• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پہنچی ہوئی سرکار اور سینہ بہ سینہ علم کا معمہ آخر کیا ہے؟۔۔عبدالستار

پہنچی ہوئی سرکار اور سینہ بہ سینہ علم کا معمہ آخر کیا ہے؟۔۔عبدالستار

بچپن سے چند جملے سنتے آئے ہیں کہ “فلاں بندہ پہنچی ہوئی سرکار ہے اور اس کو پراسرار قسم کے علم کا بہت زیادہ گیان ہے اس کے علاوہ وہ غیب کی باتیں بھی بتا سکتا ہے وغیرہ وغیرہ”جب ہم افواہ زدِعام قسم کے ایسے بندے کو غور سے دیکھتے ہیں تو صورت حال یکسر نظر آتی ہے ۔وہ ایک ننگ دھڑنگ قسم کا عام سا بندہ ہوتا ہے اور اسے خود کی خبر نہیں ہوتی وہ دوسروں کو بھلا کیا بتائے گا۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قسم کے کریکٹر ہمارے سماج میں کیوں پیدا ہوتے ہیں یا سماجی اندھیر نگری کی وجہ سے کچھ محروم لوگ اس قسم کا پراسرار بہروپ اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں یا پھر کاروبار سلطنت کو چلانے والے چند سماجی پنڈت ایسے بہروپیوں کے لیے سماج میں پنپنے کے لیے گنجائش پیدا کرتے ہیں۔کیونکہ “اسٹیٹس کو” کو چلانے کے لیے ایسے لوگوں کا گروہ بہت اہم کردار ادا کرتا ہے ۔پراسراریت کے اس مایا جال کو مضبوط بنانے کے لیے یہ ہستیاں”چند خاص سماجی بڑوں”کو اپنے روحانی پروں اور مقدس کمبلوں میں چھپا لیتی ہیں تاکہ عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے حکمرانوں کی بجائے خالی آسمانوں پر کسی ان دیکھی ہستی کو تکتے رہیں اور اپنے گناہوں کی تسبیح پڑھتے رہیں۔جبہ اور دستار میں ملبوس یہ لوگ ایک ہی راگ الاپتے رہتے ہیں تاکہ عوام اسی راگ کی مالا جپتی رہے وہ مشہور راگ یہ ہے ۔

· اللہ کی رضا پر راضی رہو اور شکوہ کاایک جملہ بھی زبان پر مت لاؤ۔

· جو ہوتا ہے سب اچھے کے لیے ہوتا ہے ۔

· ایک در بند ہوتا ہے تو کئی در کھل جاتے ہیں۔

· جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ سب ہمارے اعمال کا ہی نتیجہ ہوتا ہے ۔

· حالات کو بہتر کرنے کے لیے ہمیں اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہنا چاہیے۔

· ملک کے جو اس وقت حالات ہیں وہ سب ہمارے گناہوں کی وجہ سے ہے ۔

یہ وہ Shadowy sentences ہیں جو ایک سیدھے سادھے بندے کی آنکھوں پر ایک ایسے بلنکرزکا کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے مسائل کے اصل روٹ کاز اس کی نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔اپنے بازؤں اور ہمت پر بھروسہ کرنے کی بجائے بیچارے کو اپنے اعمال کی درستگی کی فکر لاحق ہوجاتی ہے ۔یہ سب کچھ روحانیت کے نام پر ہوتا ہے اور روحانیت ایک ایسی پراسرار پروڈکٹ کا نام ہے جو کبھی بھی آؤٹ ڈیٹ یا ایکسپائر نہیں ہوتی ۔اکثر یہ بات سننے کو ملتی ہے کہ فلاں بندے کے پاس جو علم ہے وہ غیب کا علم ہے اور یہ علم درویش لوگ ،سائیں بابا اور مشائخ عظام جیسوں کو سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا ہے اور ہر کوئی اس علم کو سنبھالنے کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے سابقے لاحقے والوں کی خانقاہوں اور آستانوں پر برقی قمقمے ٹمٹماتے رہتے ہیں جبکہ ان کے پیروکار کے گھروں میں دیا بھی بامشکل جلتا ہے اور روٹی بھی مشکل سے پکتی ہے ۔ان کے چہرے پر لالی اور ہاتھوں کی ہتھیلیاں روئی کی طرح نرم ہوجاتی ہیں جبکہ پیروکار کے ہاتھوں پہ محنت مزدوری کرنے کی وجہ سے چھالے ابھر آتے ہیں اور چہرے کا رنگ بھی فق ہو جاتا ہے ۔یہ کیسا روحانیت کا رنگ ہے جو صرف چند مخصوص لوگوں کو رنگتا ہے اور صرف انہی کو راس آتا ہے جبکہ پیروکا ر “الکاسب حبیب اللہ” کی مالا جپتے جپتے اپنے دکھوں پر راضی باالرضا رہتے ہوئے قبر کی اندھیر کوٹھری میں اتر جاتے ہیں۔یہ روحانی پراسرایت کا مایا جال بے بس اور معاشی طور پر بد حال لوگوں کے ذہنوں پر ایک تقدسی شال کی طرح اوڑھا دیا جاتا ہے اور بے چارے یہ لوگ اپنی کسمپرسیوں اور بدحالیوں کو اپنے اعمال اور قسمت کے چکر پر ڈال کر ساری عمر سسکتے رہتے ہیں اور اپنی محنت کی جمع پونجھی کی بدولت خانقاہوں کے غلے اور بھڑولے خالی نہیں ہونے دیتے ۔لوگوں کو خوابوں کے سراب کے پیچھے لگانے میں کچھ ماڈرن روحانی بابوں کا بھی بھرپور کردار ہے۔یہ لوگ منہ بگاڑ کر انگریزی کے بھاری بھرکم جملے بول کر اپنا چورن بیچنے کی کوشش کرتے ہیں ۔آج کے دور کے ان “تلقین بابوں”میں موٹیویشنل سپیکرز بھی آتے ہیں جو چند رٹے رٹائے ایموشنل ڈائیلاگ اور واقعات کا تڑکہ لگا کر عوام کو خوابوں کی حسین جنت میں دھکیل دیتے ہیں۔یہ خود تو اپنے لیکچرز کا معاوضہ لاکھوں میں اینٹھتے ہیں جبکہ بھولے بھالے طلباء کو اپنی میٹھی میٹھی باتوں کے سحر میں گرفتار کر کے عملی پٹری سے اتار دیتے ہیں ۔ہماری نوجوان نسل کو سمجھنا چاہیے کہ غربت اور بدحالی کا یہ مکروہ چکر “چند بڑوں کا”چلایا ہوا ہے اور اس چکر کوکامیاب بنانے میں ان تلقین بابوں کا بھر پور کردار ہے ۔اس مکروہ چکر کا پہیہ روکنے کے لیے خود کو باشعور بنانا ہوگااور بے خبری کی میٹھی نیند سلانے والی کٹھی میٹھی باتوں کے سحر سے باہر نکلنا ہوگا کیونکہ مسائل کا ادراک ہی مسائل کو حل کرنے کی بہترین چابی ہے ،ہمیں اپنی قسمت کا تالا اپنے شعور کی کنجی سے خود ہی کھولنا ہوگا ورنہ چند لوگ ہمیشہ کے لیے ہمارے آقا اور ہم ان کے محکوم بنے رہیں گے اور یوں یہ مکروہ چکریونہی چلتا رہے گا۔حبیب جالب نے تو بڑا عرصہ پہلے کہہ دیا تھا کہ

یہ جو دس کروڑ ہیں جہل کا نچوڑ ہیں

ان کی فکر سو گئی ،ہر امید کی کرن

ظلمتوں میں کھو گئی

Advertisements
julia rana solicitors

جہالت کی دیوار کو گرانے کے لیے خود کو ایجوکیٹ کرنا ہوگا شعور کے زینے چڑھنے سے ہی ہماری ظلمتیں اور بدحالیاں دور ہوسکتی ہیں۔ہمیں موٹیویشن اپنی ذات سے لینا ہوگی کیونکہ آج ہم سائنس اور گوگل بابا کے دور میں جی رہے ہیں۔

Facebook Comments