑبڑا دیا۔ سوچوں کا تسلسل توڑ دیا۔ حیرت اہم ہے، معمول نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دماغ مسلسل دوبارہ کیلیبریشن کر رہا ہے تا کہ کم توانائی خرچ کر سکے لیکن یہاں پر اس سے بھی گہرا اصول ہے۔ کھوپڑی کی قید میں دماغ بیرونی دنیا کا ماڈل بنا رہا ہے۔
جب آپ گھر کے قریب ہیں تو اپنے اردگرد کم توجہ دیں گے کیونکہ دماغ کے پاس اس علاقے کا اچھا ماڈل پہلے سے ہے۔ لیکن کسی دوسرے شہر میں جب آپ کوئی خاص جگہ ڈھونڈ رہے ہیں تو آپ کو سب کچھ دیکھنا ہے۔ سڑکوں پر لگے بورڈ، دکانوں کے نام، عمارتوں کے نمبر۔۔ دماغ کے پاس یہاں کی پیشگوئی کا اچھا ماڈل نہیں۔
اچھا ماڈل کیسے بنے گا؟ وہ نیورل ٹیکنالوجی کونسی ہے جو یہ جادو کرے گی؟ غیرمتعلقہ کو نظرانداز کر کے وہاں تک پہنچا دے گی جو توقع کے خلاف ہے؟ اس نیورل ٹیکنالوجی کو “توجہ” کہا جاتا ہے۔
کہیں سے آ جانے والی آواز، اچانک کسی چیز کا چھو جانا، کہیں غیرمتوقع حرکت ۔۔۔ توجہ اس طرف مرکوز ہو جاتی ہے۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ہائی ریزولیوشن سینسر اب اس مسئلے کی طرف لگ گئے اور ماڈل بنا رہے ہیں۔ “یہ تو بلی نے چھلانگ لگائی تھی۔ ہمسایے کے بچوں کی گیند گھر میں گری ہے۔ تیز ہوا کے جھونکے سے سرسراہٹ ہوئی تھی”۔ اس کے مقابلے میں “پاوٗں میں جوتے کیسے محسوس ہو رہے ہیں” ذہن میں جگہ نہیں لیتا کیونکہ اس کا ماڈل پیشگوئی کے عین مطابق ہے لیکن اس میں کنکر آ جائے تو پھر توجہ اس طرف چلی جائے گی۔ ماڈل اب اپڈیٹ کے لئے پکار رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیشگوئی اور نتیجے کے درمیان کا فرق ہمیں ایک سیکھنے کے عمل کے ایک حصہ کے بارے میں ایک اہم انسائیٹ دیتا ہے۔ اگر پیشگوئی پرفیکٹ ہے تو دماغ کو تبدیلی کی ضرورت نہیں۔ حیران کن اور کچھ اچھوتا ہونا سیکھنا آسان کر دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس پس منظر کے ساتھ اب یہ سمجھنا آسان ہے کہ منشیات اعصابی نظام کو کیسے تبدیل کرتی ہیں۔ منشیات کا استعمال دماغ میں ڈرگ ریسپٹرز کو اس حد تک تبدیل کر دیتا ہے کہ کسی کے مرنے کے بعد دماغ کی مالیکولر تبدیلیاں یہ بتا دیتی ہیں کہ اس کو نشہ کس چیز کا تھا۔ اور یہ وجہ ہے کہ اس کا عادی ہو جانے کے بعد نشئی اس سے غیرحساس ہو چکا ہوتا ہے۔ دماغ کی پیشگوئی ڈرگ کی موجودگی بن جاتی ہے۔ بائیولوجیکل تفصیلات خود کو calibrate کر چکی ہوتی ہیں۔ اور اب چونکہ سسٹم ڈرگ کی موجودگی ہونے کی توقع کر لیتا ہے، اس لئے نشے سے لطف اندوز ہونے کے لئے ڈرگ کی مقدار بڑھائی پڑتی ہے۔ اور نشہ چھوڑنے کے بدصورت وقت کی علامات کے پیچھے یہی کیلیبریشن کارفرما ہے۔ جتنا زیادہ دماغ اس کا عادی ہو جائے، اس کا چھوڑنا اتنا مشکل اور بدصورت ہو جاتا ہے۔ پسینے چھوٹنا، لرزنا، ڈیپریشن جیسی علامات کا انحصار اس پر ہے کہ نشہ کس چیز کا تھا لیکن ان سب میں ایک چیز مشترک ہے۔ دماغ کسی چیز کے نہ ہونے کی اونچی پکار دے رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہی نیورل پیشگوئی ہمیں دل ٹوٹ جانے کی وضاحت بھی کر دیتی ہے۔ آپ جن سے محبت کرتے ہیں، وہ آپ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ استعاراً نہیں، اصل میں۔ یہ لوگ آپ کے اندرونی ماڈل میں جذب ہو جاتے ہیں۔ دماغ ان کی موجودگی کو اپنی توقعات کا حصہ بنا لیتا ہے۔ ناطہ ٹوٹ جانے، کسی عزیز کے انتقال، والدین کے فوت ہو جانے یا کسی بھی اہم شخص کے زندگی سے نکل جانا زندگی کے توازن کو الٹا کر رکھ دیتا ہے۔
محبوب ہو یا دوست، والدین یا عزیز۔ یہ ہمارے لئے زندگی کے اندرونی ماڈل کے ٹکڑے ہیں۔ جس طرح کشتی سے ساحل پر اترنے کے بعد ہچکولے محسوس ہوتے ہیں۔ منشیات اپنے چھوڑنے کے بعد اپنی عدم موجودگی کا احساس دلاتی ہیں، ویسے ہی دماغ ان لوگوں کی موجودگی سے مانوس ہو جاتا ہے۔ پھر جب کوئی روٹھ جائے، چلا جائے یا دنیا میں نہ رہے تو پھر دماغ اس توقع کے پورا نہ ہونے کی طرف توجہ کر لیتا ہے۔ یہ فراق کا غم ہے۔ دل ٹوٹ جانے کا عمل ہے۔ بچھڑ جانے کے آنسو ہیں۔
اور پھر رفتہ رفتہ، وقت کے ساتھ یہ اس دنیا سے ایڈجسٹ ہو جاتا ہے، جہاں پر جانے والا اب نہیں۔ نیا نارمل بن جاتا ہے۔ افراد ہوں یا معاشرے ۔۔ سست رفتار تبدیلی ہو جانے کا پتا بھی نہیں لگتا۔
کچھ بھی بیت جائے، زندگی پھر واپس لوٹ ہی آتی ہے۔ یہ دماغ کا کرشمہ ہے۔ لچک کی نعمت ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply