کرونا ویکسین جلد دستیاب ہوگی۔۔عزیر سرویا

کرونا کی ویکسین پائپ لائن میں ہے انشاءاللہ جلد بڑے پیمانے پر دستیاب ہو جائے گی۔
لوگوں کے بہت سے تحفظات ہیں جن کا مختصر اور تسلی بخش جواب دینے کی کوشش  کروں گا۔ فیصل رضا عابدی اور زید زمان حامد کی سطح کے اعتراضات سے لے کر پڑھے لکھے لوگوں کے تحفظات تک شامل کیے جا رہے ہیں۔ روز مجھے کوئی نئی ویڈیو موصول ہوتی ہے جس میں چند مخصوص باتیں دہرائی جاتی ہیں، کمنٹس میں اگر کوئی ان کے علاوہ مزید سوالات کرنا چاہے تو اسے بھی جواب دینے کی کوشش کروں گا۔

ویکسین سے ڈی این اے تبدیل کر کے جانوروں یا دوسری مخلوقات کا ڈی این اے شامل کیا جائے گا (جس سے مذہب، محرم رشتوں کی پہچان، تولیدی صلاحیت ختم ہونے جیسے رنگا رنگ نتائج مختلف سازشی تھیوریسٹ بتاتے ہیں)
ویکسین کام کس طرح کرتی ہے پہلے ایک مثال سے سمجھ لیں:
جنگ پے بھیجے جانے سے پہلے فوجی ٹریننگ کے دوران جیسے نقلی ٹارگٹ (جو پتلے کی شکل میں ہوتا ہے) پر بندوق چلانے کی تربیت دی جاتی ہے، اسی طرح ویکسین ہمارے خون میں موجود جنگجو خلیوں کو ٹارگیٹ پریکٹس کروانے کا کام کرتی ہے۔
یہ ٹارگیٹ کبھی کیمیائی پراسیس سے مردہ یا کمزور کیا ہوا وائرس ہوتا ہے، کبھی وائرس کے اجزائے ترکیبی میں سے کوئی ایک جزو اور کبھی اس وائرس سے خارج ہونے والا کوئی مادہ۔
انسانی خلیے ساخت میں خوبانی سے مشابہت رکھتے ہیں، ڈی این اے جو کہ اہم ترین چیز ہے وہ مرکز میں گھٹلی کی طرح سخت خول میں بند ہوتا ہے جس تک خلیے کے اپنے اجزاء کو بھی مکمل رسائی نہیں دی جاتی۔ کورونا ویکسین میں جو چیز ٹارگیٹ پریکٹس کا کام دینے والی ہے اس کا داخلہ گھٹلی کے اندر یعنی ڈی این اے تک ہوتا ہی نہیں ہے، خلیے کے بیرونی حصے میں ہی تمام معاملہ طے ہو جاتا ہے۔ اس لیے یہ بات کہ کرونا ویکسین ڈی این اے میں جا کر فِٹ ہو جائے گی جھوٹ اور جہالت کا مرکب ہے۔

یاد رکھیں، ڈی این اے انسان کے جسم میں موجود ہر چیز کا مرکزی کوڈ یا کنٹرولنگ یونٹ ہے۔ اس میں معمولی تبدیلی کرنے سے بھی کئی دفعہ کینسر اور مہلک جینیاتی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اگر سازشی تھیوریسٹوں کی یہ بات مان لیں کہ ڈی این اے بدلا جا رہا ہے تو ایسے بڑے پیمانے کی تبدیلی زندگی کے ساتھ مطابقت رکھ ہی نہیں سکتی۔ مزید یہ کہ محرم رشتوں کا تقدس، مذہب کی طرف میلان وغیرہ جینیاتی عوامل سے زیادہ شعوری رویے ہیں، یعنی کسی کا ڈی این اے تبدیل کرنے سے آپ اس انسان کو مارنے کا بندوبست تو کر سکتے ہیں لیکن اس میں یوں مخصوص شعوری تبدیلیاں برپا نہیں کر سکتے (اب تک کی سائنسی دریافتوں کے ساتھ تو قطعاً نہیں کر سکتے)۔

عموماً ویکسین بننے میں کئی سال لگ جایا کرتے ہیں، یہ ویکسین اتنی جلدی کیسے بن گئی؟

جیسے اوپر بتایا ہے، ویکسین میں وائرس ہی کے اجزائے ترکیبی میں سے کوئی جزو استعمال میں لایا جاتا ہے ٹارگیٹ پریکٹس کے لیے، کرونا ویکسین کے لیے کرونا وائرس کے میسنجر آر این اے، جسے mRNA بھی کہا جاتا ہے، اسے کام میں لایا گیا ہے۔
کرونا کی ویکسین اپنی طرز کی پہلی ویکسین ہے۔ اس سے قبل کوئی بھی mRNA ویکسین نہیں بنی ہے۔ پہلے جو ویکسینیں بنتی رہی ہیں ان میں یا تو وائرس کو مردہ حالت میں، یا کمزور حالت میں یا اس کے کسی مخصوص حصے کو جسم میں داخل کیا جاتا تھا۔ پہلے وائرس کو ڈھونڈو، پھر لیب میں آئیسولیٹ کرو، پھر اسے آدھا پونا مار کے غیر فعال کر کے اس حالت میں لاو کہ وہ بیماری کا باعث تو نہ بن سکے البتہ امیونیٹی پیدا کرنے کے قابل رہے، پھر اسے ٹھیک ڈوز میں جانوروں پر ٹیسٹنگ کے بعد انسانوں کے لیے موزوں بناؤ، پھر انسانوں میں ٹیسٹ کر کے کمرشل بنیادوں پر لانچ کرو۔۔۔یہ تھا عمومی طریقہ۔

کرونا کی ویکسین چونکہ اپنی  طرز کی پہلی یعنی mRNA ویکسین ہے، سو اس نے ہمیں وائرس ڈھونڈ کے آئیسولیٹ کرنے اور متوازن انداز میں اسے غیر فعال کر کے ٹیسٹنگ کرنے کے جھنجھٹ سے آزادی دے دی۔ اسی سال جنوری میں چینی سائنسدانوں نے وائرس کا ڈی این اے کوڈ دریافت کر کے آدھا کام پہلے ہی کر دیا تھا۔ بجائے اصل وائرس استعمال میں لانے کے، سائنسدانوں نے وائرس کا یہی کوڈ پڑھ کر اس کے کچھ اجزاء یعنی وائرس کا mRNA مصنوعی طور پے لیب میں بنا ڈالا، اور یہی جانوروں پر ٹیسٹ کر کے اس کی سیفٹی بارے تسلی کر کے انسانوں کے لیے اپروو کیا گیا۔
یہ وجہ ہے کہ ویکسین اتنی جلدی بن گئی۔ اب اگر ذہن میں سوال آتا ہے کہ mRNA سے ویکسین بن سکتی تھی تو باقیوں کو کیوں ایسے نہ بنایا اور اتنا وقت لگایا؟ تو جواب یہ ہے کہ mRNA ویکسینوں پر زیادہ ریسرچ 1995 سے شروع ہوئی۔ 2005 میں اس ریسرچ میں بریک تھرو آئی۔ اس کے بعد اس ٹیکنالوجی کو کینسر کی ویکسین بنانے کے لیے استعمال میں لانے پر زور دیا جانے لگا (اوپر بتایا ہے کہ خلیے کا ڈی این اے تبدیل کیا جائے تو کینسر بن سکتا ہے، تو ریسرچر انہی قدرت کی طرف سے تبدیل شدہ ڈی این اے والے کینسر کے خلیوں کے خلاف ویکسین تیار کر کے جسم کے جنگجو خلیوں سے ان کو مروانے پر ریسرچ کر رہے تھے)۔ کرونا آیا تو اسی ریسرچ کا رُخ اس کی جانب مُڑ گیا۔ جنوری میں کوڈ تو بریک ہو ہی گیا تھا، کرنے کا کام بس لیب میں mRNA کی تیاری اور جانوروں پے ٹیسٹنگ تھی جو احسن طور پر نمٹا لیا گیا۔

ویکسین میں نینو ٹیکنالوجی یا مائیکرو چِپ ہے اور پانچ جی کے ذریعے انسانون کی جاسوسی اور دماغ کنٹرول کیے جائیں گے

ویکسین میں کرونا کا mRNA موجود ہے جسے واقعی نینو ٹیکنالوجی کے تحت بنائے گئے ایک مالیکیول میں لپیٹ کر جسم میں داخل کیا جائے گا۔ نینوٹیکنالوجی محض ایسے ہے جیسے کسی کو تحفہ دینے سے قبل اسے گفٹ پیپر میں لپیٹا یا رَیپ کیا جاتا ہے۔ لیب میں تیار کردہ mRNA کے گرد نینوٹیکنالوجی سے تیار کردہ ایک قدرتی اجزاء سے مماثل خول چڑھایا جاتا ہے جس سے یہ انسانی جسم کے لیے قابل قبول حالت میں آ جاتا ہے تاکہ متعلقہ خلیوں میں پہنچ کر اپنا کام کر سکے۔
میں خود کینسر کے شعبے سے وابستہ ہوں، اور کئی سالوں سے کینسر کی ادویہ متعلقہ جگہ تک بہتر طریقے سے پہنچانے کے لیے پہلے ہی نینوٹیکنالوجی کا استعمال ہو رہا ہے اس شعبے میں۔ دو مثالیں liposomal Doxorubicin اور nab-Paclitaxel کی ہیں جو نہایت معروف دوائیں ہیں کینسر کی۔

