شیشہ دل پر مرہمِ زنگار….احمد رضوان

انسانی یادداشت بھی بڑے عجیب و غریب طریقے سے کام کرتی ہے۔ کبھی کبھار تو کوئی ایسی بات حافظے میں محفوظ رہ جاتی ہےجو بظاہر اہم نہیں ہوتی  اور کبھی یوں ہوتا ہے کہ ہم بہت اہم باتیں بھول جاتے ہیں۔ اس اختصاص میں گزرے ہوئے ماہ و سال کا حساب بھی کوئی معنی نہیں رکھتا ۔بعض اوقات تو کئی سال پرانی بات  جو لاشعور میں کہیں چھپی ہوتی ہے ایک دم سامنے آ جاتی ہے۔اس تمہید دل پذیر کا مقصد اس شعر کے یاد آجانے سے ہے جو   مڈل سکول میں ماسٹر ریاض صاحب نے   سنایا تھا  کہ جس طرح آ پ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہوتی ہے  اسی طرح کسی آدمی  نے اپنا تعارف بزبان شعر یوں کروایا ۔

خاک در خاک تیرے پاؤں کی خاک

خاکسار کو خاکوانی کہتے ہیں

یوں وسطی پنجاب کے شہر لائلپور میں رہائش پذیر ایک طالب علم کا لفظ خاکوانی سے اولیں تعارف ہوا۔ نوےکی دہائی کے آخر میں یونیورسٹی سے ڈگری لے کر عملی زندگی کا آغاز کیا تو خانیوال، ملتان اور لودھراں میں موجود خاکوانیوں سے ربط ضبط پڑھا۔انہیں نام ہی کی طرح سلیم و حلیم الطبع، نرم خو اور متواضع پایا۔اپنی شیریں دہنی اور لہجے کی مٹھاس سے دوسرے کو چاہت کے شیرے سے شرابور کردینا ان کا خاصہ ہے ۔عامر خاکوانی  نے جب کالم نگاری کے سفر کا آغاز کیا تو ان کے اولیں دور کے کالمز کی خواندگی نے ان کا گرویدہ بنا  ڈالا۔ان کے کالم کا عنوان بھی عام ڈگر سے ہٹ کر تھا ۔لفظ زنگار (پنجابی میں زنگال ) کثیر المعنی لفظ ہے جو تانبے کے کساؤ، طوطیائی ہرے یا نیلا تھوتھا کے معروف معانی میں مستعمل ہے ۔تانبے کے کساؤ سے زہر کشید کرکے  اس سے تریاقی مرہم بھی تیار کیا جاتا ہے۔  اس لفظ زنگار کو نامور شعراء نے بڑی عمدگی سے استعمال کیا ہے ۔ غالب کے کافی اشعار میں اس کا چست استعمال موجود ہے ۔ جیسا کہ ” چمن زنگار ہے آئینہ باد بہاری کا” یا” زنگار خوردہ آئینہ یک  برگ تاک ہے”یا  ” وصل زنگار رخ آئینہِ حسن یقیں”۔ہم تو فقط  منو لال صفا لکھنوی کے اس شعر کے قاری تھے

چمن کو کب یہ سلیقہ ہے ستم گاری میں

کوئی معشوق ہے اس پردہء زنگاری میں

رخ سبزہ  پر زنگارکا جلوہ شاعروں کے ہاں دیکھا تو عجب حال پایا ، حسرت موہانی نے اپنے شعر میں اسے یوں باندھا

سبزہء خط ترے عارض پہ نمودار ہوا

حیف اس آئینہ صاف پہ زنگار ہوا

جب اس کے متضاد انعام اللہ خاں یقین نے اسے  یوں بیان کیا

مجھے دکھ پھر دیا تو نے منڈا کر سبزہء خط کو

جراہت کو مرے وہ مرہمِ زنگار بہتر تھا

واقعی یہ کیفیت کوئی خاں ہی لکھ سکتا ہے۔

راقم نے اپنی جوانی دیوانی کا دف  کتب بینی ، کیسٹ ریکارڈر اور ریڈیو پر گانےسنتے اور کرکٹ کے میدانوں میں خون اور پسینہ بہاتے ہوئے مارا۔اس دور میں نہ تو سوشل میڈیا تھا نہ موبائل فون اور نہ ہی انٹرنیٹ ارزاں اور سہل الحصول تھا۔ روزانہ اخبار پڑھنے کا چسکا  اور ماہانہ ڈائجسٹ  کی قرات کی وجہ سے حالات حاضرہ، محاضرہ اور معاصرہ پرہر طرح کی چیزیں پڑھنے کو ملتی رہتی تھیں۔ کالم نگاروں کی ایک طویل فہرست ہے جس کا باقاعدگی سے مطالعہ معمول کا حصہ رہا۔  م ش ، زیڈ اے سلہری ،وقار انبالوی، عبدالقادر حسن، نصراللہ خان، منوبھائی،نذیر ناجی،ارشاد حقانی ،الطاف قریشی اور ان گنت دیگر کالم نگار ان سب کے کالموں سے سیاسی ،غیر سیاسی اور معاشرتی اٹھک بیٹھک کا پتہ چلتا رہتا تھا۔عامر خاکوانی  کی کئی تحریریں آج بھی حافظے میں محفوظ ہیں ۔ان کا مثال دے کر کسی واقعے سے نتیجہ اخذ کرنا اور اپنے کالم میں پیش کرنا بہت اچھا لگتا تھا۔ ان کے موٹیویشنل کالمز میں کئی واقعات یوں یاد ہیں جیسے کل ہی بات ہے۔ میں ان میں سے چیدہ چیدہ اہم باتیں اپنی ڈائری میں نوٹ کر لیا کرتا تھا۔یوں کالم نویسی جیسا کام بھی آپ کو اخبار پڑھنے میں دلچسپی لینے پر مجبور کردیتا ہے۔

دو ہزار بیس انسانی تاریخ میں ایک یاد رہنے والا سال رہے گا ۔اس نے بنی نوع انسان کو اس کی اصل اوقات یاد دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ لاک ڈاؤن کے دیگر فیوض و ثمرات ازقسم  آبادی میں اضافہ کی اندیشہ ناکیوں کے ساتھ ساتھ ساتھ کتابیں جم کر پڑھنے کا بھی لوگوں کو قدرت نے بھرپور موقع فراہم کیا۔کتنی ایسی کتابیں تھیں جن کو پڑھنے کے لیے درکار یکسوئی اور فراغت نصیب نہ تھی وہ ان  دنوں میں  وافر مقدار میں میسر آگئیں۔یہ سال کتب بینی  اور ان کی طباعت و اشاعت کے لیے نیک ثابت ہوا ہے۔

سعدی شیرازی  نے کہا تھا

فراغتے،کتابے و گوشہ چمنے۔

Advertisements
julia rana solicitors

عامر خاکوانی کے کالمز پرمشتمل کتاب  زنگار بک کارنر والوں نے چھاپی ہے جس کے لیے عامر خاکوانی اور بک کارنر والوں کو بہت بہت مبارک باد ۔جو باتیں ہم ڈائری میں لکھا کرتے تھے، اب کتابی صورت میں دستیاب ہیں اور انہیں ریفرنس بک کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔وہ تمام دوست جو عامر خاکوانی کی تحریروں اور تجزیات سے کچھ نہ کچھ کشید کرتے ہیں ان کے لیے یہ کتاب اب حاصل کرنے کا اچھا موقع ہے۔ سردیاں آ  نہیں رہیں  بلکہ سردیاں آگئی ہیں، تو رضائی میں گھس کر انگیٹھی جلا کر چائے یا کافی  کے ساتھ ساتھ ان کالمز کو اور تحریروں کو پڑھنا پرلطف ہوگا۔ عامرخاکوانی کرشماتی شخصیت کے مالک ہیں ۔ ان کو دیکھ کر عبدالحمید عدم یاد آ جاتے ہیں وہی عدم جن سے ایک بار ان کا نام پوچھا گیا تو وہ بولے عبدالحمید عدم،وہ صاحب آگے سے بولے اگر آپ عدم ہیں تو وجود کیا ہو گا؟خیر یہ تو ایک  جملہ غیر معترضہ تھا ۔عامر خاکوانی کی تحریریں  جہاں آلودہ قلوب سے زنگ اتار کر انہیں صیقل کرنے میں مددفراہم کرتی ہیں اور وہیں  شیشہ دل پر مرہم کا کام دیتی ہیں۔

 

 

 

 

Facebook Comments

احمد رضوان
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد سرگشتہ خمار رسوم قیود تھا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ” شیشہ دل پر مرہمِ زنگار….احمد رضوان

  1. کتاب کے تعارف کے ساتھ ساتھ بڑے شعرا کے کلام کا خوبصورت جوڑ لگا کر آپ نے ہم پڑھنے والوں کے لئے ناصرف خاکوانی صاحب بلکہ کتب بینی کا شوق دو چند کر دیا ہے ۔ بلاشبہ خاکوانی صاحب صحافت اور کالم نگاری کا ایسا پیارا نام ہیں جن کی تعریف کئے جانے کو دل چاہتا ہے اور آپ نے صحیح معنوں میں اپنے اور ہمارے دل کی آواز کو لفظوں کی زبان عطا کرنے کا حق ادا کر دیا ۔ سلامت رہئے اور لکھتے رہئے ۔

Comments are closed.