یہ پانچ جی اور نینوٹیکنالوجی کا شور اب اس لیے اٹھ رہا ہے کیونکہ شور کرنے والوں کو معلوم ہی اب ہوا کہ یہ بھی کوئی چیز ہے۔ اگر جاسوسی کرنا مقصود ہے تو ہر کسی کے پاس موبائل یا کوئی نہ کوئی گیجٹ ہے جو اس کام کے لیے زیادہ موزوں ہے، جبکہ دماغ کنٹرول کرنے کے لیے ایک انجیکشن جتنی مقدار میں سمانے والی کوئی بھی چیز اگر وجود میں آئی ہوتی تو اس کو جسم میں داخل کرنے کے لیے ویکسین سے بہت سستے اور موثر طریقے موجود ہیں: خوراک کا حصہ بنا کر خون میں داخل کرنا، ہوا میں چھوڑ کر براستہ پھیپھڑے خون میں داخل کرنا وغیرہ۔ خون میں آئرن پہلے ہی رب نے وافر مقدار میں ڈال رکھا ہے، اگر کبھی مائنڈ کنٹرول کرنے والی ٹیکنالوجی آ گئی تو یہی آئرن سگنل ریسیو کرنے کے لیے بہت کافی ہو گا۔ بیچاری نینوٹیکنالوجی کو بدنام اس لیے کیا جا رہا ہے کہ معصوم اور سادہ لوح سازشی تھیورسٹوں کو اس کا پتا ہی اب چلا ہے (جبکہ یہ پہلے ہی کئی سال سے زیر استعمال ہے)۔

جب کرونا سے مرنے والوں کی شرح سو یا ہزار میں سے ایک ہے تو اس کی ویکسین لگوانے کا کیا فائدہ ہے

یہ بالکل جائز سوال ہے۔ اگر شرح اموات ہزار میں سے ایک فرد فرض کر لیں، تو بیس کروڑ کی آبادی میں یہ تقریباً دو لاکھ بنتے ہیں۔ یہ واقعی بہت زیادہ نہیں ہیں۔ اگر آپ اپنے یا اپنے والدین کے لیے اس ہزار میں سے ایک ہونے کے امکان والی بازی کھیلنے کے لیے رضامند ہیں تو کسی کو حق نہیں کہ آپ کو مجبور کرے۔

ویکسین کے ممکنہ سائیڈ افیکٹ کیا ہیں اور کیا تحقیق سے تسلی کر لی گئی ہے کہ مضر اثرات حدود کے اندر ہیں؟

جی ہاں، پوری تسلی کر کے ہی ویکسین لانچ کی گئی ہے استعمال کے لیے۔ خطرے کا امکان دنیا کی کسی چیز پر کبھی بھی صفر تک نہیں پہنچایا جا سکتا۔ جیسے آپ گاڑی لے کر نکلتے ہیں تو امکان ہمیشہ رہتا ہے کہ آپ حادثے کا شکار ہو کے مارے جا سکتے ہیں، لیکن آپ اس امکان کو تسلیم کرتے ہوئے بھی روز نکلتے ہیں، اسی طرح امکان موجود ہے کہ لانگ ٹرم میں اس ویکسین کے بھی کچھ ناپسندیدہ اثرات سامنے آ جائیں۔ اگر آپ ان اثرات کے خوف سے چاہتے ہیں کہ انتظار کر لیں اور دوسروں میں اس کے اثرات کا مشاہدہ کر کے تسلی کر کے فیصلہ لیں تو یہ آپ کا استحقاق ہے۔
میرے حلقہ احباب میں کئی لوگ ویکسین لگوا چکے ہیں اور الحمدللہ سب خیریت سے ہیں۔ معمولی سائیڈ ایفیکٹس کے علاوہ کوئی تشویشناک اثرات نہ تحقیقی لٹریچر میں مذکور ہیں نہ میرے ذاتی مشاہدے میں آئے۔

بِل گیٹس کا ویکسین سے کیا تعلق ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

آپ دنیا کے کسی بھی شخص کے ویکسین سے تعلق بارے سوال پوچھ سکتے ہیں، لیکن ضروری نہیں کہ یہ سوال معقول اور اس کے جواب کو اہم بھی مانا جائے۔ اس بات سے کیا فرق پڑتا ہے کہ بِل گیٹس کا تعلق ویکسین سے کیا ہے؟ اگر ویکسین کے اجزاء، اس کے کلینیکل ٹرائل اور اس کے محفوظ ہونے پر ان لوگوں کا اتفاق ہے جو اس فیلڈ کے ماہر ہیں (یعنی ڈاکٹر)، تو پھر یہ اور اس طرح کے تمام سوال بالکل بے معنی ٹھہرتے ہیں۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ ویکسین کمرشل بنیادوں پر ہی بنتی ہے اور اس سے کمپنیوں کا مالی فائدہ منسلک ہوتا ہے۔ اگر منافع کی امید نہ ہو تو ویکسین بنانے پر کوئی سرمایہ کاری نہیں کرے گا۔ تو یہ مسئلہ بِل گیٹس کا نہیں اس لالچ اور مادیت پرستی کا ہے جس کا شکار آپ اور آپ کے معاشی و نسیاسی نظام بھی شاید اتنے (یا اس سے زیادہ) ہوں جتنا کہ بِل گیٹس۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply